|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے صوبائی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ مفت تعلیم، طلبہ یونین کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں اضافے، ہراسمنٹ کے خاتمے، بے روزگاری کے خاتمے، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات کے حصول کے لیے اور قومی جبر و سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پی وائی اے بلوچستان 25 اکتوبر 2022ء کو ظریف شہید آڈیٹوریم گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ میں صوبائی کنونشن کا انعقاد کیا جا ئے گا۔
یہ کنونشن ایسی صورتحال میں منعقد کیا جا رہا ہے کہ ایک طرف ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں اس ملک کے حکمران طبقے کی لوٹ مار کو ننگا کر رہی ہیں جبکہ دوسری جانب حکمران طبقے کی آپس کی لڑائی ان کے عوام دشمن کردار کو عیاں کر رہی ہے۔ اس ملک کے عوام پر مسلط کردہ سیاسی قیادتیں ان کے حقوق کے حصول کے لیے کتنی سنجیدہ ہیں یہ عوام خود اپنے تجربے سے سیکھ چکے ہیں۔ جس وقت ملک میں سیلاب ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد کو برباد کر رہا ہے اس وقت بھی ان کی زندگیاں انتہائی پر تعیش انداز میں گزر رہی ہیں اور متاثرہ افراد کے لیے ان لیڈروں کے پاس سوائے ڈرامے بازیوں اور جھوٹے دعووں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ دفاعی بجٹ میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی اور نہ ہی حکمرانوں کے عالیشان محلوں اور لگژری گاڑیوں کے اربوں روپے کے اخراجات میں کوئی کمی کی گئی ہے۔ رائیونڈ محل ہو یا بنی گالہ اور بلاول ہاؤسز، تمام حکمران آج بھی اسی طرح عیش و آرام سے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ عوام بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ انہی حکمرانو ں نے عوام پر بجلی کے بلوں میں مہنگائی کا بم گرا دیا ہے جبکہ پٹرول اور گیس کی قیمتیں بھی آئے روز تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ معاشی بحران کا تمام بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ سرمایہ داروں کے منافعوں اور جاگیرداروں کی جائیداداوں میں کمی ہونے کی بجائے ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے وقت میں جب معیشت دیوالیہ قرار دی جانے والی ہے، اس ملک کے حکمران اقتدار اور لوٹ مار میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ایسے لڑ رہے ہیں جیسے کتے ہڈی کے لیے لڑتے ہیں۔ یہ تمام صورتحال حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے مفادات کی حقیقت کو عیاں کرتی ہے۔
درحقیقت ان تمام پارٹیوں کا مقصد یہی ہے کہ کسی طرح اقتدار تک پہنچ جائیں۔ دوسری جانب جرنیلوں کا کردار بھی اس ملک کی پوری تاریخ سے واضح ہے کہ وہ سرمایہ داروں، بینکاروں، جاگیرداروں اور اس ملک کے اشرافیہ کے کبھی ایک حصے کی نمائندہ پارٹی کی سرپرستی کرتے ہیں اور کبھی دوسرے کی اور کبھی خود براہ راست اقتدار میں بھی آجاتے ہیں۔ عدلیہ کا کردار بھی واضح ہے کہ وہ بھی پیسے والوں کا ہی دفاع کر رہے ہیں اور اپنی لوٹ مار میں مصروف ہیں جبکہ عوام دشمنی میں بھی یہ عدالتیں سب سے آگے ہیں۔اس تمام عمل میں محنت کش عوام کی نمائندگی کہیں بھی موجود نہیں اور کوئی سیاسی پارٹی یا ریاستی ادار ہ ان کے مفادات کی ترجمانی نہیں کرتا۔
پورے بلوچستان کا انفراسٹرکچر تباہ حال ہے، انتظامی امور زمین بوس ہیں۔ اگر تعلیم کے شعبے کو دیکھا جائے تو بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں طلبہ سیاست کے اندر ایک سیاسی خلا موجود ہے جسے پُر کرنے کے لئے ریاستی پشت پناہی میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اپنے تئیں نام نہاد سوسائٹییز اور سٹوڈنٹس افیئرز کے نام پر طلبہ کو ان کے حقوق سے بے خبر رکھنے اور اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو کہ قابل مذمت اقدام ہے۔ یہ سب تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی جانب سے روایتی طلبہ تنظیموں کی زوال پذیری اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہی ممکن ہو رہا ہے۔ روایتی طلبہ تنظیمیں طلبہ کی نمائندہ نہیں ہیں، وہ محض لڑائی جھگڑوں اور انتظامیہ کی چاپلوسی میں مصروف ہیں۔ ان کے پاس طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام ہی موجود نہیں ہے، بلکہ وہ طلبہ کے مسائل کے حل کا ارادہ ہی نہیں رکھتے اور طلبہ سے بالکل بیگانہ ہو چکی ہیں۔
اس وقت بلوچستان کے محنت کشوں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کیے جا رہے ہیں،جس کی واضح مثال تعلیمی اداروں کے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ فیسوں میں اضافے کی وجہ سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم کے حصول سے یکسر محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر محنت کش اپناپیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم کے حصول کے لئے کوئٹہ بھیجتے ہیں تو یہاں پر تعلیمی اداروں میں ہاسٹلز اور دیگر سہولیات بالکل ناپید ہیں، جس کی وجہ سے مجبورہو کر طلبہ اپنے تعلیمی سلسلے کو درمیان میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں طالبات کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور جنسی ہراسانی کے متعدد واقعات بھی ہوئے ہیں، مگر تا حال ان واقعات میں ملوث مجرموں کوسزا نہیں دی گئی۔ ان واقعات کی وجہ سے طلبہ شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اس کے علاوہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیلاب متاثرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعلیم جاری رکھنے کا ہے۔ ان علاقوں میں اتنے بڑے پیمانے کی تباہی ہوئی کہ وہاں کے لوگوں کی سارے وسائل ختم ہو گئے ہیں۔ ان کے گھر، فصلیں، مال مویشی اور جمع پونجی سیلاب کی نظر ہو گئی ہے۔ ایسی حالت میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے ولے طلبہ کے لیے تعلیم کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنا ناممکن ہے۔ ان طلبہ کی فیسوں کے مکمل خاتمے، ہاسٹلز، ٹرانسپورٹ اور میس کی مفت فراہمی کے لئے پروگریسو یوتھ لائنس کی طرف سے جاری ملک گیر احتجاجی تحریک کی کمپیئن بلوچستان میں بھی بڑے زور و شور سے چل رہی ہے۔کنونشن میں اس مطالبے کے حوالے سے خصوصی لائح عمل تشکیل دیا جائیگا۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کی تمام تر مصنوعی تفرقات اور تعصب پر مبنی تقسیم کو مسترد کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کی طاقت انکے اتحاد اور اتفاق میں ہی مضمر ہے۔ اس وقت اگر بلوچستان میں طلباء کی کوئی سیاسی نمائندہ تنظیم ہوتی تو آج ہمیں بلوچستان میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کیونکہ اس وقت بلوچستان میں کوئی بھی نمائندہ تنظیم نہیں ہے جس کی وجہ سے بلوچستان بھر میں دن دیہاڑے یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز اور فٹ بال کے میدانوں سے طلباء کو جبری طور پر اغوا کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے تمام اہم تعلیمی اداروں میں اس وقت سیکیورٹی فورسز کا مکمل قبضہ ہے جہاں پر وہ طلبہ کو نہ صرف ہراساں کرتے ہیں بلکہ انہوں نے ان تعلیمی اداروں کے اندر ہوتے ہوئے مختلف کمپلیکسز کے اندر ٹارچر سیلز بنائے ہیں۔ بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں سے سکیورٹی فورسز کا فی الفور مکمل طور پر انخلا، جبری گمشدگی کے شکار تمام طلبہ کو فی الفور بازیابی، جبری گمشدگی کے سلسلے کے مکمل خاتمے، قومی جبر سے نجات کے لیئے منظم ہو کر سیاسی جدوجہد کرنا نا گزیر ہو چکا ہے۔
ساتھیو! یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ حکمران سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندے ہیں۔ ان سے امید رکھنا کہ یہ لوگ ہماری زندگیوں کے حوالے سے ایسے فیصلے کرینگے کہ ہماری زندگیاں بہتر ہو جائینگی، دیوانے کا خواب ہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال سے نجات کے لیے ہمیں منظم ہونا پڑے گا اور زور بازو سے اپنے حقوق چھین لینے ہونگے۔ اس ظلم و جبر اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم کرنا ہوگا۔ سوشلزم میں مٹھی بھر سرمایہ داروں کے مفادات کے تحت فیصلے نہیں کیئے جائینگے بلکہ انسانیت کی فلاح اور ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائینگے۔
اس وقت پورے ملک میں عوام کا معیار زندگی دن بدن گرتا جارہا ہے، ساتھ ہی عوام اس نظام سے بے زاری کا اظہار کرتے ہو ئے مزاحمت کی طرف بڑھ رھا ہے۔ اس کے لئے ایک نقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو عوام میں موجود اس نظام کے خلاف غصے کا صحیح سمت میں تعین کرتے ہوئے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر سوشلسٹ انقلاب کو فتح سے ہمکنار کر سکے۔
پروگریسو یوتھ الائنس پاکستان میں مارکسزم کے انقلابی نظریات پر طلبہ، نو جوانوں اور محنت کشوں کومنظم کر رہا ہے۔اسی اثناء میں موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے 10 دسمبر کو ملتان میں مرکزی کنونشن کیا جائے گا۔ اس کی تیاریوں کر سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان نے 25 اکتوبر 2022ء کو ظریف شہید آڈیٹوریم گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ میں ”ہلہ بول یوتھ کنونشن“ کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اپنی شرکت یقینی بنائیں، تاکہ بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں ایک صحت مند ماحول کی فراہمی کے ساتھ ساتھ طلبہ سیاست کو مظبوط کیا جاسکے، ان مسائل کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنے کے لیے موجود سرامایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جائے۔
پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں۔