|تحریر: عادل عزیز|
اس وقت سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو دنیا ہمیں سر کے بل کھڑی نظر آتی ہے، کرونا وباء سرمایہ داری کے تمام تضادات کو سطح پر لے آئی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہر شے کو تہہ و بالا کرتا جا رہا ہے۔ کبھی نہ ناقابلِ شکست سمجھے جانے والے نظریات، سیاسی پارٹیاں، لیڈران، اخلاقیات، عقائد، الغرض ’اسٹیٹس کو‘ سے جڑی تمام چیزوں سے عوام کی نفرت بدرجہ اتم ہر سماجی مظہر میں جھلک رہی ہے۔ وہ انتخابات کے نتائج ہوں یا سڑکوں، فیکٹریوں اور اداروں میں دیوہیکل عوامی تحریکیں، عوام ہر محاذ پر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو رد کر رہے ہیں، گویا مظلوم و محکوم طبقات نے اس نظام پر مکمل عدم اعتماد کر کے اعلانِ بغاوت کر دیا ہے۔ امریکہ، کولمبیا، چلی، فرانس، سپین، لبنان، میانمار، ہندوستان اور اس کے علاوہ کئی ممالک اس وقت تحریکوں کی زد میں ہیں اور عمومی طور پر سیاست سے قطع تعلق دکھنے والے عوام اب ببانگ دہل سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے ہے۔ اس عمل میں نوجوان سماج کی وہ پرت ہیں جو صف اول میں موجود ہیں۔ کرونا وباء،غربت، مہنگائی، بے روزگاری، گرتا معیارِ زندگی، تعلیم کے اخراجات میں دیوہیکل اضافے اور مستقبل کے حوالے سے پائی جانے والی عمومی بے یقینی نے پوری دنیا میں نوجوانوں کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے سیاست کے میدان میں لا کھڑا کیا ہے۔
پاکستان کی صورتحال عالمی منظرنامہ سے خاص مختلف نہیں ہے۔ یہاں کے غلیظ حکمرانوں نے پہلے سے بھوک و بیماری میں بلکتی و سسکتی عوام کو کرونا وباء اور معاشی بحران کے سامنے مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ حکمرانوں کی عوام دشمنی اور لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرونا وباء کے ڈیڑھ سال بعد بھی ایک ہسپتال بھی نیا بنانا تو دور کی بات وبا کے دوران سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کردی گئی جبکہ دوسری طرف سرمایہ داروں کو کبھی بیل آؤٹ پیکجز تو کبھی چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ہیر پھیر کے ذریعے اربوں روپے تحفے میں دیے گئے ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق پاکستان میں تقریبا چار کروڑ لوگ کرونا وباء کے دوران بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بوسیدہ تعلیمی نظام منہدم ہونے کے دہانے پر ہے اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پر تعلیم کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ ساتھ فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور اس تمام صورتحال نے پاکستان کے طلبہ اور نوجوانوں کو حکمران طبقے کی سیاست سے مکمل طور پر بیگانہ کر دیا ہے۔ البتہ پچھلے 40 سال سے طلبہ سیاست پر پابندی، گلی محلوں کی سیاست میں نظریات کی جگہ اسلحہ، پیسہ، اثر و رسوخ کے آنے سے اور سویت یونین کے انہدام کے بعد مجموعی طور پر طلبہ و مزدور تحریک کی پسپائی سے پیدا ہونے والی مایوسی کے سبب پاکستان میں طلبہ اور نوجوانوں کا سیاست میں داخلہ ناممکن ہو چکا تھا۔ انہی وجوہات کے باعث عالمی سطح پر نئی طبقاتی ہلچل کے بعد بھی پاکستان میں نوجوانوں کی سیاست کو مخصوص مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ لمبے عرصے سے طلبہ سیاست و یونین پر پابندی کے باعث طلبہ میں موجودہ نظام کے خلاف نفرت اور سماج کی تبدیلی کی خواہش پہلے مرحلے میں سیاسی اظہار کے بجائے دیگر طریقوں سے اپنا اظہار کرتی رہی ہے۔
نظام کے خلاف غم و غصہ، تبدیلی کی تڑپ، بے روزگاری، مہنگی تعلیم، ہاسٹل و ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا فقدان و دیگر مسائل کے خلاف رد عمل نے سیاسی شکل اختیار کرنے کی بجائے بظاہر غیر سیاسی اشکال اختیار کیں۔ یونیورسٹیوں میں مختلف سوسائٹیز کے بننے کا عمل سامنے آیا جو کیمپس کی صفائی، غریب طلبہ کی مدد، مذہبی رواداری اور اخلاقی تبلیغ وغیرہ جیسے کاموں کے لیے بنیں، البتہ انہیں بنانے اور ان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا بھی کلیدی کردار رہا۔ اسی طرز پر ہمیں محلوں اور علاقوں میں نوجوانوں کی مختلف کمیٹیاں بننے کا عمل نظر آتا ہے جن کا مقصد بھی سماجی خرابیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت یا تبلیغ کے ذریعے حل کرنے کی کاوش ہے۔ سیاسی نظریات کے فقدان، طریقہ کار کی کمزوریاں، اور درست پلیٹ فارم نہ ہونے کے باوجود یہ عمل دراصل غیر شعوری طور پر سیاست ہی میں دلچسپی کا اظہار تھا۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو یہ سلسلہ بہت آگے جا چکا ہے۔ اس عرصہ کے دوران سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، کشمیر اور گلگت بلتستان، الغرض ملک کا کوئی علاقہ نہیں جہاں طلبہ یا نوجوانوں کو مختلف مسائل کے لیے احتجاج نہ کرنا پڑا ہو۔ طلبہ اور نوجوان اپنے ان معروضی تجربات سے سیکھتے ہوئے اب اس نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں کہ محض گزراشات کے ذریعے اور اپنی مدد آپ کے ذریعے ان مسائل کا خاتمہ ممکن نہیں اور اسی سبق کو سیکھتے ہوئے طلبہ اور نوجوانوں نے احتجاجوں اور تحریکوں کا رستہ اپنایا۔
پچھلے سال اور اس سال ہمیں مختلف مسائل کے خلاف بالخصوص طلبہ کے ملک گیر احتجاج دیکھنے کو ملے جو ان کے بڑھتے ہوئے سیاسی شعور کی واضح نشانی ہے۔ کشمیر میں آٹے کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف تحریک، قومی و ریاستی جبر کے خلاف پشتون تحفظ موومنٹ، جنسی ہراسانی کے خلاف اور آن لائن کلاسز اور پھر آن کیمپس امتحانات کے خلاف طلبہ کی شاندار تحریکوں میں نوجوانوں نے تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے ریاستی ظلم کے خلاف منظم انداز میں تحریکیں چلائیں اور چند ایک بڑی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔
طلبہ اور نوجوان تو اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاست میں آنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور سڑکوں پر احتجاج کا رستہ اپنا رہے ہیں لیکن اس لڑائی میں سب سے بڑا فقدان اس وقت طلبہ اور نوجوانوں کی ایسی سیاسی قیادت کا ہے جو ان تمام بکھری ہوئی اور چھوٹی بڑی تحریکوں کو ایک لڑی میں پرو سکے اور ان کی نظریاتی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اس نظام کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی کی سمت میں آگے بڑھا سکے۔ سیاسی منظرنامے پر موجود تمام سیاسی پارٹیاں نوجوانوں اور طلبہ کی بد ترین دشمن ثابت ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، اے این پی، بی این پی اور جے یو آئی سمیت تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرتی ہیں اور آئی ایم ایف کے ایماء پر محنت کشوں، طلبہ اور نوجوانوں کے معیارِ زندگی پر حملے کرتی ہیں۔ نوجوانوں نے پیپلز پارٹی کی ایک دہائی سے زیادہ پر محیط ”جمہوریت“ بھی دیکھی ہے جہاں تعلیمی اداروں میں بد ترین آمریت رائج ہے اور نون لیگ کی پانچ سالہ وفاق اور دس سالہ پنجاب میں حکومت بھی دیکھی ہے اور اب یہ نام نہاد تبدیلی سرکار جو کہ در حقیقت جہانگیر ترین، زلفی بخاری اور ملک ریاض جیسے ارب پتیوں اور جرنیلوں کی سرکار ہے، کو بھی دیکھ لیا ہے۔ ان تمام قیادتوں کی نظام کی دلالی کے باعث کوئی بھی سیاسی پارٹی نوجوانوں کا اعتماد نہیں رکھتی جس کی وجہ سے نوجوان مین سٹریم کی غلیظ سیاست میں انتہائی عدم دلچسپی دکھاتے ہیں اور اسی عدم دلچسپی کی وجہ سے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے نوجوان غیر سیاسی ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ حملوں کے خلاف نوجوانوں اور طلبہ کی تحریکیں بن رہی ہیں اور ان تحریکوں میں سے ہی نئی لڑاکا قیادت ابھر رہی ہے۔ یہ عمل اس بات کو واضح کردیتا ہے کہ نوجوان غیر سیاسی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے حکمران طبقہ کی غلیظ سیاست کو رد کر کے بلند سیاسی شعور کا اظہار کیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نوجوانوں کی خود رو ابھرنے والی تحریکوں کو جوڑا جائے۔ حکمران طبقہ تمام تر فروعی اختلافات کے باوجود محنت کشوں اور نوجوانوں کے خلاف ہمیشہ متحد نظر آتا ہے۔ حکمرانوں کے پاس نوجوانوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے عدالتیں، میڈیا، پولیس و دیگر ریاستی ادارے موجود ہیں۔ جبکہ طلبہ اور نوجوانوں کو فرقے، زبان، مذہب اور قومیت کی بنیاد پر تقسیم کر کے کمزور کیا جاتا ہے اور آسانی سے لوٹ مار جاری رکھی جاتی ہے۔ ان حملوں کا مقابلہ اور اپنے مطالبات کی کامیابی کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد اور منظم ہونا پڑے گا۔ ہر ادارے کی منتخب کمیٹی بنانی پڑے گی اور ان کمیٹیوں پر مشتمل ملک گیر کمیٹی تشکیل دینی ہوگی۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ کمیٹی طلبہ تنظیموں کا اکٹھ نہیں بلکہ خود طلبہ کی ادارے میں موجود کمیٹیوں کا اکٹھ ہونا چاہیے۔ اسی طرح محلوں کی سطح پر نوجوانوں کو منظم انداز میں حکمران طبقے کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور یہ سب صرف اور صرف ان نظریات کے گرد کیا جا سکتا ہے جو موجودہ سماج کی سائنسی سمجھ بوجھ اور اس کا حل پیش کرتے ہوں۔ نظریاتی اتحاد ہی حقیقی اتحاد ثابت ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں آج کے عہد میں صرف مارکسزم اور سائنسی سوشلزم کے نظریات ہی موجودہ معاشی، سیاسی و سماجی بحران کا درست تجزیہ اور اس کا حل پیش کرتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس پچھلے پانچ سالوں سے یہی کام سر انجام دے رہا ہے اور پی وائی اے کا مقصد نوجوانوں اور طلبہ کو ملک گیر پلیٹ فارم پر منظم کر کے اور ان کی نظریاتی تربیت کرتے ہوئے اس ظالم نظام اور غلیظ حکمران طبقہ کے خلاف اور اپنے حقیقی مطالبات کی جدو جہد کے لیے ایک ٹھوس قوت تیار کرنا ہے۔