|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|
6دسمبر2018ء کو قائد اعظم یونیورسٹی میں پی وائی اے اور قائد اعظم ادبی سوسائٹی (QAULE) کے اشتراک سے مزاحمتی ادب کے عنوان پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا ۔پروگرام میں بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔ پروگرام میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ادبی سوسائٹی کے چیئرمین شہریار نے ادا کیے اور پی وائی اے کے تعارف کے لیے عمر ریاض کو دعوت دی۔ عمر ریاض نے اپنی تعارفی تقریر میں پی وائی اے کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ پی وائی اے طلبہ کی ایک ترقی پسند تنظیم ہے ۔پی وائی اے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں فیسوں میں اضافے کے خلاف، طبقاتی نظام تعلیم کے خلاف، طالبات کو جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے خلاف، بے روزگاری کے خاتمے اور خاص طور پر طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جہدوجہد کر رہی ہے۔
اسکے بعد قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بشریات (اینتھروپالوجی) کے پروفیسر ڈاکٹر ندیم عمر نے اپنی تقریر میں بات کرتے ہوئے ناصرف ادب سے متعلق اس تقریب کا انعقاد کرتے ہوئے منتظمین کو سراہا بلکہ طلبہ یونین کی تاریخ اور اس کی ضرورت پر تفصیلی بحث کی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ یونین نے تاریخی طور پر بہت بڑے ذہنوں کو پیدا کیا اور آج بھی وقت کی ضرورت ہے کے طلبہ یونین کو بحال کر کے طلبہ کو جمہوری ماحول مہیہ کیا جائے تاکہ وہ مستقبل کے فیصلے کرنے کے اہل ہو سکیں۔
پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا سے آئے ہوئے طالبعلم اور نوجوان شاعر آون مجتبہ نے اپنی انقلابی شاعری سے شائقین کو خوب گرمایہ اور خوب داد وصول کی۔ اسکے بعد مینجمنٹ سائنسز ڈیپارٹمنٹ قائد اعظم یونیورسٹی کے نوجوان طالبعلم نے گٹار کے ساتھ اپنا کلام شائقین کی نظر کیا جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ موسیقی کے بعد پی وائی اے کی متحرک کارکن اور شعبہ بشریات کی طالبہ ماہ بلوص اسد نے گزشتہ ایک سال میں ہونے والے طلبہ کے احتجاجات کی تصاویریں دکھاتے ہوئے بتایا کہ ملک کے طول وعرض میں طلبہ اپنے حقوق کیلئے مسلسل چھوٹے چھوٹے احتجاجوں کی شکل میں متحرک ہیں اور اسکی رپورٹنگ ریاستی میڈیا سے مکمل غائب ہے جسکی وجہ سے ایک ادارے کے طلبہ کو دوسرے ادارے اور علاقے کے طلبہ کی تحریکوں کی خبر نہیں ہوتی۔ انہوں نے اس اہم بات پر زور دیا کہ جتنے بھی احتجاجات دیکھائے گئے ان میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ بغیر کسی قیادت کے طلبہ نے خود رو طریقے سے منظم کیے اور طلبہ نے باقی تمام روائیتی طلبہ تنظیموں کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے عمل کا آغاز کیا اور وہ عمل احتجاج کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا عمل ہے۔ تقریب کو مزید فن سے مزین کرنے کیلئے شعبہ بشریات کے طالبعلم ندیم کو رباب پر موسیقی کا فنی مظاہرہ کرنے کیلئے بلایا گیا۔ ندیم نے پشتو میں مزاحمتی موسیقی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور خوب داد وصول کی۔
اسکے بعد واہ سے آئے ہوئے شاعر مظہر علی سید نے تقریب سے بات کرتے ہوئے ناصرف ادب کے تاریخی انقلابی کردار پر بات کی بلکہ موجودہ نسل کو خوش قسمت کہتے ہوئے بتایا کہ یہ نسل سوشلسٹ سماج کی متقاضی ہے ۔انہوں نے اپنی شاعری سے شائقین کو خوب محظوظ کیا اور شائقین سے خوب داد وصول کی۔ اسکے بعد اسلامک یونیورسٹی کے شریعہ اینڈ لاء کے طالبعلم اور پی وائی اے کے سرگرم رکن اور نوجوان شاعر لقمان ہمدانی نے اپنی شاعری سے شرکاء کو گرماتے ہوئے خوب داد وصول کی۔
آخر میں تقریب کے مہمان خصوصی، اردو ادب کی معروف شخصیت اور شاعر ڈاکٹر روش ندیم صاحب نے ادب کے تاریخی مزاحمتی کردار پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ادب نے ہمیشہ ریاستی اور مروجہ مذہبی اور سماجی پابندیوں کے خلاف شاعری کی شکل میں ایک ترقی پسند کردار ادا کیا۔ شاعری سب سے پہلا ادب ہے جو انسانی سماج میں انسانوں کی محرومیوں کا اظہار کرتا آیا ہے اور آج بھی شاعروں کا کام سماج میں موجود مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔
تقریب میں مارکسی لٹریچر پر مبنی ایک سٹال لگایا گیا تھا جسکا انتظام پی وائی اے کے کارکنان سنگر اور ولایت دیکھ رہے تھے ۔سٹال پر موجود لٹریچر کو طلبہ نے بڑی تعداد میں خریدا اور پی وائی کو سراہا۔ آخر میں ماہ بلوص اسد نے 15دسمبر 2018ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے پی وائی اے کے مرکزی کنونشن کے بارے میں سب کو آگاہ کیا اور دعوت دی۔