|تحریر: مشعل وائیں|
آج ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جدھر امید کا دامن عام انسان کے ہاتھ سے چھٹتا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک اور تاریک دور آ گیا ہے، امید کی کرن دن بدن فنا ہو رہی ہے۔ حالات پھر سے عام انسان کو دورِ بربریت یا دورِ وحشت کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔ زندگی کو کسی بھی پہلو میں دیکھا جائے تو حالات ناگوار نظر آ رہے ہیں، تعلیم کا حصول ہو، یا اس سے اگلا قدم جو کہ ایک عام تنخواہ دار کی زندگی کا سفر ہے۔
تعلیم کے حالات پہلے ہی کوئی بہت اچھے نہیں تھے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد اب دیکھا جائے تو وہی لوگ تعلیم جاری رکھ پائیں گے جن کے پاس روپیہ پیسہ وافر مقدار میں ہے، اور ان روپیہ رکھنے والوں کی تعداد میں بھی دن بدن کمی آتی جا رہی ہے، کیونکہ یہی اس سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت ہے کہ اس میں دولت چند سے چند ہاتھوں میں جمع ہوتی جاتی ہے، اس نظام کی فطرت اس جونک کی مانند ہے جو خون چوسے بنا زندہ نہیں رہ پاتی اور جتنا اس کو ہٹانے سے لا پرواہی برتی جائے اتنا اس کی جسامت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ان حالات میں غریب یا درمیانے گھروں کے بچے بچیاں دن رات محنت کر کے اس امید پر یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں کہ ڈگری حاصل کر لینے کے بعد شاید ان کی قسمت میں لکھی ایک اچھی سی نوکری ان کو مل جائے۔ لیکن اکثر یہ خواب محض خواب کی حد تک ہی رہتا ہے۔
یونیورسٹی میں پہنچتے ہی ایک احساس ہوتا ہے کہ جیسے منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ حالات کچھ اور حقائق دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر غریب اور مڈل کلاس کے طلبا کو۔
ابھی کل ہی نادیہ نامی لڑکی جو کراچی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ تھی، اس کی سپر وائیزر سے مسلسل ہراساں ہونے سے تنگ آ کر خود کشی کر لینے کی خبر آئی ہے۔ جہاں تک خبر ہے اس کا فائنل تھیسس تقریبا ً7 بار ریجیکٹ ہوا تھا اور اس کے ساتھیوں کے مطابق وہ 15 سال سے شدید ذہنی و جسمانی تشنج کا شکار تھی۔ خودکشی سے قبل سپر وائزر سے متعلق اس کے اپنے الفاظ تھے کہ:
”ڈاکٹر اقبال چوہدری مجھے پی ایچ ڈی نہیں کرنے دے گا۔ مجھے معلوم نہیں وہ آخر مجھ سے چاہتا کیا ہے؟“
نادیہ کے یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ اس کو مسلسل ہراسگی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور یہ وہ حالات تھے جن سے مجبور ہوکر نادیہ نے خودکشی کو ہی درست قدم سمجھا۔ مگر قدرتی موت اور خودکشی میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ اس خبر کی تفصیل کو دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس موت کو خودکشی کہنے کی بجائے اس کو اس تعلیمی نظام کے ہاتھوں کیا گیا ایک سفاکانا قتل کہا جانا درست ہو گا۔
ہراسمنٹ کے کیسز کو دیکھا جائے تو ان کو معمولی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ایک لڑکی کی بچپن سے یہ ٹریننگ کی جاتی ہے کہ چونکہ تم لڑکی ہو تو یہی تمھاری قسمت ہے اگر ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھاؤ گی تو تمہارا اپنا نقصان ہو گا اور اکثر آواز اٹھانے والی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں منہ پھٹ، بدتمیز اور بسا اوقات بدچلن تک کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔
آپ کسی بھی سرکاری یونیورسٹی میں چلے جائیں جہاں اکثر مڈل کلاس اور لائق بچے پڑھتے ہیں، یہ معجزہ ہی ہو گا اگر وہاں نادیہ جیسے ہراسمنٹ کے کیس نظر نہ آئیں۔ بس فرق یہ ہو گا کہ خودکشی کی وجہ سے نادیہ کی خبر سامنے آئی، ورنہ یہ ہراسمنٹ خبروں میں کبھی نہیں آنی تھی۔ آج لاکھوں لوگ اس خبر پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن اپنا تجربہ شیئر کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے کہ کہیں ہماری ڈگری نہ روک لی جائے، کہیں ہم کو فیل نہ کر دیا جائے، یا کہیں ہمارا تھیسس بھی رد نہ کر دیا جائے۔
لاک ڈاؤن سے قبل لاہور کی ایک یونیورسٹی میں سپروائیز کی ہراسمنٹ کے خلاف وہاں کی لڑکیوں نے درخواست بھی جمع کروائی تھی، ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ ان کا سپر وائیزر تبدیل کر دیا جائے لیکن ان کو انتظامیہ سے حکم دیا گیا کہ اگر وہ اس معاملے کو آگے لے کر گئیں تو ان کی ڈگری کینسل کر دی جائے گی۔ تقریباً ہر ادارے میں یہی کچھ نظر آتا ہے اور اس میں صرف ایک استاد ہی نہیں بلکہ پوری انتظامیہ بھی شامل ہوتی ہے۔ ان سرکاری یونیورسٹیوں میں اگر دیکھا جائے تو استاد کا کردار بالکل ایک بادشاہ کی مانند ہے جس کی نافرمانی نہیں کی جا سکتی اور جو تمام اختیارات کا مالک ہے۔
کراچی یونیورسٹی بھی ایک سرکاری ادارہ ہی ہے اور سرکاری اداروں میں ہمیں مڈل کلاس ہی نظر آتی ہے۔ بالزاک کے مطابق مڈل کلاسیے سماج کا وہ حصہ ہیں جو ایسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں کہ جتنا وہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کریں گے اتنا ہی دھنستے جائیں گے۔ ہراسمنٹ کرنے والے اساتذہ طلبہ کی اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا ہوتے ہیں، اور چونکہ ہم ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں ایک فرد دوسرے فرد کو پاؤں تلے کچل کر تسکین حاصل کرتا ہے تو یہاں یہ اساتذہ بھی ایسا ہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی مظہر ہمیں یونیورسٹیوں کے استادوں اور طالب علموں کے تعلق میں نظر آتا ہے۔
اس ہراسمنٹ کے خلاف طالب علم اکثر ہمیں انفرادی طور پر آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں، ان کی انفرادی کمزوری کی وجہ سے ان کو خاموش کروا دیا جاتا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں اگر ایک یونیورسٹی کے تمام طالب علم اکٹھے ہو جائیں تو اس کے خلاف ایک کامیاب جدوجہد لڑی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے یونیورسٹیوں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانے کی فی الفور ضرورت ہے، جس میں طلبہ کے نمائندے شامل ہوں۔ لیکن جب تک طلبہ یونین نہیں ہو گی تب تک طلبہ کے پاس اپنے مسائل پیش کرنے کے لیے کوئی پیلٹ فارم نہیں ہو گا۔ طلبہ یونین ہی ان حالات میں ہراسمنٹ کے خلاف جنگ میں پہلا قدم ہے، جو تمام طلبہ کو متحد کرنے کی طرف لے کر جائے گا۔ یہ صرف نادیہ کے لیے انصاف کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی جنگ ہے جسے لڑنے کے لیے ہمیں متحد ہونا ہو گا تاکہ مستقبل میں نادیہ جیسے ہزارہا طلبہ کی زندگیاں بچائی جا
سکیں۔