20 ویں صدی میں برطانوی سامراج کے بعد دوسری بڑی سامراجی طاقت فرانس کی تھی۔ افریقہ کے کئی ممالک سمیت ایشیا کے کئی خطوں میں فرانس کی نوآبادیات تھیں۔ ان میں سے ایک ملک شمالی افریقہ میں واقع الجزائر بھی تھا، جس پر فرانس نے 1830ء میں حملہ کر دیا تھا اور جو 1962ء تک اس کی نوآبادی رہی۔ فرانسیسی راج کے خلاف ابتدائی مزاحمت کے بعد وقتاً فوقتاً کئی بغاوتیں ہوتی رہیں۔
الجزائر کی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے یہ ایک شاندار فلم ہے اور دنیا بھر میں فلم کے طالبعلموں کے لیے تدریس کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس فلم میں انقلابیوں کے لیے بھی بہت سے اہم اسباق ہیں جبکہ دوسری جانب فرانس سمیت مختلف سامراجی ممالک میں ریاستی جبر کرنے والے اداروں میں بھی اس فلم کو تربیت کے لیے دکھایا جاتا ہے۔
الجزائر کی آزادی کے محض چار سال بعد ریلیز ہونے والی یہ فلم 1954ء اور 1957ء کے دوران ملکی دارالحکومت الجزائر شہر کے اندر رونما ہونے والے حقیقی واقعات پر مبنی ہے، جو فرانسیسی استعمار کی وحشت اور الجزائر کی تحریکِ آزادی کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ اس میں نیشنل لبریشن فرنٹ (ایف ایل این) نامی سیاسی پارٹی کی مسلح سرگرمیوں کو دکھایا گیا ہے۔
فلم کا آغاز علی عمار نام کے ایک نوجوان کی کہانی سے ہوتا ہے جو ظلم و جبر سے تنگ آ کر مسلح جدوجہد کرنے کے لیےایف ایل این کا رکن بن جاتا ہے اور بعد میں اس کی قیادت کا حصہ ہوتا ہے۔ فلم میں مسلح جدوجہد کی محدودیت بھی واضح ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی بھرپور شمولیت کے بغیر کوئی بھی آزادی کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔
عوام کی تحریک میں شمولیت کا کوئی بھی متبادل نہیں ہو سکتا خواہ کوئی کتنا ہی بڑا لیڈر کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ سامراجی جبر اور مظالم کو بھی دکھایا گیا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ فوجی جبر اور ظلم سے کسی بھی عوامی تحریک کو دبایا نہیں جا سکتا اور ظالموں کو ایک دن شکست ضرور ہوتی ہے۔
فلم میں مقامی کردار عربی بولتے ہیں جبکہ فرانسیسی کردار اپنی زبان میں گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ انوکھی تکنیک اس فلم کے معیار کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ فرانسیسی کرنل کا کردار نبھانے والے اداکار کے علاوہ باقی سارے فنکار باقاعدہ طور پر اداکاری سے وابستہ نہیں تھے۔ ایف ایل این کے قائد الھادی جعفر کا کردار نبھانے والا سعدی یاسف بذاتِ خود پارٹی اور جدوجہد کا حصہ رہا تھا۔
بلیک اینڈ وائٹ میں فلمائی گئی اس فلم میں چند سین کے علاوہ کچھ زیادہ بحث مباحثے شامل نہیں ہیں۔ یہ کچھ بولنے سے زیادہ دکھاتا ہے؛ یہ کہ ظلم اور امن ایک ساتھ ممکن نہیں۔ جہاں گلی گلی چیک پوسٹ لگا کر مقامی لوگوں کی تذلیل کی جاتی ہو اور کسی کو کوئی سیاسی و جمہوری حق حاصل نہ ہو، وہاں شدید ردعمل کا آنا ناگزیر ہوتا ہے جو کسی بھی شکل میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔
بہرحال جیسا کہ ایک سین میں پارٹی کا ایک قائد بن مھیدی عام ہڑتال کے حوالے سے کہتا ہے، جنگیں اور انقلابات جیتنے کے لیے محض مسلح جدوجہد کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے سارے عوام کا متحرک ہونا لازم ہوتا ہے۔