|نوجوان سیاسی کارکنان کے نام بھگت سنگھ کا خط؛ 2 فروری، 1931ء|
بھگت سنگھ
عزیز ساتھیو!
اب ہماری تحریک ایک انتہائی اہم مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ایک سال کی سخت جدوجہد کے بعد گول میز کانفرنس نے آئینی اصلاحات کے متعلق کچھ مخصوص تجاویز مرتب کرلیں ہیں اور کانگریسی راہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ دیں [اصل دستاویز غیر واضح ہے، مارکسسٹ انٹرنیٹ آرکائیوز مترجم] موجودہ حالات میں اسے مناسب سمجھیں اور تحریک کا خاتمہ کردیں۔ یہ معاملہ ہمارے لیے ثانوی اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس کے حق میں جاتے ہیں یا مخالفت کرتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ موجودہ تحریک کا خاتمہ کسی نہ کسی سمجھوتے پر ہی ہوگا۔ جلد یا بدیر سمجھوتہ طے پا ہی جائے گا۔ اور سمجھوتہ اس قدر ناکارہ اور فرسودہ شئے بھی نہیں ہوتا جتنا ہم عموماً سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ سیاسی حکمت عملی کے میدان میں ناگزیر عنصر ہوتا ہے۔ ہر اس قوم کا کہ جو جابر کے خلاف اٹھتی ہے آغاز میں ناکام ہونا اور سمجھوتوں کے ذریعے جدوجہد کے شروع کے دورانیے میں جزوی اصلاحات کا حصول طے شدہ امر ہوتا ہے۔ اور یہ عروج کے مرحلے پر ہی ممکن ہوتا ہے کہ قوم کے تمام وسائل اور طاقتوں کو مکمل منظم کرکے ایسا آخری وار کیا جائے کہ وہ حکمران کی حکومت کو تہس نہس کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ لیکن تب بھی یہ ناکام ہوسکتی ہے جو کسی نہ کسی سمجھوتے کو ناگزیر بنا دیتی ہے۔ اس کی بہترین وضاحت کے لیے روسی انقلابی تحریک کی مثال موجود ہے۔
1905ء میں روس میں انقلابی تحریک کا آغاز ہوا۔ تمام راہنما بہت پر امید تھے۔ لینن ان ممالک سے واپس لوٹ چکا تھا کہ جہاں اس نے پناہ لے رکھی تھی۔ وہ جدوجہد کو آگے بڑھا رہا تھا۔ لوگ اسے بتانے کے لیے آئے کہ ایک درجن جاگیرداروں کو جہنم واصل کردیا گیا ہے اور کئی محل سراؤں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ لینن کا جواب تھا کہ واپس جاؤ اور بارہ سو جاگیرداروں کو قتل کر دو اور ان کے محلات کو بھسم کردو۔ اس کی رائے میں اگر انقلاب ناکام بھی ہوگیا تو یہ قتل بے وقعت نہیں جائیں گے۔ ڈوما کو متعارف کروایا گیا۔ اسی لینن نے ڈوما میں شریک ہونے کی وکالت کی۔ 1907ء میں یہی تو ہوا تھا۔ 1906ء میں اس نے پہلی ڈوما میں شریک ہونے کی مخالفت کی تھی جس کو کام کرنے کے زیادہ مواقع ملے تھے بہ نسبت دوسری ڈوما کے کہ جس کے حقوق کم کردیے گئے تھے۔ یہ حکمت عملی تبدیل شدہ حالات کی وجہ سے اپنائی گئی۔ ردِانقلاب حاوی ہو رہا تھا اور لینن سوشلسٹ نظریات کی ترویج کے لیے ڈوما کو استعمال کرنا چاہتا تھا۔
1917ء کے انقلاب کے بعد بھی کہ جب بالشویکوں کو بریسٹ لٹویسک معاہدہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا تو لینن کے سوا سب معاہدے کے خلاف تھے۔ مگر لینن نے کہا: ”امن“۔ ”امن اور پھر امن؛ امن ہر قیمت پر-حتیٰ کہ جرمن جنگی آقا کو کئی روسی صوبوں کی عملداری دینے کی قیمت پر بھی۔“ جب کچھ بالشویک مخالف لوگوں نے اس معاہدے پر لینن کو لعن طعن کی تو اس نے بنا کسی لگی لپٹی کے یہ بتا دیا کہ بالشویک اس حالت میں نہیں تھے کہ جرمن حملے کا مقابلہ کرسکیں تو انہوں نے بالشویک حکومت کے مکمل انہدام پر معاہدے کو ترجیح دی۔
جس بات کی میں نشاندہی کرنا چاہ رہا تھا وہ یہ ہے کہ جدوجہد کے دوران ’سمجھوتا‘ ایک ضروری ہتھیار ہے اور جیسے جیسے جدوجہد آگے بڑھتی ہے اسے موقع کی مناسبت سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ مگر جس چیز کو ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہوگا وہ تحریک کا نظریہ ہے۔ ہمیں ہمارے مقصد کا واضح ادراک ہمیشہ برقرار رکھنا ہوگا جس کیلئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سے ہمیں ہماری تحریک کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی پہچان ہوگی اور ہم با آسانی مستقبل کا پروگرام تشکیل کر پائیں گے۔ ’تلک‘ کی پالیسی مثالی نہ سہی پر اس کا طریقہ کار بہترین تھا کہ اگر آپ اپنے دشمن سے 16 آنے لینے کیلئے لڑ رہے ہیں اور آپ کو ایک آنا مل جاتا ہے تو اسے اپنی جیب میں سنبھالیں اور باقیوں کیلئے لڑائی جاری رکھیں۔ جو چیز ہمیں ’معتدل پسندوں‘ میں نظر آتی ہے وہ ان کی یہ سوچ ہے کہ وہ ایک آنے کیلئے لڑتے ہیں اور انہیں وہ بھی نہیں مل پاتا۔ انقلابیوں کو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ ایک مکمل انقلاب کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ طاقت مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لے لینے کے لیے۔ سمجھوتے پرخطر ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ گڑھے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے قدامت پسند، سمجھوتے کے بعد انقلابی قوتوں کو کمزور کرنے کی کاوش کرتے ہیں۔ ہمیں حقیقی مسائل اور خصوصاً منزل کے حوالے سے کسی بھی ابہام سے بچاؤ کے لیے ایسے موڑوں پر زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ برطانوی لیبر راہنماؤں نے اپنی حقیقی جدوجہد سے غداری کی اور منافق سامراجی طفیلیے بن کر رہ گئے ہیں۔ میری رائے میں شدید ترین قدامت پسند ہمارے لیے ان پرفریب سامراجی لیبر راہنماؤں سے زیادہ بہتر ہیں۔ طریقہ کار اور حکمت عملی کے لیے لینن کے پوری عمر پر محیط کام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
سمجھوتے کے موضوع پر اس کے ٹھوس نظریات ”بائیں بازو“ کے کمیونزم میں مل جائیں گے (بھگت سنگھ کی مراد لینن کا کتابچہ ”بائیں بازو کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری“ ہے: مترجم)
میں کہہ چکا ہوں کہ موجودہ تحریک یعنی موجودہ جدوجہد کا مکمل ناکام ہونا یا کسی سمجھوتے پر ختم ہونا طے ہے۔
ایسا میں نے اس لیے کہا کیونکہ، میرے نقطہ نظر کے مطابق، حقیقی انقلابی قوتوں کو ابھی میدان میں نہیں بلایا گیا ہے۔ اس جدوجہد کا انحصار متوسط طبقے کے دکانداروں اور کچھ سرمایہ داروں پر ہے۔ یہ دونوں خاص طور سرمایہ دار کبھی بھی اپنی ملکیت کو کسی بھی جدوجہد میں داو پر نہیں لگائیں گے۔ حقیقی انقلابی فوجیں دیہاتوں اور فیکٹریوں میں ہیں: کسان اور مزدور۔ مگر ہمارے بورژوا حکمران ان کو اس جدوجہد میں شامل کرنے کی نہ تو صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کبھی ان کو شامل کرنے کی جرات کریں گے۔ ایک بار جب سوتے ہوئے شیر کو اس کی نیند سے جگا دیا تو پھر ان مقاصد کے حصول کے بعد بھی، جو ہمارے حکمرانوں کے ہیں، اسے سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔ 1920ء میں احمد آباد کے مزدوروں کے پہلے تجربے کے بعد گاندھی نے کہا ”ہمیں مزدوروں کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔ صنعتی مزدوروں کا سیاسی استعمال انتہائی خطرناک ہے“ (دی ٹائمز، مئی1922ء)۔ اس کے بعد سے اب تک انہوں نے مزدوروں کو جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ باقی رہی بات کسانوں کی تو 1922ء کی قراردادِ بردولی نے اس خوف کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جو راہنماؤں نے محسوس کیا کہ جب دیوہیکل کسان نہ صرف بیرونی قوم کی حاکمیت بلکہ جاگیرداروں کے شکنجے کی چولیں ہلا دینے کے لیے بیدار ہوئے۔
وہی وہ وقت تھا کہ جب ہمارے راہنماؤں نے کسانوں کی بجائے برطانیہ کے سامنے جھک جانے کو ترجیح دی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کو الگ کریں۔ کیا آپ کسانوں اور محنت کشوں کو منظم کرنے کے لیے ہونے والی کسی ایک کاوش کا بھی بتا سکتے ہیں؟ نہیں، وہ یہ خطرہ نہیں مول لے سکتے ہیں۔ یہ ان کی موت ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ وہ کبھی مکمل انقلاب نہیں چاہتے تھے۔ معاشی اور انتظامی دباؤ کے ذریعے وہ کچھ مزید اصلاحات کی امید لگائے بیٹھے تھے، انڈین سرمایہ داروں کے لیے کچھ مزید رعایتوں کی امید۔ اسی لیے میں یہ کہتا ہوں کہ کسی سمجھوتے کے ساتھ یا اس کے بغیر اس تحریک کا ختم ہونا طے ہے۔
وہ نوجوان کارکنان جو ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ لگاتے ہیں اتنے منظم اور مضبوط نہیں ہیں کہ تحریک کو اپنے کندھوں کے بل پر بڑھائیں۔ حقیقت تو یہ کہ موتی لعل نہرو کے سوا ہمارے عظیم راہنما بھی اپنے کندھوں پر کوئی ذمہ داری لینے سے کتراتے ہیں اسی لیے تو وہ گاہے بگاہے گاندھی کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ اختلافات کے باوجود، وہ اس کی سنجیدہ انداز میں مخالفت نہیں کرتے ہیں اور قراردادیں مہاتما کے لیے پیش ہوتی رہتی ہیں۔
ایسے حالات میں، انقلاب چاہنے والے پرخلوص نوجوان کارکنان کو میں تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ کٹھن اوقات آرہے ہیں۔ اس لیے نظریات سے مسلح ہوجائیں وگرنہ ابہام کی دلدل یا مایوسی کے اندھیرے میں کھو جائیں گے۔ عظیم گاندھی کی دو تحریکوں کے تجربات کے بعد ہم موجودہ حالت اور مستقبل کے لائحہ عمل کو ترتیب دینے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔
اب مجھے انتہائی سادہ انداز میں مدعا بیان کرنے دیں۔ آپ لوگ ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ آپ اس نعرے کے ساتھ سنجیدہ ہیں۔ ہماری تعریف کے مطابق، جو اسمبلی بم کیس میں ہمارے موقف میں بیان ہوئی، انقلاب کا مطلب موجودہ سماجی نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہے۔ اس حوالے سے ہمارا پہلا مقصد طاقت کا حصول ہے۔ در حقیقت ریاست، حکومتی مشینری، حکمران طبقے کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے مفادات کو وسعت اور حفاظت فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں اس ہتھیار کو چھین کر اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہے جو کہ مارکسی بنیادوں پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر ہے۔ اور اسی مقصد کے تحت ہم حکومتی مشینری پر قبضے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کی نظریاتی تربیت بھی کرنی ہے اور ہمارے سماجی پروگرام کے لیے ہموار ماحول بھی پیدا کرنا ہے۔ جدوجہدوں میں ہم ان کی بہترین تعلیم اور تربیت کر سکتے ہیں۔
اب جب کہ ہمارے فوری اور حتمی مقاصد واضح طور بیان ہوچکے ہیں تو ہم موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرنے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ کسی بھی صورتحال کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں ہمیشہ انتہائی راست گو اور کافی سردمہر ہونا چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستانی حکومت میں ہندوستانیوں کی شراکت اور ذمہ داریوں میں شراکت کے حوالے سے بہت شور و غوغا کے بعد ’منٹو مارلے‘ اصلاحات کا اعلان ہوا، جس نے صرف مشاورتی حقوق تک محدود وائسرائے کونسل کے قیام کا اعلان کیا۔ عالمی جنگ کے دوران کہ جب ہندوستانیوں کی بہت زیادہ ضرورت تھی، سیلف گورنمنٹ کے وعدے کیے گئے اور موجودہ اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔ اسمبلی کو محدود قانون سازی کے اختیارات دیے گئے مگر وائسرائے کی رضامندی کو ضروری قرار دیا گیا۔ اب تیسرا مرحلہ آچکا ہے۔
اب اصلاحات پر بحث جاری ہے اور مستقبل قریب میں یہ متعارف کروائی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو انہیں کس نظر سے دیکھنا چاہیے؟ میں نہیں جانتا کہ کانگریس راہنما کن پیمانون پر اصلاحات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ مگر ہم انقلابیوں کے پاس درج ذیل معیار موجود ہیں:
1: ہندوستانیوں کو منتقل ہونے والی ذمہ داریوں کی حدود۔
2: متعارف ہونے والے حکومتی اداروں کی نوعیت اور عوام کی شمولیت کے حق کی حدود۔
3: مستقبل کے امکانات اور تحفظات۔
ان کی تھوڑی وضاحت ضروری ہے۔ ہمارے نمائندوں کو انتظامیہ پر ملنے والے اختیارات کی حدود کے ذریعے، ہم انتہائی آسانی سے یہ جان سکتے ہیں کہ مقامی لوگوں کو دی جانے والی ذمہ داریوں کی حدود کیا ہیں۔ اب تک، انتظامیہ کو کبھی بھی قانون ساز اسمبلی کے سامنے جوابدہ نہیں بنایا گیا اور وائسرائے کو ویٹو پاور دی گئی، جس نے منتخب ارکان کی تمام کاوشوں کو اکارت کردیا۔ سوراج پارٹی کی کاوشوں کا شکریہ کہ جن کے سبب گاہے بگاہے وائسرائے ان بے مہار اختیارات کا استعمال کرکے بے شرمی کے ساتھ قومی نمائندوں کے اہم فیصلوں کو پاؤں تلے روندنے پر مجبور ہوتا رہا۔ یہ بات سب جانتے ہیں اس لیے اس پر مزید بات غیر ضروری ہے۔
اب، سب سے پہلے، ہمیں انتظامیہ کی تشکیل کے طریقہ کار کو دیکھنا ہوگا: آیا کہ انتظامیہ کا انتخاب عوامی اسمبلی کے نمائندے کریں گے یا یہ پہلے کے طرح اوپر سے ہی تھونپی جائے گی، دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ یہ اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہوگی یا ماضی کی طرح اسے جوتے کی نوک پر رکھے گی؟
اگر دوسرے نکتے کی بات کریں تو ہم اس کو حق رائے دہی کی حدود کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں۔ حق رائے دہی کے لیے ملکیت کی شرائط کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور اس کی جگہ بالغ حق رائے دہی کو متعارف کروایا جائے۔ ہر بالغ مرد اور عورت کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ حق رائے دہی کو کس حد تک بڑھایا گیا ہے۔
میں یہاں صوبائی خودمختاری کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اب تک جتنا میں سن چکا ہوں اس کے بعد اتنا کہوں گا کہ قانون ساز اسمبلی کے اوپر، زیادہ اختیارات کے ساتھ اوپر سے نافذ ہونے والا گورنر کسی بھی طرح ایک مطلق العنان حاکم سے کم نہیں ہوگا۔ اس کو ”خودمختاری“ کی بجائے ”صوبائی استبدادیت“ کہنا چاہیے۔ ریاستی اداروں کو جمہوری بنانے کے عمل کی یہ ایک منفرد مثال ہے۔
تیسرا نکتہ بہت ہی واضح ہے۔ پچھلے دو سالوں سے برطانوی سیاستدان مونٹیگ کے اس وعدے کو تحلیل کرنا چاہ رہے ہیں جس میں اس نے اعلان کیا تھا کہ جب تک برطانوی اقتدار رہتا ہے تب ہر دس سال بعد اصلاحات کے چند ٹکڑوں سے ہندوستانیوں کو نوازا جاتا رہے گا۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے مستقبل کا کیا فیصلہ کررکھا ہے۔
میں واضح کردوں کہ ہم اس صورتحال کا تجزیہ حاصلات پر خوشی منانے کے لیے نہیں بلکہ صورتحال کو درست انداز میں سمجھنے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ہم عوام کو باشعور بنا سکیں اور انہیں مستقبل کی لڑائی کے لیے تیار کرسکیں۔ ہمارے لیے سمجھوتہ ہار نہیں بلکہ صرف اور صرف آگے کی طرف ایک قدم اور کچھ ٹھہراؤ کی تعبیر ہے۔
موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرنے کے بعد، آئیے اس امر کی طرف بڑھتے ہیں کہ مستقبل کا لائحہ عمل اور کام کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے، کسی بھی انقلابی پارٹی کے لئے ایک ٹھوس پروگرام ناگزیر ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ انقلاب کا مطلب عملی جدوجہد ہے۔ اس کا مطلب شعوری اور منظم کام سے تبدیلی لانا ہے، نہ کہ غیر منظم اور خودرو تبدیلی یا پھر افراتفری۔ اور ایک لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا علم ہونا ناگزیر ہے:
1: حتمی مقصد
2: اس امر کا احاطہ کرنا کہ کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے، یعنی معروضی حالات کا جائزہ
3: لائحہ عمل اور طریقہ کار
حتمی مقصد کو واضح کر لینے کے بعد ہی آپ سرگرم انداز میں اپنی قوتوں کو عملی کاروائی کے لئے منظم کر سکتے ہیں۔ اب آپ کو لازمی طور پر دو مراحل سے گزرنا ہو گا، اول تیاری؛ دوم عمل۔
موجودہ تحریک کے ختم ہونے کے بعد آپ مخلص انقلابیوں میں بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت دیکھیں گے۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جذباتیت کو چھوڑ دو۔ حقائق کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔ انقلاب ایک مشکل کام ہے۔ انقلاب کرنا کسی ایک آدمی کا کام نہیں ہے۔ نہ ہی اسے کسی مقرر کردہ تاریخ پر لایا جا سکتا ہے۔ یہ سماجی و معاشی صورت حال کی وجہ سے بننے والے مخصوص حالات میں ہی لایا جاتا ہے۔ ایک منظم انقلابی تنظیم کا کام ان مخصوص حالات میں جنم لینے والے مواقعوں کو درست انداز میں استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اور عوام کو انقلاب کیلئے تیار کرنا اور قوتوں کو منظم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کے لیے انقلابیوں سے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اگر آپ ایک کاروباری آدمی ہیں یا پھر گھر بار والے آدمی ہیں تو براہ مہربانی اس آگ سے مت کھیلیں۔ پارٹی کو آپ جیسے ’لیڈر‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سارے ’لیڈر‘ پہلے سے موجود ہیں جو شام کو کچھ گھنٹے نکال کر تقریریں کرنے آجاتے ہیں۔ وہ فضول ہیں۔ ہمیں، لینن کے بقول ’پروفیشنل انقلابیوں‘ کی ضرورت ہے۔ ایسے کارکنوں کی جو سارا وقت تنظیم کو دیں اور جن کی انقلاب کے علاوہ اور کوئی امنگ یا خواہش نہ ہو۔ جتنی زیادہ تعداد میں ایسے کارکن ہونگے کامیابی کے مواقع اتنے زیادہ ہوں گے۔
منظم انداز میں آگے بڑھنے کیلئے ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جس میں اوپر بیان کیے گئے طرز کے کارکن ہوں، جو واضح نظریات رکھتے ہوں، گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہوں اور فوری فیصلے کرنے اور نیا قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ پارٹی کا انتہائی سخت ڈسپلن ہونا چاہیے اور اسے زیر زمین (چھپ کر) کام کرنے کے بجائے کھلے عام کام کرنا چاہیے۔ رضاکارانہ طور پر جیل جانے کی سوچ کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ اس طرح سے بہت سارے کارکنوں کو زیر زمین ہونا پڑ جاتا ہے۔ انہیں اسی جذبے کے ساتھ کام کو جاری رکھنا چاہیے۔ اور یہی وہ کارکنوں کا گروہ ہوگا جو اصل موقع کیلئے قابل لیڈر تیار کرے گا۔
پارٹی کو جن کارکنوں کی ضرورت ہے وہ صرف نوجوانوں کی تحریکوں کے ذریعے بھرتی کیے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں نوجوانوں کی تحریک کو اپنے پروگرام کے نقطہ آغاز کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کی تحریک کو سٹڈی سرکلز، کلاس لیکچرز منعقد کرنے چاہیں اور کتابچے، پمفلٹس، کتابیں اور رسالوں کی اشاعت کو منظم کرنا چاہیے۔ پارٹی کو عوامی پراپیگنڈہ کے ساتھ کام کا آغاز کرنا چاہیے، یہ انتہائی ضروری ہے۔
وہ نوجوان جنہو ں نے نظریات پر عبور حاصل کر لیا ہو، ان کو کل وقتی انقلابی بن کر اپنی زندگی انقلابی جدوجہد کی نذر کرنی چاہیے۔ پارٹی کارکنان کو لازمی طور پر نوجوانوں کی تحریکوں میں مداخلت اور رہنمائی کرنی چاہیے۔ پارٹی کو وسیع عوامی پراپیگنڈا کرنا ہوگا، یہ بہت ضروری ہے۔ غدر پارٹی( 1914-15 ء) کی کاوشوں کی ناکامی کے بنیادی اسباب میں عوام کی لاعلمی، لاپرواہی اور بعض اوقات سرگرم مخالفت بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بھی، یہ محنت کشوں اور کسانوں کو منظم کرنے اور ہمدردی لینے کے لیے اہم اوزار ہے۔ اس پارٹی کا نام واضح پور پر کمیونسٹ پارٹی ہونا چاہیے۔ آہنی ڈسپلن میں مربوط، سیاسی کارکنوں کی اس جماعت کو دیگر تمام تحریکوں کو دیکھنا چاہیے۔ اسے کسانوں اور محنت کشوں کی پارٹیوں کو، لیبر یونینوں کو منظم کرنا ہوگا اور سیاسی جڑت کو مضبوط بنانا ہوگا۔ قومی سیاست اور طبقاتی سیاسی شعور کو مظبوط کرنے کے لیے بڑے سیاسی جلسوں کا بھی انعقاد کرنا چاہیے۔ تمام پرولتاری موضوعات [اصل تحریر غیر واضح ہے، مارکسسٹ انٹرنیٹ آرکائیوز مترجم] عوام کے شعور کی جلا کے لیے سوشلسٹ نظریات آسانی سے پہنچ میں ہونے چاہئیں اور وسیع بنیادوں پر پھیلائے جانے چاہئیں۔ تحریریں آسان اور واضح ہونی چاہئیں۔ مزدور تحریک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سیاس آزادی کے بغیر محنت کشوں اور کسانوں کی معاشی آزادی جیسے بے تکے نظریات کی بات کرتے ہیں۔ وہ فاترالعقل یا سطحی لوگ ہیں۔ ایسے خیالات ناقابل عمل اور لغو ہیں۔ ہم عوام کی معاشی آزادی چاہتے ہیں اور اسی لیے ہم سیاسی قوت جیتنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آغاز میں ہمیں ان طبقات کے چھوٹے چھوٹے معاشی مطالبات اور سہولیات کے لیے لڑنا پڑے گا۔ مگر یہی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہی وہ بہترین ذریعے ہیں کہ جن سے ان کو سیاسی قوت پر قبضہ کرنے کی حتمی جدوجہد کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
ان کے علاوہ، ایک منظم فوجی شعبہ بھی ضرور ہونا چاہیے۔ یہ بہت ہی اہم ہے۔ اپنے وقت پر اس کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مگر تب آپ فوری طور پر وسائل اکٹھے کر کے اس کو مؤثر طور پر تعمیر نہیں کرسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ وہ موضوع ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس موضوع پر مجھے غلط سمجھا جائے۔ ظاہری طور پر میں نے دہشتگردوں والا کام کیا ہے، مگر میں دہشتگرد نہیں ہوں۔ میں ایک انقلابی ہوں، جس کے پاس ایک طویل لائحہ عمل اور ٹھوس نظریات ہیں جن پر یہاں بات ہورہی ہے۔
رام پرساد بسمل جیسے میرے مسلح ساتھی شاید مجھ پر الزام لگائیں کہ میں سلاخوں کے پیچھے جاکر رد انقلابی ہوگیا ہوں، جو کہ سچ نہیں ہے۔ میرے نظریات، میرا اعتماد، میرا ولولہ اور میرا جذبہ اب بھی وہی جو جیل سے باہر تھا بلکہ شاید بڑھ چکا ہے۔ اس لیے میں اپنے پڑھنے والوں کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ میرے الفاظ کو پڑھتے ہوئے محتاط رہیں۔ وہ بین السطور مطالب نکالنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے پوری طاقت کے ساتھ اس بات کا اعلان کرنے دیں کہ اپنے انقلابی سفر کے آغاز کے سوا میں کبھی بھی دہشتگرد نہیں رہا اور نہ ہی ہوں۔ اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہم ان طریقوں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلک ایسوسی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ ہماری تمام سرگرمیاں خود کو تحریک کا مسلح ونگ سمجھنے کے مقصد کے ہی گرد گھومتی تھیں۔ اگر کسی نے مجھے غلط سمجھا ہے تو اسے اپنے خیالات میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ بم اور پستول فضول ہیں، بلکہ میں اس بات کے خلاف ہوں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صرف بم پھینکنا نہ صرف فضول ہے بلکہ بعض اوقات نقصان دہ بھی ہوتا ہے۔ پارٹی کے فوجی شعبہ کو اس تمام جنگی سازو سامان کو تیار رکھنا چاہیے جس کی پارٹی کو ایمرجنسی کی حالت میں ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کو پارٹی کے سیاسی کام کو مضبوط کرنا چاہیے۔ یہ نہ تو آزادانہ کام کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے کرنا چاہیے۔
اوپر بیان کیے گئے خطوط پر ہی پارٹی کو اپنا کام آگے بڑھانا چاہیے۔ باقاعدہ دوروں اور کانفرنسوں کے ذریعے پارٹی ارکان کو محنت کشوں کو تمام موضوعات پر تعلیم اور شعور دینے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اگر آپ ان خطوط پر کام کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کو انتہائی صابر ہونا ہوگا۔ اس لائحہ عمل کو تکمیل کے لیے کم از کم بیس سال چاہئیں۔ گاندھی کا ایک سال میں سوراج کا خیالی وعدہ ہو یا دس سالوں کے اندر اندر انقلاب کا خوش کن خیال ہو، ان سب کو چھٹک دو۔ اس راہ پر نہ جذبات کام آئیں گے نہ ہی موت، بلکہ مستقل جدوجہد، اذیت اور قربانی ہی زاد سفر ہوں گے۔ اپنی انفرادیت کو قتل کردو۔ ذاتی آسائشوں کے خوابوں کو چھوڑ دو۔ اور کام کرنا شروع کر دو۔ تمہیں قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمت، مستقل مزاجی اور بہت پختہ عزم چاہیے ہوتا ہے۔ کوئی مشکل اور کوئی تکلیف تمہارے جذبوں کو ماند نہ کرنے پائے۔ کوئی ناکامی اور کوئی دھوکہ تمہیں بددل نہ کرنے پائے۔
تم پر عائد ہونے والی کوئی مشقت تمہارے اندر سے انقلابی عزم کو کند نہ کرنے پائے۔ اذیتوں اور قربانی کے اس امتحان سے تم ضرور فتح مند ہوکر نکلو گے۔ اور یہ چھوٹی چھوٹی فتوحات انقلاب کا قیمتی اثاثہ بنیں گی۔
انقلاب زندہ باد!
2 فروری، 1931ء