میرے شہر کے سارے رستے بند ہیں لوگو
میں اس شہر کا نغمہ گر
جو دو اک موسم غربت کے دکھ جھیل کے آیا
تاکہ اپنے گھر کی دیواروں سے
اپنی تھکی ہوئی اور ترسی ہوئی
آنکھیں سہلاؤں
اپنے دروازے کے اترتے روغن کو
اپنے اشکوں سے صیقل کر لوں
اپنے چمن کے جلے ہوئے پودوں
اور گرد آلود درختوں کی
مردہ شاخوں پر بین کروں
ہر مہجور ستون کو اتنا ٹوٹ کے چوموں
میرے لبوں کے خون سے
ان کے نقش و نگار سبھی جی اٹھیں
گلی کے لوگوں کو اتنا دیکھوں
اتنا دیکھوں
میری آنکھیں
برسوں کی ترسی ہوئی آنکھیں
چہروں کے آنگن بن جائیں
پھر میں اپنا ساز اٹھاؤں
آنسوؤں اور مسکانوں سے جھلمل جھلمل
نظمیں غزلیں گیت سناؤں
اپنے پیاروں
درد کے ماروں کا درماں بن جاؤں
لیکن میرے شہر کے سارے رستوں پر
اب باڑ ہے لوہے کے کانٹوں کی
شہ دروازے پر کچھ پہرے دار کھڑے ہیںجو مجھ سے اور مجھ جیسے دل والوں کی
پہچان سے عاری
میرے ساز سے
سنگینوں سے بات کریں
میں ان سے کہتا ہوں
دیکھو
میں اس شہر کا نغمہ گر ہوں
برسوں بعد کڑی راہوں کی
ساری اذیت جھیل کے اب واپس آیا ہوں
اس مٹی کی خاطر
جس کی خوشبوئیں
دنیا بھر کی دوشیزاؤں کے جسموں کی مہکوں سے
اور سارے جہاں کے
سبھی گلابوں سے
بڑھ کر ہے
مجھ کو شہر میں
میرے شہر میں جانے دو
لیکن تنے ہوئے نیزوں نے
میرے جسم کو یوں برمایا
میرے ساز کو یوں ریزایا
میرا ہمکتا خون اور میرے سسکتے نغمے
شہ دروازے کی دہلیز سے
رستے رستے
شہر کے اندر جا پہنچے ہیں
اور میں اپنے جسم کا ملبہ
ساز کا لاشہ
اپنے شہر کے شہ دروازے
کی دہلیز پہ چھوڑ کے
پھر انجانے شہروں کی شہراہوں پر
مجبور سفر ہوں
جن کو تج کر گھر آیا تھا
جن کو تج کر گھر آیا تھا
احمد فراز