|تحریر:منصور ارحم|
ان دنوں مملکت خداد میں کورونا وائرس کے نتیجے میں جہاں صحت کے شعبے کی تباہ کاریاں واضح نظر آرہی ہیں وہیں تعلیم کا شعبہ بھی تباہ و برباد ہوا پڑا ہے۔ علاج اور تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے مگر پاکستان میں ان دونوں شعبوں کی حالت دیکھ کر دو صورتیں سامنے آتی ہیں، ایک تو یہ کہ ریاست یہاں موجود ہی نہیں ہے اور دوسری یہ کہ اگر ریاست موجود ہے تو پھر یہ حکمران طبقے کی ریاست ہے اور اسکا کام صرف اسی کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ کیونکہ اس کی جانب سے ان دونوں شعبوں میں پیسہ بالکل بھی نہیں لگایا جا رہا، جبکہ دوسری جانب سرمایہ داروں کو 100 ارب روپے کا پیکج دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد حکومت کی جانب سے آن لائن کلاسز کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ پاکستان میں آن لائن کلاسز فالوقت کیوں ممکن نہیں ہیں اور انکے اجرا میں کیا مسائل درپیش ہیں، ان پر اس تحریر میں گفتگو کی جائے گی۔
ایچ ای سی کا بیانیہ
پچھلے دنوں چیئرمین ایچ ای سی کی طرف سے وضاحتی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ وبا کے دنوں میں چونکہ ہم نہیں چاہتے کہ طلبہ کے وقت کا ضیاع ہو، اس سلسلے میں ہم آن لائن کلاسز کے ذریعے سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس ضمن میں جامعات کے پروفیسرز کو ٹریننگ کی ضرورت پڑی تو وہ بھی دیں گے ساتھ ہی ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کی فراہمی بھی یقینی بنائیں گے۔ جن جامعات کے پاس یہ سہولت نہیں ہے کہ وہ آن لائن کلاسز کا اجرا کر سکیں، ہم انہیں سیٹ اپ بنا کے دیں گے۔ تقریبا سات منٹ کے دورانیے پہ مشتمل اس پیغام میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ طلبہ کس طرح اس نظام سے مستفید ہو سکیں گے۔ اگر پروفیسرز کو ٹریننگ دی جائے گی، انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے گی، تو وہاں ضروری تو یہ بھی تھا کہ دیکھا جائے طلبہ کو بھی ان دونوں چیزوں کی ضرورت ہوگی۔ ساتھ ہی ان کو لیپ ٹاپ یا اچھے اینڈرائڈ سمارٹ فون کی ضرورت بھی ہوگی۔
آن لائن کلاسز کے طریقہ کار
آن لائن کلاسز کے طریقہ کار
آن لائن کلاسز درج ذیل طریقہ کار کے تحت ہو رہی ہیں:
1۔ بذریعہ واٹس ایپ
2۔ بذریعہ زوم/سکائپ
3۔ بذریعہ یو ٹیوب
4۔ بذریعہ فیس بک
5۔ بذریعہ لرننگ منیجمنٹ سسٹم
نیٹ ورک پیکجز/سگنل کے مسائل
اس وقت ہمارے ملک میں جو نیٹ ورک چل رہے ہیں ان میں زونگ، جاز، یوفون، ٹیلی نار، پی ٹی سی ایل اور دیگر پرائیویٹ وائی فائی نیٹ ورک وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نیٹ ورک 3G/4G سروسز مہیا کرتے ہیں، وائی فائی کی سہولت صرف شہری علاقوں تک محدود ہے۔ ان نیٹ ورکس کے ہفتہ وار/ماہوار پیکجز اتنے سستے نہیں ہوتے کہ ہر طالب علم ان کا خرچ برداشت کر سکے۔
اس ضمن میں دوسرا بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ ان کی سروسز کہاں کہاں فعال ہیں۔ ہمارے بیشتر طلبہ کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اور ایک خاص تعداد قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں انٹرنیٹ سروس تو کجا عام فون کالز میں بھی دشواری ہوتی ہے۔
اینڈرائڈ سیٹ
اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہر طالب علم کے پاس اینڈرائڈ سیٹ موجود ہے تو وہ آن لائن کلاسز سے مستفید ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر طالب علم کے پاس اچھا اینڈرائڈ سیٹ موجود نہیں ہے کہ وہ اس نظام کا حصہ بن سکے۔ اسکی وجہ موبائل سیٹ کی روم (ROM) اور ریم (RAM) کا چھوٹا ہونا ہے۔
طلبہ کو درپیش معاشی مسائل
صورتحال کی سنگینی اس قدر ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے جہاں روزگار ٹھپ ہو چکا ہے وہیں لوگ عام سہولیات زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اگر آپ طالب علم ہیں یا کسی کاروبار سے منسلک ہیں تو آپ کے مشاہدے میں یہ بات بھی یقینا ہوگی کہ سب والدین اپنے بچوں کو نہیں پڑھا پاتے۔ نتیجتا وہ طالب علم یا تو ٹیوشنز پڑھا کر اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کرتا ہے یا پھر کوئی اور پارٹ ٹائم جاب کر کے۔ جب ایسے تمام طالب علم لاک ڈاون کی وجہ سے خالی ہاتھ بیٹھے ہیں تو وہ کس طرح آن لائن کلاسز لے پائیں گے؟ پیسہ کہاں سے لائیں گے وہ؟ بالکل اسی طرح دیگر لوگ جو کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہے تھے وہ بھی لاک ڈاون کی وجہ سے بیروزگاری سے دوچار ہیں اور آن لائن کلاسز کے اخراجات اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
واٹس ایپ کلاسز ایک بوجھ
واٹس ایپ پہ آپ جانتے ہیں کہ کال چاہے آڈیو کی صورت ہو یا وڈیو کی صورت صرف تین سے چار لوگ حصہ لے سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں عمومی طور پرکم از کم کلاس کی تعداد پچاس اور بعض اوقات ستر یا اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس صورت میں سکرین شیئر ہو ہی نہیں سکتی۔ آخری آپشن رہتا ہے پی ڈی ایف سلائیڈز کا۔ اب اس طرح گھنٹے کے لیکچر کا مواد ایک ساتھ بھیج دینا اور سیلف سٹڈی کا کہنا ایک طرح سے آن لائن کلاسز کا ہی مذاق ہے۔
انجینئرنگ کے طلبہ/پریکٹیکل کی کلاسز
آن لائن کلاسز میں انجینئرنگ، بائیو کیمسٹری، کیمسٹری، زالوجی، باٹنی، فزکس اور دوسرے ڈیپارٹمنٹس کے طلبہ کو پریکٹیکل کی کلاسز کے حوالے سے مسائل کا سامنا رہے گا۔
ریکارڈ شدہ لیکچر بذریعہ لرننگ منیجمنٹ سسٹم /یو ٹیوب
ایک طرف آن لائن کلاسز کا کہا جائے تو دوسری طرف ریکارڈڈ لیکچر فراہم کئے جائیں تو وہ کسی طور کلاس یا کلاس کے ماحول کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ سکول سسٹم کی طرز پہ سیلف سٹڈی ہی اگر کرانی تھی تو آن لائن کلاسز کا کیا فائدہ ہوا؟
بھاری بھرکم اسائنمنٹس
ایک سسٹم جو ہمارے ہاں اچھے سے رائج ہی نہیں ہوا، اب ایک دم سے لاگو کیا جا رہا ہے۔ دوسرا اسی کے ذریعے بھاری بھرکم اسائنمنٹس طلبہ کے ذمے لگا دی جاتی ہیں، جنہیں مکمل کرنے میں روزانہ گھنٹوں لگتے ہیں۔ اس ضمن میں جامعات کی انتظامیہ کسی بھی طور تعاون کرنے سے گریزاں نظر آتی ہیں۔ یہی نہیں متعلقہ ایڈوائزر بعض اوقات گالم گلوچ اور ضد پہ اتر آتے ہیں۔
ان تمام تر مسائل کے حل کے لیے طالب علموں کو متحد ہو کر ان مسائل کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اور حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ تمام تر سہولیات مہیا کر کے فورا آن لائن کلاسز کا اجرا ممکن بنائے۔