|تحریر: پروانہ خان|
پاکستان میں سرمایہ داری نظام کا بحران سماج کے ہر شعبے کو تباہ و برباد کرتا جارہا ہے۔ ایسا کوئی شعبہ نہیں جو اس بحران کے اثر سے بچا ہوا ہو۔ تعلیم، علاج، روزگار عام لوگوں کیلئے خواب بن چکے ہیں۔ ایسے میں اگر خصوصی طور پر شعبہ تعلیم کی تباہی پر ایک نظر دوڑائیں تو انتہائی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے۔
ایک طرف ملک کے معاشی بحران، مسلسل بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے محنت کش طبقہ پہلے ہی انتہائی غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور دن رات محنت کر کے خون پسینا بہانے کے باوجود بھی اس کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی محال ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی زمین بوس شعبہ تعلیم کی تباہی کے باعث بھی محنت کش طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہواہے۔ محنت کش اور نچلے درمیانے طبقے سے وابستہ نوجوانوں کے لیے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنا توپہلے ہی ناممکن تھا، لیکن اب سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری اور فیسوں میں اضافہ ان کو تعلیم کے حق سے محروم کرتا جا رہا ہے، اعلیٰ تعلیم تک رسائی ان کے لیے ایک خواب اور عیاشی بن چکا ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقہ اور اس کے محافظ ادارے محنت کش طبقے کو سہولیات دینا تو درکنار اپنی عیاشیوں کو برقرار رکھنے کی خاطر بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے اور طلبہ پر ڈال رہے ہیں۔
اس وقت بلوچستان یونیورسٹی سمیت بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے بالخصوص یونیورسٹیوں میں اٹھارویں ترمیم کے بعدسالانہ بجٹ اور دیگر مالیاتی ایشوز ہائر ایجوکیشن کمیشن باالفاظِ دیگر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان ہچکولے کھا رہے ہیں۔ اگر بلوچستان یونیورسٹی کاجائزہ لیاجائے تو اس و قت یونیورسٹی کو ماہانہ بنیادوں پر صرف تنخواہوں کی مد میں 24 کروڑ روپے کے قریب ماہانہ اخراجات کی ضرورت ہے، جوکہ سالانہ کم از کم 2 ارب 88 کروڑ بنتے ہیں۔ جبکہ 12یونیورسٹیوں کے لیے ہائیر ایجوکیشن کی طرف سے محض ڈھائی ارب روپے اور صوبائی حکومت کی جانب سے3.5 ارب روپے ملتے ہیں۔ جوکہ مجموعی طور پر 6 ارب روپے بنتے ہیں۔ جس میں بلوچستان یونیورسٹی کا حصہ محض سالانہ 48 کروڑ بنتا ہے۔ اور 48 کروڑ روپے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اینڈ مینجمینٹ سائنسز (BUITEMS ) کا بنتا ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی بلوچستان یونیورسٹی کے بینر تلے اساتذہ کرام، آفیسران اور ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کی تاحال عدم ادائیگی، یونیورسٹی کو درپیش سخت مالی و انتظامی بحران کے خاتمے، اور یونیورسٹیز ایکٹ 2022ء کی پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ کرام، آفیسران، ملازمین اور طلباء وطالبات کی منتخب نمائندگی یقینی بنانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کر رہے ہیں۔
اسی اثناء میں بلوچستان یونیورسٹی کی فیسوں میں 100 فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے۔ جس میں ماسٹرز، بی ایس پروگرام اور ایم فِل پروگرام پر جامعہ کے اخراجات طلبہ سے وصول ہونے والی فیسوں سے زیادہ ہیں۔ اور درخواست کی گئی تھی کہ فیس کو 67500 سے بڑھا کر 151000 کر دی جائے۔ اور رجسٹرار آفس سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں فیسوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا۔ اور اسی طرح پی ایچ ڈی کی فیسوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ 1 لاکھ 24 ہزار روپے سے فیس بڑھا کر 3 لاکھ27 ہزار روپے کر دی گئی۔ جوکہ پی ایچ ڈی پروگرام میں دو گنا سے زیادہ کااضافہ بنتا ہے۔پی ایچ ڈی کی3لاکھ27 ہزار روپے فیس کے علاوہ600 ڈالرز تھیسزز چیکنگ کے نام سے سکالرز سے لئے جاتے ہیں۔ یعنی پی ایچ ڈی کرنے کے لئے ٹوٹل فیس 4 لاکھ تیس ہزار تک بڑھائی گئی ہے۔ فیسوں میں کئی گنا اضافہ کر کے نوجوانوں سے تعلیم جیسابنیادی حق بھی چھینا جا رہاہے۔اور ایم فیل/ پی ایچ ڈی سکالرز کی ریسرچ گرانٹس کابھی خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چند ماہ پہلے ”ٹیچرز ریمیونیریشن“ پر اضافے کی درخواست کو بھی ختم کرنے کے آرڈرز جاری کیے گئے تھے۔
ایک طرف ایم فل و پی ایچ ڈی اور دیگر کورسزز کی فیسوں میں 100 فیصد سے زائدکا اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ دوسری طرف وائس چانسلر کی تنخواہ تین لاکھ روپے سے بڑھا کر بارہ لاکھ پچاس ہزارروپے کردی گئی ہے۔ اس بھاری بھرکم تنخواہ کے ساتھ ساتھ دیگر مراعات الگ ہیں۔تعلیم کے شعبے میں ریاست کا دوہرا معیار تعلیم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی میں ہر سال پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کے امتحان کا اعلان ہوتا ہے۔ بلوچستان بھر سے محنت کش گھرانوں سے وابسطہ نوجوان جو کم سنی میں ہی گھر بار کی ذمہ داری کندھوں پرآ جانے کی وجہ سے مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور یونیورسٹی کی ریگیولر کلاسیں لے کر تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے، وہ بلوچستان یونیورسٹی میں پرائیویٹ امتحان دینے کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔اس امتحان کے لیے ہزاروں طلبہ 8 سے 10 ہزار روپے تک فیسیں جمع کراتے ہیں۔ مگر کرپٹ انتظامیہ 80 فیصد سے زائد طلبہ کو مختلف مضامین میں قصداً فیل کر دیتی ہے۔ فیل طلبہ کو ضمنی امتحان دینے کے لیے دوبارہ ہزاروں روپے فیس جمع کروانی پڑتی ہے۔صرف پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کرنے والے طلبہ کی فیسوں کی مد سے ہی یونیورسٹی کو کروڑوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔
ستم یہ ہے کہ اتنی فیسیں بٹورنے کے باوجود بھی بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کوتنخواہیں نہیں دی جارہیں، ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی بلوچستان یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے اساتذہ،اور ملازمین ماہانہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور یونیورسٹی کو درپیش سخت مالی و انتظامی بحران کے خاتمے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کر رہے ہیں۔ پچھلے تین ماہ سے مسلسل احتجاج کے باوجود تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے ضمن میں بلوچستان یونیورسٹی کو احتجاجاً تمام تر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بند کردیا گیا ہے۔
طلبہ مزدور اتحاد کیوں ضروری ہے اور کیسے قائم کیا جائے؟
طلبہ اور ملازمین کے مسائل مشترکہ ہیں اس لیے جدوجہد بھی متحد اور منظم ہو کر کرنا ہوگی۔ ملازمین و طلبہ کو چاہئیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کیلئے حکمت عملی تشکیل دیں۔
طلبہ اور ملازمین کا اتحاد قائم کرنے کیلئے پروگریسو یوتھ الائنس کی عملی تجاویز:
1- ملازمین اپنی احتجاجی تحریک میں طلبہ کے مسائل جیسے فیسوں میں اضافہ، ہاسٹلوں کی عدم دستیابی، ہراسمنٹ وغیرہ کو بھی شامل کریں۔
2- تمام ڈپارٹمنٹس کے طلبہ تک ملازمین اور طلبہ اتحاد کا پیغام پہنچایا جائے۔
3- طلبہ یونین کی عدم موجودگی میں کیمپس میں طلبہ کا کوئی نمائندہ پلیٹ فارم موجود نہیں ہے، لہذا جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہو جاتی تب تک طلبہ خود پورے کیمپس میں منظم ہونے کا آغاز کریں۔ اس کے لیے طلبہ فوری طور پر تمام ڈپارٹمنٹس کے طلبہ پر مشتمل ایک نمائندہ کمیٹی تشکیل دیں جو پھر اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ ملازمین کے مسائل کے حل کیلئے بھی جدوجہد کرے۔
4- اس جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے طلبہ-مزدور اتحاد کو کیمپس سے باہر بھی لے کر جانا ہوگا اور بلوچستان اور باقی ملک میں جاری دیگر محنت کشوں اور طلبہ کی تحریکوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہوگا۔
ساتھیو! اس وقت پاکستانی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے،جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بحران مستقبل میں مزید شدت اختیار کرے گا، جس کے اثرات مزید شدت کے ساتھ شعبہ تعلیم پربھی پڑیں گے۔ در حقیقت پاکستان کا نظام تعلیم موجودہ عہد کے تقاضوں سے اتنا دور ہو چکا ہے کہ اب اسے مکمل طور پر بدلے بغیر اس کا جاری رہ پانا بھی ناممکن بنتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ملک دیوالیہ ڈکلیئر ہونے والا ہے۔ دیوالیہ قرار دیے جانے کے بعد شعبہ تعلیم اچانک سے دھڑام بھی ہو سکتا ہے۔ اس بحران کا سارا بوجھ پھر محنت کشوں اور مڈل کلاس کی اولادوں پر ہی لادا جائے گا۔ کیونکہ حکمرانوں کے بچے ویسے بھی یا تو ملک میں موجود مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں یا پھر بیرون ملک۔ چونکہ طلبہ کی فیسوں میں اضافے کا مسئلہ ہو یا ملازمین کی تنخوہوں کی عدم ادائیگی جیسا سنگین مسئلہ ہو، یہ سب تعلیمی بجٹ سے منسلک مسائل ہیں۔ اور تعلیمی بجٹ ملک کے مجموعی بجٹ اور سرمایہ دارانہ نظام سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا تمام مسائل کے فوری حل کے لیے طلبہ اور محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں متحد ہو کر مزاحمت کرنی ہوگی،لیکن ان تمام مسائل کے حتمی حل کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرکے سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہوگا۔ سوشلسٹ نظام میں ملک کی ساری دولت کو حکمرانوں کی عیاشیوں کی بجائے عوامی سہولیات جیسے تعلیم اور صحت وغیرہ پر خرچ کیا جائے گا۔
طلبہ مزدور اتحاد۔۔۔ زندہ باد!
جیناہے تو۔۔۔ لڑنا ہوگا!