|تحریر: عمر ریاض|
گزشتہ ہفتے ڈان نیوز میں ایک خبر ایسی چھپی جس سے موجودہ حکومت کا تعلیم دشمن چہرہ واضح طور پر سامنے آ گیا ہے۔ خبر کچھ یوں تھی کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے حکومت کو مراسلہ لکھا جس میں انہوں نے حکومت سے آنے والے مالی سال 2019۔20 میں تعلیمی اخراجات کیلئے 103 ارب روپے طلب کیے جس کے جواب میں حکومت نے 58 ارب روپے دینے کی یقین دہانی کروائی۔ اسکے بعد بول ٹی وی کی خبر بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی کہ، حکومت نے تعلیمی اخراجات کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسکالرشپ ختم کر دیے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس سال داخلے کم کرنے کیلئے داخلہ فیس دو گنا کرتے ہوئے پہلے سے موجود فیسوں میں دو گنا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ویسے تو یہ خبر بھی دیگر خبروں کی طرح معمولی خبر ہی ہے لیکن ذرا غور کیا جائے تو بہت آسانی سے معلوم پڑ جاتا ہے کہ یہ فیصلہ لاکھوں لوگوں سے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت چھیننے کی ایک غلیظ سازش ہے۔گزشتہ سال اکتوبر میں بھی ڈان نیوز نے ایک خبر شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت کی ن لیگ کی حکومت نے مالی سال 2018۔19 کیلئے تعلیمی بجٹ میں 14 فیصد کمی کی ہے لیکن اس سال اس حکومت نے پچھلی حکومت کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے 50 فیصد کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں پہلے ہی آبادی میں سے نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت تعلیمی ادارے نا کافی ہونے اور ریاست کے تعلیم پر کم خرچ کی وجہ سے باہر ہیں کیوں کہ جب ریاست تعلیم پر بجٹ کا کم حصہ خرچ کرتی ہے تو تعلیمی اداروں کو تعلیم کو بیچنے کی کھلی اجازت بھی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ نظر آتا ہے اور اتنی مہنگی تعلیم خریدنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے بڑی اکثریت تعلیمی اداروں سے باہر رہنے پر مجبور ہے اور ایسی کیفیت میں اس اکثریت کا مستقبل مکمل طور پر تاریک ہے لیکن دوسری طرف جہاں ایک چھوٹی سی اقلیت یعنی چار فیصد سے بھی کم اعلیٰ تعلیم کو بمشکل خرید پاتی ہے وہ بھی اس اقدام کے بعد اس قوت خرید سے محروم ہوتے ہوئے نظر آرہی ہے۔
حکومت کے اس فیصلے کے بعد ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ یونیورسٹیاں اپنے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے چندہ اکٹھا کریں جس کے بعد ہمیں مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اخبارات کو انٹرویوز دیتے نظر آئے ہیں جس میں خاص طور پر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر نے ڈان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم تعلیمی ادارے میں طلبہ کو ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ پر سبسڈی دیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان اخراجات کو پورا کرنے کیلئے سبسڈیوں کو کم کرنا پڑے گا۔ جسکا واضح مطلب یہ ہے کہ صرف تعلیم کی فیسوں میں ہی اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی پہلے سے موجود خستہ حال سہولیات مزید مہنگی اور کم ہونے کی طرف جائیں گی۔اسی طرح 23اپریل کو اسلام آباد میں مختلف یونیورسٹیوں کے وی سیز (VCs) کی ایک کانفرنس ہوئی جس میں اس عوام اور تعلیم دشمن فیصلے کی مذمت کرنا یا حکومت کے اس فیصلے کم از کم مایوس کن اقدام تک کرار دینے کے بجائے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مخیر حضرات سے چندے لے کر یونیورسٹیوں کو چلایا جائے گا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ فیصلہ ہوا کہ تعلیم جیسی بنیادی ریاستی ذمہ داری کو اب بھیک بنا دیا جائے گا۔
اب اگر تعلیم باقی اجناس کی طرح ایک جنس ہی ہو تو یہ سر تسلیم خم کر لینا چاہیے کہ اب ہم یہ جنس نہیں خرید سکتے لیکن تعلیم کا معاملہ زرا مختلف ہے۔ تعلیم جنس نہیں بلکہ بنیادی لازمی ضرورت ہے (وہ الگ بات ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیم بھی باقی اجناس کی طرح دولت بڑھانے کیلئے بطور ایک جنس ہی کام کرتی ہے) اور عوام کی اس ضرورت پر خرچ ہونے والے بجٹ میں کمی کرنے کا مطلب عوام دشمنی کرتے ہوئے عوام کو جہالت کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔
یہاں یہ چیز واضح ہے کہ حکومت معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے اسکا سارا ملبہ نا صرف ٹیکسوں میں اضافے کی شکل میں عوام پر ڈال رہی ہے بلکہ ان کو دی گئی سبسڈیوں کا بھی خاتمہ کر کے ان کو محروم کرنا چاہتی ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلیمی اخراجات پر خرچ ہونے والے اس بجٹ میں کمی سے کون متاثر ہوگا؟ حکمرانوں کے بچے؟ یا محنت کشوں کے بچے؟ میرے خیال میں کوئی بھی بندہ اس سوال کہ جواب میں کبھی بھول کر بھی یہ نہیں کہے گا کہ حکمرانوں کہ بچے۔ کیونکہ حکمرانوں کی اولادیں تو اس ملک میں تعلیم حاصل ہی نہیں کرتے نہ ہی انہیں فیسوں میں اضافے سے کسی مشکل کا سامنا ہے جبکہ اس سے براہ راست متاثر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اولادیں ہوں گی کیونکہ یہ پہلے سے موجود خستہ حال تعلیمی نظام ان کیلئے ہے نہ کہ حکمرانوں کی اولادوں کیلئے۔
دوسرا سوال جو اس سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ تعلیم کے بجٹ پر کیوں کٹوتی کی جا رہی ہے؟ اس سوال کی سمجھ ہمیں مسئلہ کی اصل جڑ تک لے جائے گی اور وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ایک طرف جہاں اس شدید معاشی بحران میں بھی سرمایہ دار طبقے کی دولت میں اضافے کیلئے بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہے وہیں ٹیکسوں میں اضافے کی شکل میں سارا بوجھ عوام پر بھی ڈالا ہے جسکا اظہار ہمیں عوام میں موجودہ حکومت کے خلاف شدید غصے کے طور پر احتجاجوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے شدید شرائط کا سامنا ہے جس میں ایک شرط دفاعی بجٹ کو کم کرنے کی بھی ہے تاکہ بجٹ کے خسارے کو پورا کیا جا سکے یا پھر ڈویلپمنٹ بجٹ جو کہ پہلے ہی کم ترین سطح پر ہے اسے مزید کم کیا جائے۔ اب اپنے باپ کا خرچہ تو کم نہیں کیا جا سکتا لیکن نوکر کی تنخواہ میں کمی اور اسکے بچے کے تعلیمی اخراجات کو تو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسی کا اظہار موجودہ حکومت کے ان اقدام سے واضح ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کی عیاشیوں میں کسی بھی صورت کمی نہی آنی چاہیے چاہے عوام کو تعلیم سے ہی کیوں نہ محروم کرنا پڑے۔
پروگریسو یوتھ الائنس ریاست کے اس گھنونے اور تعلیم دشمن اقدام کی شدید مذمت کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ تعلیم ہر شہری کا بنیادی لازمی حق ہے اور ہر صورت میں وہ تمام لوگوں کو میسر کیا جائے۔ اسکے لیے دفاعی بجٹ میں کمی اور حکمرانوں کے اخراجات پر کٹوتی کی جائے اور بیرونی قرضوں کو ادا کرنے سے فوری طور پر انکار کرتے ہوئے ان تمام پیسوں کو تعلیمی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے پر صرف کیا جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کو یہ پیغام دیتی ہے کہ حکومت کے اس انتہائی تعلیم دشمن قدم کے خلاف پورے پاکستان میں احتجاج منظم کریں اور سر فہرست طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کریں تاکہ طلبہ یونین بحال کرواتے ہوئے نا صرف فیسوں کا خاتمہ کراو کر مفت تعلیم کہ حصول کو ممکن بنایا جا سکے بلکہ طلبہ میں سیاسی شعور بیدار کرتے ہوئے معاشرے کی باگ دوڑ طلبہ سمبھال سکیں اور اس معاشرے کی مجموعی ترقی کیلئے اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر پھینکنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ بصورتِ دیگر ہمیں تعلیم سے محروم ہونا پڑے گا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ مزید برداشت نہ کیا جائے اور پی وائی اے کے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک لڑائی کا آغاز کیا جائے!
حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے!