انقلاب روس 1917ء کے بعد خواتین کو کیسے ایک ’انسان‘ کا درجہ ملا؟

|تحریر: سلمیٰ ناظر|

1917ء میں روس میں رونما ہونے والے سوشلسٹ انقلاب نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا تھا۔ اس انقلاب نے انسان کے انسان پر جبر اور ’سرمائے‘ کے ہاتھوں اربوں محنت کشوں کی محنت کے استحصال کا خاتمہ کر ڈالا اور تمام وسائل کا منہ مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی بجائے سماج کی اکثریت کی فلاح و بہبود کی طرف موڑ دیا۔ انسانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا جب سرمایہ داری کی تمام غلاظتوں کا خاتمہ کرتے ہوئے انسان کو رنگ، نسل، مذہب اور زبان کی تفریق سے آزاد ہو کر بحیثیت انسان اپنی زندگی گزارنے کا موقع ملا۔ اس انقلاب نے پدر سری سماج کی جکڑ بندیوں سے عورت کو آزاد کروایا اور ایک جنس سمجھی جانے والی ’عورت‘ کو ’انسان‘ کا درجہ دیا۔ انقلاب کے بعد سوویت یونین میں خواتین کو جو حقوق حاصل تھے وہ اس وقت دنیا میں اور کہیں بھی نہیں تھے۔
سوشلسٹ انقلاب سے پہلے روس میں خواتین کی حالت
انقلاب سے پہلے روس میں بادشاہت موجود تھی اور زار (Tsar) تخت پر بیٹھا تھا۔ اس وقت عورت کو مرد کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ عورت مرد کی غلام کی حیثیت رکھتی تھی اور مرد قانونی طور پر اپنی بیوی کے ساتھ مار پیٹ کرنے کا حق رکھتا تھا۔ روس کے زیادہ پسماندہ علاقوں میں جہاں چرچ کا کنٹرول تھا وہاں عورتوں کی صورتحال زیادہ بُری تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ لڑکیوں کو بچپن سے ہی گھر کے کاموں میں جھونک دیا جاتا تھا یا کسی کھیت یا فیکٹری میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا تھا۔ فیکٹری میں کام کرنے والی لڑکیوں کی اوسط عمر 12 سے 14 سال ہوتی تھی جہاں انہیں انتہائی کم تنخواہ کے لیے 18 گھنٹے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ جو عورتیں اور بچیاں فیکٹریوں میں کام کرتی تھیں ان کا دوہرا استحصال ہوتا تھا کیونکہ انہیں فیکٹریوں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کا کام بھی سر انجام دینا پڑتا تھا۔ اگر کسی لڑکی کو تعلیم کے لیے سکول بھیجا بھی جاتا تھا تو ایک سال بعد اسے سکول سے اٹھا لیا جاتا تھا۔ 1897ء کی ایک رپورٹ کے مطابق روس میں عورتوں میں شرح خواندگی صرف 13 فیصد تھی۔
اس کے علاوہ خواتین پر یہ جبر بھی تھا کہ شادی کے بعد خاوند کے مار پیٹ اور تشدد کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور تھیں کیونکہ عورت کے لیے اپنے خاوند سے علیحدگی کے لیے طلاق لینا بہت مشکل بنا دیا گیا تھا۔ چونکہ عورت کو مرد کا غلام اور اس کی ملکیت سمجھا جاتا تھا اس لیے طلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ زار شاہی میں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اس لیے عورت اپنی مرضی کے خلاف بھی بچہ پیدا کرنے پر مجبور تھی۔
فیکٹری اور دیگر جگہوں پہ کام کرنے والی عورتوں کو صنفی تفریق کی بنا پر مردوں کی نسبت کم اجرت ملتی تھی۔ اس پہ مزید جبر یہ تھا کہ حاملہ عورتوں یا جنہوں نے حال ہی میں بچے کو جنم دیا ہو، ان سے رات کے وقت بھی کام لیا جاتا تھا۔ حاملہ عورتوں کو دوران زچگی چھٹیاں بھی نہیں دی جاتی تھیں۔ اس تمام صورتحال میں عورت کا دوہرا استحصال خاندان کی صورت میں بھی ہوتا تھا جہاں اس پر ایک بہت بھاری بوجھ یہ بھی تھا کہ اس نے فیکٹری وغیرہ میں کام کرنے کے علاوہ اپنے گھر کی دیکھ بھال، بچوں کی نگہداشت، خاوند کی خدمات بھی بجا لانی ہوتی تھیں۔
حتیٰ کہ حاملہ خواتین کی بھی بچے کی پیدائش کے دوران سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی تھی۔ زار شاہی میں خواتین کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں تھی جہاں قدم قدم پر انہیں پدر شاہی کی صعوبتیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی بوسیدہ رسوم و رواج کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
بہر حال روس کے انقلاب میں خواتین کا انتہائی کلیدی کردار تھا۔ حتیٰ کہ انقلاب روس 1917ء کا آغاز بھی ٹیکسٹائل صنعت کی خواتین محنت کشوں نے ہی کیا تھا۔


سوشلسٹ انقلاب کے بعد خواتین کو ملنے والی حاصلات
سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان تمام بنیادوں کو اولین ترجیحات پر ختم کیا گیا جو خواتین پہ ہونے والے تمام ظلم و جبر کا باعث بنتی ہیں، یعنی طبقاتی نظام اور نجی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا۔ خواتین کے لیے اسقاطِ حمل کو قانونی قرار دیا گیا۔ پدر شاہی کا مکمل طور پر خاتمہ کر کے عورت پر ہونے والے تشدد اور ظلم و جبر کا خاتمہ کیا گیا۔ چرچ اور ریاست کو الگ کر دیا گیا اور شادی کا اختیار چرچ سے لے لیا گیا جس سے خاتون اور مرد اپنی مرضی سے جس کے ساتھ چاہیں انتہائی آسان طریقے سے شادی کر سکتے تھے اور علیحدگی اختیار کر سکتے تھے۔ بلکہ 1926ء تک شادی کو رجسٹر کرانا بھی ضروری نہیں رہا تھا اور یہ بھی ضروری نہیں رہا کہ عورت شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام جوڑے لیکن اگر وہ اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ طلاق کا عمل بھی بہت آسان بنا دیا گیا جبکہ اس سے پہلے کسی خاتون کے لیے اپنے شوہر سے علیحدگی کے لیے طلاق لینا بہت پیچیدہ اور مشکل کام تھا۔
شادی سے پہلے عورت کے حاملہ ہونے پر اس کے بچے کو ناجائز قرار دینے کے تصور کا خاتمہ کیا گیا۔ حاملہ خاتون کو تین ماہ تک پوری اجرت کے ساتھ اور تین سال تک آدھی اجرت کے ساتھ زچگی کی چھٹیاں دی جاتی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ حاملہ خاتون یا جس نے حال ہی میں بچے کو جنم دیا ہو، اس کے لیے رات کے وقت کام کرنے کی ممانعت تھی۔ اوقات کار جو پہلے زار شاہی میں 18 گھنٹوں کے دورانیے پر مشتمل تھے، کو کم کر کے آٹھ گھنٹے کر دیا گیا۔ اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد صنفی تفریق کا خاتمہ کر کے خواتین کو بھی ان کے کام کی مردوں کے برابر اجرت دی جانے لگی اور صنفی جبر کے ساتھ ہر قسم کے جنسی جبر کا بھی مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا تھا۔
انقلاب کے بعد روس میں خواتین کا گھریلو بوجھ ختم کرنے کے لیے گھریلو کام کو سماجی کام کی حیثیت میں بدل دیا گیا۔ اس کے لیے کامن کچن بنائے گئے، کپڑے دھونے کے لیے کامن لانڈریاں بنائی گئیں، بچوں کی نگہداشت کے لیے نرسریاں اور ڈے کیئر سنٹر تعمیر کیے گئے۔ 1927ء سے 1932ء تک ان نرسریوں کی تعداد 2155 سے 19611 تک پہنچ گئی تھی جو 1960ء تک مزید بڑھ کر 4 لاکھ کی تعداد تک پہنچ گئی اور 1976ء تک یہ تعداد 12 لاکھ ہو چکی تھی۔
جب کوئی لڑکا یا لڑکی اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ جاتے تو انہیں بلا صنفی تفریق حکومت کی جانب سے رہنے کے لیے گھر دے دیا جاتا جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتے تھے۔ اس کے ساتھ جسم فروشی جیسی لعنت پر سخت پابندی عائد کر کے اس کا خاتمہ کیا گیا اور جسم فروشی کے اڈوں کا خاتمہ کیا گیا اور جسم فروشی کروانے والوں کو سخت سزا دی گئی۔ جسم فروشی کے کام میں مبتلا خواتین کو بھی صنعتی و پیداواری عمل میں شریک کرتے ہوئے انہیں سماج کے لیے کار آمد رکن بنایا گیا اور جسم فروشی کی غلاظت سے انہیں نجات دلائی گئی۔
انقلاب کے بعد روس میں خواتین کی اوسط عمر 1970ء تک 74 سال کی عمر تک پہنچ چکی تھی جبکہ زار شاہی کے دور میں اس کی شرح 30 سال کی عمر تک محدود تھی۔
اگر تعلیم کے شعبے کی بات کریں تو اس میں بھی قلیل وقت میں ہی حیران کن حد تک ترقی حاصل کی گئی تھی۔ سب سے پہلے تو تمام نجی تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کیا گیا اور ہر کسی کے لیے ہر سطح پر تعلیم کا حصول بالکل مفت قرار پایا اور سکول جانے والے بچوں کے لیے حکومت کی جانب سے وظیفے مقرر کیے گئے کیونکہ تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ سیکنڈری سطح پر سکولوں کی بات کی جائے تو یہ 1926ء میں 10 فیصد سے 1939ء میں 65 فیصد اور 1958ء میں 97 فیصد تک پہنچ چکے تھے۔ اعلیٰ سطح کی تعلیم میں خواتین کی شرکت 1927ء میں 28 فیصد سے بڑھ کر 1960ء میں 43 فیصد اور 1970ء میں 49 فیصد بڑھ گئی تھی۔ جبکہ امریکہ، سویڈن، فرانس اور فن لینڈ میں اس وقت اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی شرح 40 فیصد تھی۔
1950ء میں روس میں 600 خواتین سائنس کے شعبے میں کام کر رہی تھیں اور 1984ء تک یہ تعداد 5600 تک تجاوز کر چکی تھی۔ اسی طرح بہت سی خواتین تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی تھیں۔ خواتین کی بڑی تعداد ریسرچ اور انڈسٹریل انجینئرنگ کے شعبے سے بھی منسلک تھی۔ 1959ء میں ایک تہائی خواتین امتیازی شعبوں میں کام کر رہی تھیں جبکہ 1970ء میں یہ اعداد و شمار 55 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے ساتھ 98 فیصد نرسیں خواتین تھیں، 75 فیصد اساتذہ تھیں، 95 فیصد لائبریرین تھیں اور 75 فیصد ڈاکٹر تھیں۔ دنیا میں سب سے پہلے خلا میں جانے والی خاتون ویلنٹینا کا تعلق بھی روس سے ہی تھا جو 16 جون 1963ء کو خلا میں داخل ہوئی۔


انقلاب کے بعد روس میں ہی خواتین کو دنیا میں سب سے پہلے ووٹ کا حق حاصل ہوا۔ خواتین کی سیاسی اور معاشی میدان میں تربیت کی گئی تاکہ وہ سماج کو چلانے میں اپنا کردار بخوبی طور پر نبھا سکیں۔ روس میں سوویتوں میں بھی خواتین بڑی تعداد میں اہم ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی ایسی ایک بھی اینٹ نہیں چھوڑی گئی تھی جو خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کمتر حیثیت میں رکھنے کے لیے حقارت انگیز قانون کی حامل ہو۔
خواتین کی صورتحال کو کسی بھی سماج کے ثقافتی ارتقا سے ماپا جاتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کی بدولت ایسا پہلی بار ممکن ہوا تھا کہ خواتین سیاست، ثقافت، تعلیم الغرض زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں اور معاشرے کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔ ایک ایسے سماج کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر رہی تھیں جو پدر شاہی، ظلم و زیادتی، جبر و تشدد اور خواتین کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تمام تر بوسیدہ روایات و اقدار سے پاک ہو اور جس کا مقصد خواتین کو ان کے وہ تمام خواب پورا کرنے کے مواقع مہیا کرنا ہو جو ہر روز اس سماجی بوجھ تلے دب کر چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
آج ہم جس بوسیدہ اور گلے سڑے سماج میں جی رہے ہیں اس میں خواتین کی حالت زار شاہی کے دور میں خواتین کی حالت سے مختلف نہیں ہے۔ آج بھی سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے ہی اس کی تمام لعنتوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے محنت کش طبقے کی خواتین کو اپنی اس جدوجہد کے میدان میں خود اترنا ہو گا جیسے 1917ء میں روس کے محنت کش طبقے کی خواتین نے کیا تھا۔ کیونکہ خواتین کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی انقلاب کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 1917ء میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی خواتین کو مکمل آزادی ملی تھی مگر اس انقلاب کو کامیاب بنانے میں ان خواتین نے ہی اپنا اہم کردار ادا کیا تھا۔
آج پھر پوری دنیا میں خواتین جنگوں، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے مسائل کے خلاف، بھوک اور مہنگائی اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ محنت کش طبقہ ہر روز سرمایہ داری کی گرتی ہوئی دیوار کو ہر روز دھکا دے رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب محنت کش طبقے کے مرد اور خواتین سرمایہ داری کے خلاف اس جدوجہد میں شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اس کا خاتمہ کریں گے اور اس دھرتی پر ایک بار پھر بنی نوع انسان کو اپنے خوابوں کو شرمندہئ تعبیر کرنے کا موقع ملے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.