|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
18 اگست، بروز جمع کو پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے فلم ”ٹرین ٹو پاکستان“ سکریننگ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مختلف تعلیمی اداروں سے طلبہ نے بھرپور شرکت کی۔ شرکاء میں جی سی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے طلبہ شامل تھے، اس کے علاوہ واپڈا اور دیگر عوامی اداروں کے محنت کشوں اور مزدوروں کی ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندگان نے خصوصی شرکت کی۔ ہال میں انقلابی لٹریچر کا سٹال بھی موجود تھا، جسے شرکاء کی جانب سے بہت پسند کیا گیا۔
برصغیر کی تقسیم اور نام نہاد آزادی کے حوالے سے کئی شاعروں اور ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور اس خونی بٹوارے کی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1956ء میں شائع ہونے والا یہ ناول ”ٹرین ٹو پاکستان“ بھی اسی خونی بٹوارے کی منظر کشی کرتاہے، جو کہ انڈیا کے نامور مصنف خشونت سنگھ نے اپنے تجربات کی بنیاد پر لکھا ہے۔ بعد میں 1998ء میں اس ناول کو پردے پر اتارا گیا، جس کو پیمیلا روکس نے ڈائیریکٹ کیا۔ اس فلم میں موسیقی اور رومانس کو بھی خوبصورت انداز میں ڈھالا گیا ہے۔
فلم میں خونی تقسیم کے بعد کی قتل و غارت اور بد امنی کو بھی فلمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی بنیاد پر نفرت کو بڑھاوا دینے والی پولیس کا قابل نفرت کردار بھی دکھایا گیا ہے، جہاں وہ مقامی سکھ ڈکیتوں کے ایک ٹولے کی مدد سے عوام دشمن کردار ادا کرتے ہوئے گاؤں میں مسلمانوں کے اندر خوف پیدا کر کے ہجرت کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں اور پاکستان جانے والی ٹرین پر حملہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
فلم کے اختتام پر ہال میں شرکاء کی جانب سے خوب تالیاں بجائی گئیں اور فلم کی کہانی اور اداکاری کو سراہا گیا۔ اس کے بعد اوپن ڈسکشن کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں سب سے پہلے پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے صدر ثاقب اسماعیل نے شرکت کرنے والے تمام ساتھیوں کو خوش آمدید کہا اور تقسیم ہند اور نام نہاد آزادی کے حوالے سے بات رکھی اس کے علاؤہ جی سی یونیورسٹی سے کے طالب علم طاہر، پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم فیاض حسین، ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کے صدر مقصود حمدانی اور پی وائی اے کے مرکزی صدر فضیل اصغر نے بھی گفتگو کی۔
مقررین کہنا تھا کہ یہ بٹوارا مذہبی بنیاد پرستی اور برطانوی سامراج کی برصغیر کے حوالے سے ”تقسیم کرو اور راج کرو“ پالیسی پر مبنی تھا اور آزادی کے نام پہ اس خطے میں نفرت کی آگ کو سلگایا گیا اور قتل و غارت کی ایک تاریخ رقم کی گئی۔ تقسیم ہند ایک خونی بٹوارا تھا اور یہاں پہ جان بوجھ کر مسلمان اور ہندو محنت کشوں اور کسانوں کو مذہبی بنیاد پرستی کی طرف دھکیلا گیا تاکہ وہ یک مشت ہو کر انگریز سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ اس امیر اور غریب کی تقسیم پر قائم سرمایہ دارانہ سے بھی آزادی نہ حاصل کر لیں کیونکہ اس وقت 1947ء تقسیم ہند سے پہلے یہاں کے مزدوروں اور کسانوں نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت شروع کر دی تھی اور برطانوی سامراج اور ان کے پالتو مقامی لیڈران کو یہ خوف درپیش تھا کہ برصغیر کے ہمسایہ ملک روس کا مزدور انقلاب اس خطے میں نہ دہرایا جائے اور ان کا تسلط اور مراعات ہمیشہ کے لیے ختم نہ ہو جائیں۔ مگر یہاں کی مقامی سیاسی پارٹیاں کانگریس و مسلم لیگ اور ان کی قیادت نے عوام دشمن کردار ادا کیا اور اس خطے کے درمیان ایک خونی لکیر کھینچی گئی اور قتل و غارتگری کا راج قائم کیا گیا۔ نام نہاد آزادی کے 76 سال بعد بھی غریب محنت کشوں کے معیار زندگی میں کوئی بہتر ی نہیں آئی، بلکہ وہ دن بہ دن بگڑنے کی طرف گئے ہیں۔
انہوں نے موجودہ عہد میں پاکستان میں پھوٹنے والے دنگے فسادات، طالبانائزیشن اور قتل و غارت کا ذمہ دار بھی امریکی سامراج اور ان کی ایجنٹ پاکستانی ریاست کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں اگر کوئی آزاد ہے تو وہ سرمایہ، حکمران اور افسر شاہی ہے، جو کسی بھی غریب کو با آسانی لوٹنے میں اور جبر و استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اگر ہمیں حقیقی معنوں میں آزادی حاصل کرنی ہے تو ہمیں امیر اور غریب پر مبنی عوام و محنت کش دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا پڑے گا اور انسان دوست سماج قائم کرنا پڑے گا جو کہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کرنا ہوگی اور انقلابی نظریات و سیاسی پروگرام سے لیس ہو کر خود کو منظم کرتے ہوئے سوشلزم کے انقلابی نظریات پر مبنی ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنی ہوگی۔
ایک نوجوان شاعر ساحر نے”فیض احمد فیض“ کی مشہور نظم ”صبح آزادی“ پڑھ کر سنائی جس کو شرکاء نے پسند کیا اور تالیوں کی گونج سے داد رسی کی۔ تقریب کے آخر میں منتظمین میں سے ایک ساتھی نے سب شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اور نئے آنے والے نوجوانوں کو پروگریسو یوتھ الائنس کے انقلابی کارواں میں شمولیت کرنے کی دعوت دی اور فلم نمائش کے اہتمام کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رکھنے کی یقین دہانی کروائی۔
پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں!