بجٹ 2020-21: اعلیٰ تعلیمی بجٹ کدھر؟

|تحریر : فرحان رشید|

نیا بجٹ پرانی داستان

12 جون 2020 بروز جمعہ آئی ایم ایف کے زیرِ نگرانی تخلیق کیا گیا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ جس میں واضح طور پر حکومتی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جہاں 41 فی صد بجٹ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگا، تو دفاعی بجٹ میں گیارہ فیصد سے ذیادہ اضافہ کیا گیا مگر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو وعدہ کی گئی رقم سے بھی کم دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے 104.789 ارب روپے طلب کیے گئے تھے مگر ریاست کی جانب سے 70 ارب کا وعدہ کیا گیا جس کا ذکر ایچ ای سی کی جانب سے کچھ روز قبل ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا, مگر جب بجٹ پیش کیا گیا تو یہ رقم مزید سکڑتے ہوئے 64.1 ارب روپے پہ آ رُکی۔ اسی طرح ڈویلپمنٹ بجٹ کی صورتحال بھی مختلف نہیں، جہاں HEC نے 42.6 ارب روپے طلب کیے مگر حکومت کی طرف سے 29.47 ارب روپے دیے گیے.

اگر ہم اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے موجودہ بجٹ دیکھیں تو فقط سال بدلا وگرنہ بجٹ میں فرق چند ہندسوں کا ہی آیا. گزشتہ برس HEC کا ڈویلپمنٹ بجٹ 29.196 ارب روپے تھا، اور حالیہ برس چند کروڑ اضافے کے ساتھ 29.47 ارب روپے۔ بظاہر ڈویلپمنٹ بجٹ میں چند کروڑ کا اضافہ نظر آ رہا ہے مگر یہاں معمولی سے اضافے میں بھی ہیر پھیر ہے۔ گزشتہ سال سے اس سال تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریباً 9 روپے کمی ہوئی اور وہیں افراطِ زر (Inflation) بھی اس برس 11 فیصد سے اوپر رہا۔ یقیناً یہ اعداد و شمار ڈویلپمنٹ کے حصے میں اضافے کی قلعی کھولنے کےلیے کافی ہیں۔ یاد رہے عمومی بجٹ کو وعدہ کیے ہوئے 70 ارب روپے (جو انتہائی ناکافی ہیں) سے بھی کم کر کے 64 ارب روپے پر لایا گیا ہے۔

طلبہ دشمن بجٹ کے اثرات

اس وقت یہ سوال بہت ذیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ایک طرف تو بجٹ میں ظاہری اضافہ حقیقی بنیادوں پہ کوئی اضافہ نہیں ہے اور وہیں جو ہائیر ایجوکیشن کی مطلوبہ رقم تھی اس سے تقریباً 40 فیصد کم رقم بجٹ میں دی گئی اس کے اثرات کیا ہوں گے اور یہ کمی کس طرح پوری ہوگی؟
ان سب سوالات کا جواب واضح طور پر ہم گزشتہ تمام تجربات کی روشنی میں دے سکتے ہیں کہ جب پچھلے برس بھی ریاست کی جانب سے کٹوتیاں کی گئیں تو اس کا سارا بوجھ عام طلبہ کے کندھوں پہ ڈالا گیا اور ملک بھر کی تمام جامعات کی فیسوں میں 10 فی صد سے لے کر 40 فی صد تک اضافہ کیا گیا، وہیں دیگر اور امتحانات جیسے سپلی کے امتحانات میں 200 فی صد کا اضافہ دیکھنے کو ملا، اسی طرح این او سی فیسوں اور داخلہ فیسوں میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ حالیہ بجٹ کے نتیجے میں ہمیں مزید فیسوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

اسی طرح پچھلے سال ایچ ای سی کی جانب سے ایک میٹنگ منعقد کی گئی جس میں مختلف جامعات کے وائس چانسلروں کو مدعو کیا گیا اور ان کو اپنے تئیں بجٹ کی کمی پورا کرنے کا کہا گیا یہاں تک طلبہ کے ذریعے بھیک مانگنے اور چندے اکٹھے کرنے تک کی تجاویز بھی سامنے آئیں اور حالیہ بجٹ بھی یہی طریقے اختیار کرنے کی طرف لے جائے گا۔
مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں مستقبل قریب میں مزید فیسوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا، جس کا مطلب ہے لاکھوں طلبہ پہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوں گے۔ اسی طرح آن لائن کلاسز کے حوالے سے بھی موجودہ بجٹ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا ہے کہ آن لائن کلاسیں دراصل اسی بجٹ کی کمی کو پورا کرنے اور فیسیں بٹورنے کا ہتھیار ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ واضح عندیہ ہے کہ ریاست کو طلبہ اور تعلیم سے کوئی سروکار نہیں۔

کیسے لڑا جائے؟

اس وقت یہ واضح ہوچکا ہے کہ اب اعلیٰ تعلیم کا حصول ناممکن ہونے کی طرف جارہا ہے اور اب پہلے سے بھی زیادہ شدید حملے دیکھنے کو ملیں گے تو اس سب جبر اور زیادتی کے خلاف کس طرح لڑا جاسکتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے لمبے عرصے سے طلبہ کے سیاسی شعور کو مسخ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، ایک طرف ان کو ایک دوسرے سے بیگانہ کیا گیا تو دوسری طرف قانونیت کی رِٹ کو بارہا دہرایا گیا ہے کہ تمام مسائل کے خلاف سی ایم پورٹل اور پی ایم پورٹل پہ درخواست دی جائے یا پھر عدالت کی طرف رجوع کیا جائے۔ مگر یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عدالتیں ہوں یا دیگر قانونی ادارے وہ خود حکمران طبقے کے گماشتے ہیں، ایک طرف حکمران خود تعلیمی بجٹ کاٹ رہے ہیں تو کس طرح ان کی عدالتیں ان کے خلاف فیصلے دیں گی اور اس چیز کا واضح اظہار شعبہ صحت کے ملازمین کے ساتھ ہونے والے عدالتی دھوکے سے ہو چکا ہے۔

اس کےلیے تمام طلبہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان تمام ریاستی مظالم (بجٹ کٹوتیوں، فیسوں میں اضافے) کے خلاف لڑنے کا واحد ہتھیار طلبہ کا اتحاد ہے۔ یہ طلبہ ہیں جن کہ دم پہ یونیورسٹیاں قائم ہیں نہ کہ یہ حکمران طبقہ ہے جو ان یونیورسٹیوں کو چلا رہا ہے۔ اگر تمام طلبہ مل کر فیسیں بھرنے سے انکار کردیں تو جس قدر طاقتور انتظامیہ ہو وہ کسی بھی صورت فیسیں وصول نہیں کرسکتی۔ اسی طرح دیگر تمام پالیسیاں لاگو کرنے کےلیے طلبہ کی رضامندی ضروری ہے، ضرورت اس چیز کی ہے کہ آج طلبہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں اور یہی وہ صورت ہے جس کے تحت نہ صرف ان بجٹ کٹوتیوں کو روکا جاسکتے ہے بلکہ یونیورسٹیوں کے تمام فیصلہ جات بھی طلبہ کی منشاء کے عین مطابق ہوسکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.