آئی بی اے کراچی ہراسانی کیس؛ یونیورسٹیاں یا ہراسمنٹ کی آماجگاہیں

|تحریر: خالد قیام|

جبرائل کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت سے ہے۔ وہ کراچی کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ”انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن“ کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں سال آخر کا طالبعلم ہے۔ جبرائل اپنی یونیورسٹی کا ایک قابل سٹوڈنٹ ہے اور یونیورسٹی میں وہ مکمل سکالرشپ پر پڑھ رہا تھا۔ ابھی جبرائل کی گریجویشن مکمل ہونے میں کچھ ہی عرصہ باقی تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کو یونیورسٹی سے نکال کر اس کا تعلیمی سلسلہ داؤ پر لگا دیا۔


واقعہ یہ ہے کہ پچھلے ماہ اگست کے آخری ہفتے میں جبرائل نے اپنی یونیورسٹی کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے منیجر کے ہاتھوں ایک فی میل ملازمہ کی ہراسانی کا آنکھوں دیکھا واقعہ اپنے فیس بک اکاونٹ پر بیان کرکے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور یونیورسٹی کے طلبہ میں غصے اور بے چینی کا سبب بنا۔ اس کے کچھ ہی دن بعد یعنی ستمبر کے درمیان میں طلبہ نے آئی بی اے میں ہراسانی کے خلاف کافی بڑی احتجاجی ریلی کی، جس میں انہوں نے یونیورسٹی میں ہر قسم کی ہراسانی کے خلاف شدید غصے کا اظہار کیا۔


اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ میں ایک کھلبلی مچ گئی اور ڈسپلن کمیٹی میٹنگ پر میٹنگ بلاتی رہی اور جبرائل کو کئی بار بتایا گیا کہ وہ سوشل میڈیا سے اپنی پوسٹ ہٹا دیں بصورتِ دیگر اس کے خلاف قدم اٹھایا جائے گا۔ ان کے مطابق یہ یونیورسٹی کے قوائد کے خلاف عمل ہے جو کہ یونیورسٹی کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ مگر جبرائل نے صاف بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک اہلکار فی میل طالبہ کو ہراساں کر رہا تھا لہذا وہ کسی صورت اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔ یہ سلسلہ کافی حد تک چلا، بالآخر ڈسپلن کمیٹی نے ستمبر کے آخر میں جبرائل کا داخلہ منسوخ کرکے اس کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔


جبرائل کے احتجاج اور شکایت پر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کو بتایا کہ اب بھی اس کو دوبارہ بحال کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ وہ باقائدہ چینل کے ذریعے معافی نامہ جمع کرائے اور اپنے کیے پر معافی مانگے جس پر جبرائل نے واضح انکار کردیا۔
دوسری طرف ہراسمنٹ کی شکار طالبہ کے مطابق اس نے ایک ماہ سے انتظامیہ کے پاس شکایت جمع کرائی ہے جس پر انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اپنی شکایت میں اس طالبہ نے جبرائل کو ہی چشمہ دید گواہ کے طور پر بتایا ہے۔ اس طالبہ نے ڈان اخبار کو بتایا کہ انتظامیہ نے ایک دن اسے کہا کہ “تم اب کوئی اور چشمہ دید گواہ کہاں سے لاؤگی، جبرائل کیساتھ تو ہم دیکھ لیں گے”۔ اسکے بعد ہم نے دیکھا کہ جبرائل کے خلاف یہ انتقامی کاروائی کی گئی۔

جبرائل نے اپنی یونیورسٹی کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے منیجر کے ہاتھوں ایک فی میل ملازمہ کی ہراسانی کا آنکھوں دیکھا واقعہ اپنے فیس بک اکاونٹ پر بیان کرکے اس کے خلاف آواز اٹھائی


انتظامیہ کے اس شرمناک عمل پر سوشل میڈیا پر اور خاص طور پر یونیورسٹی میں غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے آئی بی اے انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، جنہوں نے سٹوڈنٹ کو ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھانے پر نکال دیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ اس طالبعلم  نے پراپر چینل استعمال کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر بات کی۔ لیکن اس بات میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس طالبعلم کے مطابق اس نے کافی عرصہ پہلے انتظامیہ کی نام نہاد اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی اور ڈسپلن کمیٹی کو ای میل بھی بھیجا تھا جس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ دراصل انتظامیہ کو صرف یونیورسٹی کی پبلک امیج کا خیال تھا اس لیے سوشل ای میل کی بجائے سوشل میڈیا کی پوسٹ پر انہوں نے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ مگر پھر بھی پہلے ان کی نام نہاد کمیٹیوں اور اور پراپر چینل کی کھوکھلی حقیقت پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ کمیٹیاں اس قابل ہیں بھی کہ ان میں ہراسمنٹ کیس رپورٹ کیے جائیں۔
ہم پہلے ہی بتاتے رہے ہیں اور یہ تمام طلبہ کو بھی بخوبی معلوم ہے کہ ”اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں“ میں دراصل ہراسانی اور ہراساں کرنے والوں کو تحفظ دیا جاتا ہے بلکہ یوں کہیں کہ خود ان میں ہراسمنٹ میں ملوث افراد بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب تک ان کمیٹیوں میں طلبہ کی نمائندگی نہ ہو، اس وقت تک یہ کمیٹیاں قابل اعتماد نہیں ہو سکتیں۔


ہم  نے بے شمار واقعات میں دیکھا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کی ہراسانی کے واقعات آجاتے ہیں اور سامنے آتے ہی ان کو نام نہاد”اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں“ میں تفتیش کے نام پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بے ایمانی اور دھوکے بازی پر مشتمل ایک منافقانہ اور بے معنی تفتیشی عمل شروع کروایا جاتا ہے جس کا حقیقی مقصد اس کیس کو جھٹلانا، مٹانا، غائب کروانا اور دبانا ہوتا ہے۔ اس کیلئے ”اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں“ میں شامل لوگ مختلف قانونی، سماجی، سیاسی و ثقافتی حربے استعمال کرتے ہیں۔


اس سب کا ہر تعلیمی ادارے میں طلبہ خوب تجربہ کر چکے ہیں اور کسی بھی طالبعلم سے، چاہے وہ میل ہے یا فی میل، ان کمیٹیوں کی حقیقت کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ ان کمیٹیوں کی ایک حقیقی تصویر بہتر طور پر دکھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کو جس طرح ہر قدم پر جنسی ہراسانی سے لیکر ہر قسم کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں سے اگر ایک تہائی واقعات بھی سامنے لائے جائیں تو اس سماج کی تمام تر منافقانہ اخلاقیات اور ثقافتی غلاظت کا پردہ پاش ہو جائے گا۔ ایک بار اگر خواتین نے اس تعفن زدہ سماج کے بدبودار چہرے سے نام نہاد مشرقی روایات کا نمائشی پردہ اٹھایا تو یہاں موجود بدبو پورے سماج میں ایک زبردست غصے اور بے چینی کا سبب بن سکتی ہے اور یہ غصہ پھر طبقاتی سماج کی اس اخلاقی گراوٹ اور بدبو کیساتھ ساتھ پورے طبقاتی نظام کے خلاف بھی رخ اختیار کر سکتا ہے۔


ہم نے پچھلے دو تین سالوں میں پاکستان کے مختلف بڑے تعلیمی ادارے میں طالبات کیساتھ جنسی ہراسانی کے ہولناک واقعات دیکھے۔ بلوچستان یونیورسٹی کا جو سکینڈل سامنے آیا وہ اس سماج میں تعلیمی نظام کیساتھ ساتھ اخلاقی اور ثقافتی گراوٹ کو بھی ننگا کرنے کیلئے کافی تھا۔ مگر سب نے دیکھا کہ اس کیس کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھاکر ختم کرنے کیلئے تفتیشی کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا۔ اسکے بعد تمام حقیقی بھیڑیوں کو بری الزمہ کرتے ہوئے دو سکیورٹی اہلکاروں کو قربان کرکے معاملے کو ختم کیا گیا۔ اسی طرح اسلامیہ یونیورسٹی پشاور میں طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف پچھلے سال طالبات نے بہت بڑی ریلی نکالی اور پروفیسر اور استاد کے روپ میں چھپے بھیڑیوں کو سرعام ننگا کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے ”اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں“ سے لیکر ہر قانونی حربہ اپنایا مگر کوئی بھی ان کو نہیں بچا سکا جس کے بعد وہ ریلی نکالنے پر مجبور ہوئی تھیں۔ ریلی کرنے کے بعد انتظامیہ نے ان کا کیس اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی میں زیر بحث لایا مگر کوئی ایماندارانہ اقدام اٹھتا ہوا نظر نہیں آیا۔ طلبہ نے صوبائی اینٹی ہراسمنٹ کورٹ کا رخ کیا اور وہاں اپنا کیس دائر کروایا۔ مہینوں کیس چلنے کے بعد بالآخر ہراسمنٹ ثابت ہوئی اور طلبہ کیس جیت گئے مگر تمام سزاواروں کو سزا دینے کی بجائے صرف ایک پروفیسر کو باعزت اپنے عہدے سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس پروفیسر کے خلاف اتنے شواہد سامنے آئے کہ نہ تو یونیورسٹی کی ”اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی“ اور نہ ہی ”صوبائی اینٹی ہراسمنٹ کورٹ“ اس کو بچا سکے۔

ایسے ماحول میں طلبہ سے یہ توقع کرنا انتہائی غلط ہے کہ وہ ہراسانی کے واقعات کے خلاف پہلے سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کی بجائے ان نام نہاد اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں لے کر آئیں اور اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ کو بتایا جائے تاکہ انتظامیہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر ہراسانی کے واقعات کو سامنے لانے سے پہلے دبا سکے۔


اس بنیاد پر ہی آئی بی اے کراچی کے طالبعلم کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے جو کہ انتہائی مجرمانہ عمل ہے جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں اور اس طالبعلم کے ساتھ مکمل یکجہتی کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس طالبعلم کا داخلہ واپس بحال کیا جائے اور اس کو یونیورسٹی میں غیر مشروط طور پر دوبارہ داخل ہونے دیا جائے تاکہ وہ اپنا تعلیمی سلسلہ بغیر کسی مشکل کے جاری رکھ سکے۔


ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں موجود نام نہاد ”اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں“ پر طلبہ کو اعتماد نہیں ہے۔ یہ کمیٹیاں بلی کو دودھ کی چوکیداری پر مامور کرنے کے مترادف ہیں۔ اس لئے طلبہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہراسمنٹ کے خلاف جہاں بھی ممکن ہو آواز اٹھائیں، احتجاج کریں، ریلی نکالیں اور جدوجہد کریں۔ اس بنیاد پر طلبہ کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کاروائی کے خلاف سب طلبہ کو متحد ہو کر جواب دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو یہ مطالبہ لیکر آگے بڑھنا چاہئے کہ فوری طور پر تعلیمی اداروں میں موجود نام نہاد اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کو تحلیل کرتے ہوئے طلبہ کی بھرپور شرکت کیساتھ نئی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں یا موجودہ کمیٹیوں میں طلبہ خاص طور پر فی میل طلبہ کو بھر پور نمائندگی دی جائے۔ طلبہ کو اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اپنے دیگر تعلیمی حقوق کے حصول کیلئے بھی جدوجہد شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان بھر میں طلبہ کا کوئی اپنا ایک متحدہ پلیٹ پارم(طلبہ یونین) موجود نہیں جو طلبہ کے تمام حقوق کا دفاع کر سکے، تمام مسائل کو سامنے لا سکے اور تمام طلبہ کی بلا کسی علاقائی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تفریق کے نمائندگی کر سکے۔ اس لئے آج طلبہ کو پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، رہائش، کیساتھ ساتھ طلبہ یونین اور ہر سطح پر تعلیم کو مفت کروانے کیلئے ایک ملک گیر انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔


پروگریسو یوتھ الائنس ملک بھر کے تمام طلبہ کے ان حقوق کیلئے طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اس جدوجہد کو آگے بڑھائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.