|رپورٹ: پی وائی اے، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلگت بلتستان|
کل 31 اگست، بروز جمعرات کو قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ نے کلاسز کا بائیکاٹ کرتے ہوئے یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ احتجاج میں طلبہ کی کَثِیر تعداد نے شرکت کی۔ یاد رہے کہ پچھلے کئی سالوں سے یونیورسٹی میں ہر سال فیسوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے، جس سے طلبہ کو پریشانی سامنا کرنا پڑ رہا تھا، لیکن اس سال فیسوں میں 50 فیصد کا ظالمانا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے خلاف طلبہ میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔
احتجاج میں شرکت کرنے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور وائس چانسلر کی طرف سے مسلط کردہ فیسوں میں اضافے کے طلبہ دشمن فیصلے نے انہیں تعلیم ترک کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مالی مشکلات کے پیش نظر مجبوراً انہیں فیسوں میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔ پچھلے دنوں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قراقرم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ”قراقرم یونیورسٹی کے نام پر یونیورسٹی انتظامیہ پیٹرول پمپ اور ہنزہ جیسے مہنگے اور سیاحتی مقام پر ہوٹل بھی بنوانے جارہی ہے“۔ یہی نہیں بلکہ چند ماہ قبل یونیورسٹی انتظامیہ نے صاف پانی کی فراہمی کے لیے پانی کی پوری کمپنی کھول دی ہے، جہاں سے طلبہ کو پانی جیسی بنیادی ضرورت بھی پیسوں کے عوض حصول کرنا پڑ رہا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یونیورسٹی حقیقت میں مالی مشکلات سے دوچار ہے تو اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کس کے پیسوں سے کی جا رہی ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ نے قراقرم یونیورسٹی کو اب ایک کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف تعلیم کو فروخت کیا جا رہا ہے وہاں پانی جیسی بنیادی ضروریات کو بھی فروخت کر کے منافعوں میں مزید اضافہ کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
مزید براں پچھلے کئی سالوں سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں طلبہ میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے اسلحے سے لیس سیکورٹی فورسز بھی تعینات کردیئے گئے ہیں۔ پوری یونیورسٹی اب ایک تعلیمی ادراے کے بجائے فوجی چھاونی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ قراقرم یونیورسٹی میں ابھرتے ہوئے ان تمام مسائل کے گرد طلبہ و طالبات کو اکھٹا کرنے کے لیے طلبہ قیادت کا فقدان ہے، جس کی اہم وجہ طلبہ یونینز پر پابندی ہے۔ اور اس پابندی کا خمیازہ آج ملک کے ہر طالب علم کو بھگتنا پڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب طلبہ کو متحد ومنظم ہوتے ہوئے ہر کلاس اور ڈیپارٹمنٹ سے نمائندے چن کر یونیورسٹی کی سطح کی منتخب شدہ طلبہ کمیٹی بنا ئیں۔ اور اس کے تحت فیسوں میں اضافے، تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، طلبہ یونین کی پر عائد پابندی، ہراسمنٹ، ٹرانسپورٹ اور ہاسٹل کی سہولیات کی کمی و دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد کریں۔
پروگریسو یوتھ الائنس فیسوں میں اضافے کے ظالمانہ فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے اور اس جدوجہد میں طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ابھرتے ہوئے مسائل کی بنیاد موجودہ امیر اور غریب طبقے پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں۔ کیونکہ سرمایہ داری کا بنیادی تقاضہ ہی یہی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کو نجی ہاتھوں میں دیتے ہوئے انہیں مٹھی بھر افراد کے سرمائے میں اضافے کا ذریعہ بنادیا جائے، اس کا لازمی نتیجہ آبادی کی اکثریت کو غربت، لاعلاجی اور جہالت میں دھکیل دیا جانا ہی ہوتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں ابھرتے ہوئے مسائل کی بنیادیں مروجہ نظام میں پیوست ہیں اور ان تمام مسائل کا خاتمہ صرف ایک ایسے ہی نظام میں ممکن ہے جہاں تعلیم، اور علاج، جیسی بنیادی ضروریات کو فراہم کرنے کا مقصد منافعے کے حصول کے بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل ہو۔ یہ سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے، اس لیئے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہو ئے شلسٹ انقلاب کرنا وقت کی ناگزیریت بن چکا ہے۔