بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان؛ طلبہ دشمن انتظامیہ سے کیسے لڑا جائے؟

|تحریر: فرحان رشید، فضیل اصغر|

بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان ایک لمبے عرصے سے اپنی طلبہ دشمن روایت برقرار رکھے ہوئے ہے اور اب خاص کر کرونا وبا کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن اور اس کے بعد جامعہ کی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ پر حملوں میں شدت آ رہی ہے۔ پہلے آن لائن کلاسز شروع کی گئیں تو طلبہ کو ٹکے کی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے انتظامیہ نے بدمعاشی سے فیس وصولی کی، بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کے لیے سکالرشپس کا خاتمہ کیا، اور اب دوبارہ بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز کا آغاز کر دیا اور فی الفور فیس وصولی کے لیے طلبہ کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ طلبہ کے اندر اس سب کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اسی طرح بلوچستان اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے سکالرشپس کی بحالی کے لیے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو دو ہفتوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر اس انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ان طلبہ دشمن اقدامات کے خلاف 15 ستمبر بروز منگل، مختلف کونسلوں اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے ایک احتجاج کی کال دی گئی۔ احتجاج کے شرکاء میں اکثریت فاٹا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تھی۔ احتجاجی طلبہ کے مطالبات درج ذیل ہیں:
1۔ تمام طلبہ کیلئے یونیورسٹی اور ہاسٹلز کھولے جائیں۔
2۔ فاٹا اور بلوچستان کی کوٹہ نشستوں کی سکالرشپس بحال کی جائیں۔
3۔ آن لائن سمیسٹر کے دوران ٹیوشن فیس کے علاوہ باقی تمام اضافی مدوں میں وصول کردہ فیس واپس کی جائے۔
4۔ آن لائن کلاسز کے لیے ضروری معیاری سہولیات فراہم کی جائیں۔
5۔ ہر طالب علم کو مفت انٹرنیٹ پیکجز مہیا کیے جائیں۔

ہم ان تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں اور بالخصوص آن لائن کلاسز کے حوالے سے احتجاجی طلبہ کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ آن لائن کلاسز کا خاتمہ کر کے فزیکل کلاسز کا آغاز کیا جائے۔ اس وقت اگر حکومت کی کورونا وبا کے متعلق عمومی پالیسی دیکھی جائے تو وہ واضح طور پر یہ ہے کہ کورونا وباء پر پاکستان نے قابو پا لیا ہے لہٰذا سب کچھ کھول دیا جائے۔ اس وقت ما سوائے تعلیمی اداروں کے باقی سماج کا ہر شعبہ لاک ڈاون سے پہلے کی طرح ہی کام کر رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں حکومت کی جانب سے اس پالیسی کو اپنانے کی بنیادی وجہ طلبہ تحریک کا خوف ہے۔ حالیہ عرصے میں ملک کے کئی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی جانب سے بہت سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا اچھی طرح سے ادراک ہے کہ اس وقت طلبہ کے پاس فیسیں ادا کرنے کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں ہے اور ایسے میں اگر تعلیمی ادارے کھلتے ہیں اور طلبہ سے فیسیں مانگی جاتی ہیں تو وہ یقینا احتجاج کی طرف جائیں گے۔ یہی وہ خوف ہے جو ریاستی آقاوں اور یونیورسٹی انتظامیہ کو کھائے جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے صرف تعلیم کے شعبے میں ہی لاک ڈاون نظر آتا ہے باقی کہیں بھی نہیں۔ ہم طلبہ کے اس مطالبے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

ان تمام تر مسائل پر وی سی سمیت انتظامیہ پہلے چپ سادھے ہوئے تھی تاکہ ان پر بات نہ ہوسکے مگر احتجاج کے نتیجے میں وی سی کو مجبورا ًطلبہ سے مذاکرات کرنے پڑے اور اس طرح بالآخر یہ مسائل زیر بحث آئے۔ طلبہ کا احتجاج کی طرف جانا یقینا قابل ستائش امر ہے اور ہم اس جدوجہد میں طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔

انتظامیہ نے اپنے روایتی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے آخر کار احتجاج کو منتشر کیا۔ انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کے آگے دیوالیہ پن اور مظلومیت کا رونا رویا گیا اور کہا گیا کہ اگر آپ فیسیں نہیں دیں گے تو بھلا پروفیسروں کی تنخواہیں کہاں سے آئیں گی؟ یونیورسٹی کیسے چلے گی؟ وہیں فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کی سکالرشپس کے معاملے کے لیے متعلقہ وزارتوں سے فنڈز منظور کروانے کا کہا گیا اور کئی جھوٹے وعدے کر کے طلبہ کو سبز باغ دکھائے گئے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ کا پیسوں کی عدم موجودگی کا بہانہ سراسر جھوٹ اور فراڈ ہے، اگر واقعی انتظامیہ کے پاس پیسے نہیں تو ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ فی الفور اپنے کھاتے کھولے یعنی کہ تمام آمدن اور اخراجات کی تفصیلات طلبہ کے سامنے پیش کرے۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ نیز ہم انتظامیہ کی طلبہ دشمنی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سائنسی بنیادوں پر ان تمام مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کا طریقہ کار متعین کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بغیر کسی سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل کے احتجاج تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا ناممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں الٹا انتظامیہ ہی طاقتور ہو گی اور طلبہ میں مایوسی پھیلے گی۔ مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی جدوجہد کے طریقہ کار کا تنقیدی جائزہ لینا ہو گا کہ ماضی میں ہم کن طریقوں کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں اور ان طریقوں سے ہمیں آج تک کیا حاصل ہوا ہے۔

کونسلوں کا کردار
بنیادی طور پر فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کی کوٹہ کی نشستوں پر سکالرشپس کی منسوخی کا معاملہ کوئی اچانک سے وقوع پذیر ہونے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بنیادی طور پر کونسلوں کا غیر سیاسی اور انتظامیہ کے ساتھ مصالحانہ رویہ شامل ہے۔ کونسلوں نے ایک طرف جہاں پشتون اور بلوچ طلبہ کو ”غیر سیاسی“ ہونے کا نام دے کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے سیاسی طریقہ کار اپنانے کی بجائے انتظامیہ کے ساتھ بار بار مذاکرات کا طریقہ اپنایا، وہیں دوسری طرف فالتو کی لڑائیوں میں طلبہ کو مصروف رکھا (یہ لڑائیاں کبھی انتظامیہ کے کہنے پر کی جاتی تھیں تو کبھی ذاتی فروعی مسائل کی وجہ سے)۔ مگر اس کے باوجود کونسلوں کی قیادت کے برعکس عام طلبہ کی جانب سے بار بار احتجاج کرنے پر زور ڈالا جاتا رہا اور ایسے میں مجبورا ًکونسلوں کی قیادت کو احتجاج کا رستہ اپنانا پڑتا۔ مگر آخر میں ان قیادتوں کی جانب سے ہمیشہ انتظامیہ کے ساتھ ”مذاکرات“ میں مصالحت کر لی جاتی اور انتظامیہ کی ”حقیقت پر مبنی پالیسیوں“ کو مان لیا جاتا اور عام طلبہ کو بھی یہ بتایا جاتا کہ ہم کامیاب ہو گئے ہیں لہٰذا احتجاج ختم کر دیں۔ بالفرض احتجاج زیادہ شدت اختیار کر جاتا تو فوراً لسانی اور قومی بنیادوں پر اسے تقسیم کر دیا جاتا (شعوری یا لاشعوری طور پر)۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ مسئلہ جو پچھلے سال حل ہو جانا چاہیے تھا، آج بھی طلبہ کو اس کے لیے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے۔ در حقیقت آج تک طلبہ نے اپنے ہر احتجاج سے انتظامیہ کو خوفزدہ کیا ہے اور اس موقع پر بھی اگر مستقل مزاجی اور جرأت کے ساتھ تحریک کو جاری رکھا جاتا تو طلبہ کے مطالبات کو منوایا جا سکتا تھا، مگر ہمیشہ عین اس موقع پر کونسلوں کی قیادتوں کی جانب سے قدم پیچھے ہٹا دیے گئے۔

طلبہ اتحاد، مگر کیسا؟
اسی طرح ایک اور اہم سوال طلبہ اتحاد کا ہے۔ جب بھی طلبہ اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو نام نہاد ”سیاسی و سماجی کارکن“ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اس کا مطلب روایتی تنظیموں اور کونسلوں کا اتحاد ہے۔ جس پر احتجاج کے منتظمین فوراً دوسری روایتی تنظیموں اور کونسلوں کے عہدیداران کو فون کالیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ آئیں ہم سب مل کر احتجاج کرتے ہیں اور اسے وہ ”طلبہ اتحاد“ کا نام دے دیتے ہیں۔ چونکہ ان نام نہاد سیاسی و سماجی کارکنان کے مطابق یہی طلبہ اتحاد ہے لہٰذا احتجاج کے دن پھر جو چہرے نظر آتے ہیں وہ بھی وہی پرانی تنظیموں اور کونسلوں کے عہدیداران اور ”ایکٹیو کارکنان“ ہی ہوتے ہیں جن میں عام طلبہ دور بین کے ذریعے بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ آخر میں فوٹو سیشن ہوتا ہے، فیس بک پر اپنی اپنی پروفائلز پر یہ دکھایا جاتا ہے کہ ”آج طلبہ کے لیے فلاں کونسل اور تنظیم نے تپتی دھوپ یا یخ ٹھنڈ میں آواز بلند کی اور فلاں فلاں کامیابی حاصل کی۔“ ہفتے، دس دن بعد پتہ چلتا ہے کہ دوبارہ انتظامیہ کی جانب سے نوٹس آ گیا ہے اور جو مسئلہ پہلے حل ہو گیا تھا وہ در حقیقت حل نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا پھر سے احتجاج کیا جاتا ہے اور پھر سے وہی سب طریقہ کار دہرایا جاتا ہے۔

طلبہ اتحاد کا مطلب کسی بھی تعلیمی ادارے کے تمام ڈیپارٹمنٹس کے طلبہ کا اتحاد ہے نہ کہ تنظیموں اور کونسلوں کا اتحاد۔ اسی طرح طلبہ اتحاد کا عملی سیاست میں مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی احتجاج سے پہلے تمام ڈیپارٹمنٹس کے طلبہ تک پیغام پہنچایا جائے جس کے لیے کسی بھی ادارے میں موجود طلبہ کی کل تعداد کے مطابق پمفلٹ چھاپے جائیں اور پھر ان کو طلبہ تک پہنچایا جائے، طلبہ سے رابطے کیے جائیں، ہر ڈیپارٹمنٹ میں طلبہ کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، ہر ڈیپارٹمنٹ سے نمائندے چنے جائیں اور پھر پورے تعلیمی ادارے کی ایک کمیٹی تشکیل دے کر احتجاج کی تاریخ اور وقت کا تعین کیا جائے اور اس احتجاج میں تمام طلبہ دشمن قوتوں کی شمولیت کو سختی سے روکا جائے۔ یہ ہوتا ہے طلبہ اتحاد؛ حقیقی طلبہ یونین! اس کے بالکل الٹ جیسا نام نہاد ”سیاسی و سماجی کارکنان“ کی جانب سے سمجھا یا ”بتایا“ جاتا ہے، وہ طلبہ اتحاد نہیں ہے۔ طلبہ اتحاد کا مطلب ہزاروں طلبہ کا منظم ہونا ہے!

اگر بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے حالیہ احتجاج کو بھی دیکھا جائے تو اس میں عام طلبہ بمشکل ہی نظر آتے ہیں، یہاں بھی وہی روایتی ”طلبہ اتحاد“ دیکھنے کو ملا۔ ایسے اتحادوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب انتظامیہ سے مذاکرات کی بات آتی ہے تو مذاکرات کرنے پر وہی ”لیڈران“ وی سی یا انتظامیہ کے کسی اور نمائندے کے پاس بند کمرے میں جاتے ہیں اور ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ لے کر واپس آ جاتے ہیں جبکہ مسئلہ جوں کا توں رہ جاتا ہے۔

کیسے لڑا جائے؟
یونیورسٹی گیٹ کے سامنے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے طلبہ، ملتان شہر میں گھروں میں موجود طلبہ، گرد و نواح میں گھروں میں موجود طلبہ اور یونیورسٹی میں آنے والے نئے طلبہ جو کلاسز لینے آ رہے ہیں، ان سب کو پہلے سٹیج پر آپس میں رابطہ قائم کرنا ہو گا۔ تمام سرگرم طلبہ کو یہ فریضہ اپنے سر لینا ہو گا کہ فورا ًایک عبوری کمیٹی تشکیل دی جائے جس کا کام ان تمام طلبہ کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہو۔ اس کے بعد رابطہ کاری مہم کو تیز کیا جائے اور تمام طلبہ تک اس پیغام کو پہنچایا جائے۔ ہر ڈیپارٹمنٹ میں موجود سرگرم طلبہ باقی ڈیپارٹمنٹس کے طلبہ سے رابطہ کریں اور انہیں بھی اس کمیٹی میں شامل کریں۔ فوری طور پر ایک وٹس ایپ گروپ تشکیل دیا جائے تاکہ ابتدائی سطح پر یہ سب کام تیزی سے کیا جا سکے۔ اسی طرح ملتان شہر میں موجود طلبہ سے رابطے کیے جائیں اور احتجاج کا ایک دن متعین کر کے ان سب کو احتجاج کے لیے یونیورسٹی گیٹ پر بلایا جائے۔ اس روز بھرپور احتجاج کیا جائے اور تب تک احتجاج جاری رکھا جائے جب تک انتظامیہ کی طرف سے مطالبات کو مان کر تحریری صورت میں نوٹس نہیں دے دیا جاتا۔ اسی طرح یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بغیر سہولیات فراہم کیے آن لائن کلاسز کے معاملے میں بھی شہر کے گرد و نواح میں موجود طلبہ کو آن لائن کلاسز کے بائیکاٹ کرنے پر آمادہ کیا جائے اور تب تک بائیکاٹ جاری رکھا جائے جب تک مطالبات مان نہیں لیے جاتے اور تحریری صورت میں نوٹس نہیں جاری کر دیا جاتا۔ اسی طرح تمام طلبہ فیسوں کا بھی بائیکاٹ کریں۔

ضروری اطلاعات
1۔ یہ کوئی ایک دن کا احتجاج نہیں ہو گا بلکہ یہ ایک بھرپور احتجاجی تحریک ہو گی جو تب تک جاری رہے گی جب تک مطالبات مان نہیں لیے جاتے۔
2۔ یہ احتجاجی تحریک تمام طلبہ کی ہو گی لہٰذا یہ بات کہ ہم بلوچ طلبہ، پشتون طلبہ اور مقامی طلبہ کے  مطالبات کے لیے نہیں بلکہ بس اپنے مطالبات کے لیے اس تحریک کا حصہ ہیں، تحریک کو صرف نقصان ہی پہنچائے گی اور انتظامیہ کو طاقتور کرے گی۔ لہٰذا جو کوئی بھی یہ بات کرے گا وہ در حقیقت انتظامیہ کی دلالی کر رہا ہو گا۔ ہمیں اس سے ہر صورت بچنا ہے اور ”ایک کا دکھ، سب کا دکھ“ اور ”طلبہ اتحاد“ کی بنیاد پر ایک مٹھی کی طرح رہنا ہے۔
3۔ تمام نام نہاد طلبہ تنظیموں کا حقیقی کردار سب طلبہ جانتے ہیں، ان کا مقصد ہمیشہ سے انتظامیہ کی دلالی کرنا اور طلبہ میں غنڈہ گردی کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانا ہی رہا ہے۔ لہٰذا طلبہ کو ایسی تمام طلبہ دشمن قوتوں کو اس تحریک میں گھسنے اور اس پر قبضہ کرنے سے روکنا ہو گا۔
4۔ فوری طور پر تمام ڈیپارٹمنٹس سے نمائندگان چنے جائیں اور ان پر مشتمل پورے جامعہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔
5۔ طلبہ کو اپنا ایک سیاسی منشور بھی تیار کرنا ہو گا جس کی بنیاد پر بی زیڈ یو کی طلبہ کمیٹی کی تنظیم سازی کی جائے گی اور طلبہ کو منظم کیا جائے گا۔

اگر 35 ہزار طلبہ منظم ہو گئے تو پھر یونیورسٹی انتظامیہ تو کیا سپریم کورٹ آف پاکستان اور حکومتِ پاکستان کو بھی مطالبات تسلیم کرنے کے لیے بی زیڈ یو انتظامیہ کو احکامات جاری کرنے پڑ جائیں گے۔ پھر فوراً بی زیڈ یو کے لیے کمیشن بھی بنیں گے، نوٹس بھی جاری ہوں گے اور راتوں رات عمل ہوتا ہوا بھی دکھائی دے گا۔ یہ نہ صرف بی زیڈ یو کے طلبہ کی کامیابی ہو گی بلکہ پورے ملک کے طلبہ کے لیے ایک مثال بنے گی کہ اپنا حق کیسے چھینا جاتا ہے۔ اس تحریک میں پروگریسو یوتھ الائنس، بی زیڈ یو کے طلبہ کے ساتھ ہر لمحے اور ہر موقع پر شانہ بشانہ کھڑے رہنے اور جدوجہد کرنے کا عزم کرتا ہے۔

حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے!
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ اتحاد زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.