اسلام آباد: قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین پر بھارہ کہو بائی پاس کی تعمیر اور انتظامیہ کی بد عنوانی

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|

پاکستان میں پبلک سیکٹر جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں بدعنوانی کی ایک تاریخ موجود ہے، جس کو مرتب کرنے میں بڑی سے بڑی یونیورسٹی سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے تعلیمی ادارے تک انتظامیہ اور سرکار نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ان اقدام کے نتیجے میں تعلیم کی نجکاری کا ایک تسلسل جاری رکھا گیا ہے۔ آج پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی فیسیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ محنت کشوں کے بچوں کے لئے تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے، جس کی تعبیر منافع خوروں کی زد میں ہے۔ اسی طرح کی ایک مثال قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں رونما ہونے والے واقع کی ہے جو دسمبر 2022ء میں پیش آیا۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر نے سنڈیکیٹ کمیٹی کی مبینہ ملی بھگت سے یونیورسٹی کی 200 کینال زمین سی ڈی اے کو بھارہ کہو بائی پاس کے لیے بیچ دی۔ اس میں انتظامیہ کے دیگر لوگ بھی شراکت دار تھے۔ اس واقعہ سے یونیورسٹی کی انتظامیہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک وہ حصہ جو اس معاہدے سے مستفید ہوا اور دوسرا وہ جو اس معاملے سے تب تک بے خبر رہا جب تک سی ڈی اے نے بائی پاس کیلئے یونیورسٹی میں درخت کاٹنا شروع کئے اور این ایل سی کی بھاری تعمیری مشینری نصب ہونے لگی۔ مستفید نہ ہونے والی انتظامیہ کی قیادت 3 سے 4 پروفیسر حضرات پہ مشتمل تھی (جس کی قیادت تاریخ کے شعبے کا ایک پروفیسر کر رہا تھا) جو بعدازاں سی ڈی اے کے خلاف ہائی کورٹ اسلام آباد پہنچ گئی۔ ہائی کورٹ میں پیش کئے گئے مدعے میں بائی پاس کی تعمیر میں ماحولیات کو خطرہ بتا کر حکم امتنائی لیا گیا جسے ماحولیاتی کمیٹی کے سربراہ نے رد کر دیا، کیوں کہ سی ڈی اے نے درختوں کی دگنی تعداد لگانے کا وعدہ معاہدے میں پہلے سے ہی کر رکھا تھا۔ کمشنر سی ڈی اے کی کھلی کچہری میں سی ڈی اے کے وکیل نے تمام پروفیسر حضرات کی موجودگی میں الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ یہ تمام حضرات ان سے پلاٹس کی ڈیمانڈ پہ کیس کی پیروی چھوڑنے کا معادہ کرنے کو تیار ہیں مگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ اس الزام کے خلاف کوئی منطقی و دو ٹوک بات اس قیادت نے نہیں کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مکروہ اور منافقانہ طرز عمل سے صاف واضح ہے کہ وہ کبھی بھی یونیورسٹی کی زمین کو کسی تعلیم دوستی کے مقصد کیلئے نہیں بچانا چاہتے۔

دوسری طرف طلبہ کے حقوق کی ’علمبردار‘ کونلسز کا کردار کھل کے سامنے آیا۔ قائد اعظم سٹوڈنٹس فیڈریشن (QSF) کی رکن پانچ کونسلوں میں سے صرف دو کونسلوں نے احتجاج کیا۔ جو کہ کچھ مشروط بنیادوں پہ کیا گیا تھا۔ یہ شرائط انتظامیہ اور ان کونسلوں کے درمیان رہیں۔ اور جب وہ شرائط پوری نہ ہو سکیں تو ان دونوں کونسلوں نے بھی کوئی سرگرمی نہیں کی۔ اس طرز عمل سے کونسلوں کی غیر حقیقی قیادت کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔ عام طلبہ جو ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے آتے ہیں ان کے حقوق کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ جامعات جو درحقیقت طلبہ کی اجتماعی ملکیت ہیں اس پہ مفاد ات کے باعث بندر بانٹ انتظامیہ اور طلبہ تنظیموں کے تباہ کن کردار کو عیاں کر دیتا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس یونیورسٹی کی زمین پر بائی پاس تعمیر کرنے کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ کے تناسب سے نئے ہاسٹلز کی اشد ضرورت ہے اور ہاسٹلز تعمیر کرنے کی بجائے جگہ کو بیچنا انتہائی تعلیم دشمن اقدام ہے۔ اس طرح کے فیصلوں سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر طلبہ یونینز بحال ہوتیں اور طلبہ کے منتخب نمائندے سنڈیکیٹ کے ممبر ہوتے تو اس فیصلے کو رد کیا جا سکتا تھا۔ اسی لیے دہائیوں سے طلبہ یونین پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے۔ نام نہاد طلبہ تنظیموں اور کونسلوں کے اتحاد سے مسائل حل نہیں کروائے جا سکتے بلکہ عام طلبہ کے اتحاد سے ہی ان حملوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت طلبہ میں شدید غم و غصہ موجود ہے، ان کو منظم کرتے ہوئے مزاحمت اور احتجاج کی راہ اختیار کرنی ہوگی۔ پہلے ہی ملک میں تعلیم کے شعبے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں نئے تعلیمی ادارے بنانے کی ضرورت ہے تو ساتھ ہی پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کی توسیع کرنا بھی ناگزیر بن چکا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایک طرف تو ہر سال تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں کر کے تعلیمی اداروں کو کھنڈرات بنا دیا گیا ہے تو دوسری جانب تعلیمی اداروں کے متعلق ’خسارے‘ کا پروپیگنڈا کر کے نجکاری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیوں کی وجہ سے فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور تعلیم کا معیار بھی گراوٹ کا شکار ہوا ہے۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تعلیمی بجٹ میں فی الفور اضافہ کیا جائے اور تعلیمی اداروں کے کھاتے کھول کر طلبہ اورملک کے محنت کش عوام کے سامنے پیش کیے جائیں جن کی فیسوں اور ٹیکس سے یہ ادارے چلتے ہیں۔ تاکہ واضح ہو جائے کہ سرمایہ داروں کی دلال حکومت عوامی اداروں کو بیچ کر در اصل امیروں کے منافعوں میں اضافے کے لئے ہی کام کر رہی ہے۔

فیسوں میں اضافے، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں، ہراسمنٹ، ٹرانسپورٹ و ہاسٹلز کی کمی، نجکاری، انتظامیہ کی کرپشن کے سد باب اور طلبہ کو در پیش دیگر مسائل کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو اپنا اتحاد مظبوط کرنا پڑے گا۔ اور ان مسائل کے خلاف ملک گیر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آمرانہ اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کی طرف سے طلبہ یونین پردہائیوں سے عائد پابندی کے بعد طلبہ یونین کی بحالی کے ’مطالبات‘ یا ’امید‘ سے بڑھ کر اب طلبہ کو خود کو منظم کرنا ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں ہر کلاس کے طلبہ پر مشتمل طلبہ کی منتخب کمیٹیاں تشکیل دینا ہونگی۔ اسی طرح شہر کے دوسرے تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ کی منتخب کمیٹیوں کو جوڑ کر شہر کی سطح پرمنتخب کمیٹی تشکیل دی جائے اور پھر دوسرے شہروں اور صوبوں کی منتخب کمیٹیوں کو جوڑتے ہوئے ملک گیر سطح پر طلبہ کی منتخب کمیٹی تشکیل دی جائے۔ تاکہ کسی ایک تعلیمی ادارے میں درپیش مسئلے کے خلاف پورے ملک کے طلبہ کو متحرک کیا جاسکے۔ کیونکہ مزاحمت کے ذریعے ہی اپنے حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

طلبہ اتحاد زندہ باد!
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.