کوئٹہ: جامعہ بلوچستان کے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی اور طلبہ کی مزاحمت

|تحریر: صغیر امین|

اس وقت مملکت خداداد میں تعلیم کا شعبہ مکمل انہدام کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہاں ہر نوجوان اپنے اردگرد دیکھے اور فیصلہ کرے کہ اس کے میٹرک کے کتنے ساتھی اس کے ساتھ انٹر تک آ پائے اور انٹر کے کتنے ساتھی یونیورسٹیوں میں پہنچ سکے ہیں؟ یقیناً جواب غیر تسلی بخش ہوگا۔ اس جہنم نما ملک میں عام شہریوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہر نیا دن جبر کا ایک نیا پیغام لے کر آتا ہے تو رات فاقوں کی نذر ہوتی ہے۔ لاکھوں کروڑوں بچے جنہیں سکولوں میں ہونا چاہیے وہ کسی ہوٹل، گیراج یا کسی اور جگہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس ملک کی بڑی اکثریت کے لیے ناممکن ہے کہ اپنے بچوں کو یونیورسٹیوں میں پڑھا سکے۔ اگر کوئی یونیورسٹی قسمت سے پہنچ بھی جائے تو سمیسٹر اور ہاسٹل کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، حتیٰ کہ سستی سے سستی یونیورسٹی میں بھی اب 20 سے 30 ہزار تک فی سمیسٹر فیس ہے۔ اس کے علاوہ اس مہنگائی میں عام آدمی کو کم از کم ماہانہ 10 سے 15 ہزار روپے تو کما کر گھر بھیجنے ہوتے ہیں تاکہ گھر کا نظام چل سکے۔ ایسے میں ایک عام محنت کش کا بچہ تو پھر یقینا میٹرک کے بعد پڑھائی جاری رکھنے کی بجائے کوئی روزگار ہی ڈھونڈے گا تا کہ کچھ پیسے گھر بھیج سکے۔

ویسے تو پورے ملک میں تعلیم آبادی کی اکثریت کے لیے گوہر نایاب بن گئی ہے، لیکن بلوچستان میں تو قصہ ہی الگ ہے۔ یہ پاکستان کا رقبے کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ ہے جو قدرتی دولت سے مالا مال ہے جسے مختلف حربوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ اتنے قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ایسا لگتا کہ یہاں کی آبادی اب بھی گیارویں صدی میں رہتی ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور تعلیمی صورتحال بھی دوسرے صوبوں سے بدتر اور پسماندہ تر ہے۔ نام نہاد آزادی کے کئی سال بعد تک تو یہاں کوئی بڑی یونیورسٹی تک موجود نہیں تھی۔ جب جامعہ بلوچستان بن گئی تو پھر کئی سال تک اتنے بڑے صوبے میں یہی ایک یونیورسٹی موجود رہی اور کوئی دوسری یونیورسٹی نہ بنی۔ اب تک بھی کئی ڈویژنوں میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے، بلکہ برائے نام کیمپسز قائم کیے گئے ہیں جہاں تعلیم کے نام پر مذاق ہی چلتا ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کو درپیش مسائل

بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ کرپشن کے حوالے سے بہت مشہور ہے اور اس نے یونیورسٹی کو لوٹ مار کا گڑھ بنایا ہوا ہے۔ دوسری طرف طلبہ کیلئے یونیورسٹی ایک جیل بنی ہوئی ہے اور ہر دوسرا طالب علم ذہنی دباؤ اور مالی مشکلات کا شکار ہے۔ یونیورسٹی میں کچھ ڈپارٹمنٹ ایسے ہیں جن میں اِکا دُکا ہی مستقل لیکچرارموجود ہیں۔ مثلاً فارمیسی اور ڈی پی ٹی (فزیو تھراپی) جیسے ڈیپارٹمنٹس میں جدید لیب سرے سے موجود ہی نہیں۔ میڈیا اور لٹریچر جیسے ڈپارٹمنٹس میں جب طلبہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم ماہانہ نہ سہی سہ ماہی یا شش ماہی کوئی رسالہ نکالنا چاہتے ہیں تو ڈپارٹمنٹ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی بحران میں ہے۔

ڈپارٹمنٹس میں پیپر کا لیک ہونا تو معمول کی بات ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ڈپارٹمنٹ ہیڈ کی نااہلی نہیں بلکہ لوٹ مار کا ایک نیا طریقہ ہے جس میں پیپر پیسے والوں کیلئے پہلے ہی دستیاب ہو جاتا ہے اور اس چکر میں خوب مال بنایا جاتا ہے۔ اگر بات منظر عام پر آ جائے تو اسے کسی چپڑاسی پر الزام لگا کر اسے نکال دیا جاتا ہے اور دوبارہ امتحان لینے کا ڈھونگ رچا کرمعاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر عام طلبہ احتجاج کرتے ہیں تو مختلف طریقوں سے انہیں ذائل کر دیا جاتا ہے۔ کوئی ڈپارٹمنٹ ایسا نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی مسئلہ نہ ہو، کہیں پورے سمیسٹر میں امتحانات تک کچھ مضامین کے لیکچر ہی نہیں ہوتے ہیں تو کچھ میں سمیسٹر کے آخر میں استاد آ کر کچھ نوٹس تھما دیتے ہیں۔ کچھ پڑھائے بغیر 600 سے 1000 صفحات کے نوٹس (پی ڈی ایف) تھما دیتے ہیں۔

اسی طرح طلباء و طالبات کی تعداد کے حساب سے ہاسٹل نا کافی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں طالب علم اس مہنگائی میں باہر مہنگی رہائش کرنے پر مجبور ہیں۔ پھر ان کے آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ٹرانسپورٹ کا حال یہ ہے کہ پچھلے ماہ بس سے ایک طالب علم گرا تھا۔ خیر اسے کچھ ہوا نہیں، اس لیے وہ منظر پر نہیں آسکا۔ ناکافی بسوں کی وجہ سے بسوں میں بے تحاشہ رش اور شدید دھکم پیل ہوتی ہے، لہٰذا طلبہ مجبوراً لوکل بسوں میں سفر کرتے ہیں۔ ان بسوں کی حالت ایسی ہے کہ انہیں عجائب گھر میں ہونا چاہئیے۔ ٹراسپورٹ کا یہ مسئلہ بھی درحقیقت انتظامیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے ہی ہے۔ پہلے جہاں یونیورسٹی سے مختلف اوقات میں بسیں چلتی تھیں اب صرف چار بجے نکلتی ہیں۔ جن طلبہ کی کلاسیں جلدی ختم ہوں انہیں چار بجے تک انتظار کرنا پڑتا ہے، وگرنہ لوکل بسوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

ہاسٹل تو تمام طلبہ کو مل ہی نہیں سکتا کیونکہ ہاسٹل اتنی تعداد میں ہیں ہی نہیں جتنے طلبہ ہیں۔ اسی لیے ان دنوں بھی 500 کے لگ بھگ طلبہ ویٹنگ لسٹ میں ہیں۔ اگر کسی کو ہاسٹل کی سہولت مل بھی گئی ہے تو وہ بھی انسانوں کے رہنے کے قابل رہائش سے محروم ہی رہتا ہے۔ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے ہاسٹل کے واش روم قابل استعمال نہیں ہیں۔ اکثر واش رومز میں تو لوٹے تک نہیں ہیں۔ گرم پانی کا تو سوال ہی نہیں بنتا کہ ہاسٹل میں سرے سے گیس ہی نہیں ہے۔ پہلے تو پھر بھی تھوڑی بہت دستیاب تھی، اب جیسے جیسے کوئٹہ میں سردی بڑھ رہی ہے، برائے نام گیس بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ طلبہ اپنے خرچے پر الیکٹرک ہیٹر لے رہے ہیں لیکن انہیں چلانے کے لیے بجلی چاہئیے جو ہاسٹل میں کافی کافی دیر تک دستیاب نہیں ہوتی۔

اسٹل میں کھانا غیر معیاری اور شدید مہنگا ہے۔ اس لیے طلبہ اپنے کمروں میں کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔ کمروں میں پہلے ہی جگہ نہیں ہے۔ وہ کمرے جن میں مجبوراً چار چار طلبہ رہ رہے ہیں وہاں کچن کے انتظام کرنے اور باقی سامان جیسے جوتے، کپڑے وغیرہ سب رکھنے سے بالکل بھی جگہ نہیں بچتی۔ اسی طرح کھانے کے لیے چیزیں خرید کر لانا، پھر بنانا مشکل اور وقت طلب کام ہے لیکن ہاسٹل کے غیر معیاری اور مہنگے کھانوں کی وجہ سے طلبہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ ہاسٹل میں انٹر نیٹ نہیں ہے، بلکہ پوری یونیورسٹی میں نہ ہونے کے برابر ہے جس سے طلبہ کو اپنی ریسرچ وغیرہ اور سوشل میڈیا سے کنیٹک ہونے کے لیے مہنگے پیکج کرنے پڑتے ہیں۔

طلبہ کی جبری گمشدگی اور احتجاج

ایک طرف یونیورسٹی میں بے شمار مسائل ہیں تو دوسری جانب طلبہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا چاہیں یعنی سیاسی عمل کا حصہ بنیں تو انتظامیہ کے ساتھ ریاست بھی جبر پر اتر آتی ہے۔ جس کی مثال کئی لاپتہ بلوچ طالب علم ہیں۔ حالیہ عرصے میں لاپتہ ہونے والے دو طالب علم سیہل بلوچ اور فصیح بلوچ بھی اسی جبر کا نشانہ بنے۔

بلوچستان یونیورسٹی، جو بلوچستان میں سیاست کا کا گڑھ تھی، یعنی یہاں طلبہ اپنے حقوق کیلئے انتہائی سرگرم ہوتے تھے اور انتظامیہ کی کرپشن و لوٹ مار سمیت ہر نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، سے سیاسی کلچر کو ختم کرنے اور طلبہ سیاست پر قدغن لگانے کے لیے ریاست ہر ناجائز اور غیر جمہوری کام کر رہی ہے۔ ریاستی سیکورٹی ادارے (ایف سی) کی اب بھی اتنی نفری یہاں موجود ہے کہ یونیورسٹی ایک فوجی چھاؤنی کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں طلبہ کے احتجاجوں کی وجہ سے ایف سی کی نفری کم ہوئی ہے لیکن پھر بھی دن میں ان کی دس دس گاڑیاں گردش کرتی ہیں گویا کوئی جامعہ نہیں ایک مفتوح علاقہ ہے۔

پچھلے 8 دنوں (9 تا 16 نومبر) سے بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ یکم نومبر بروز پیر سے بلوچستان یونیورسٹی کے پاکستان سٹڈیز ڈپارٹمنٹ کے دو نونہار طالب علم فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ یونیورسٹی کے ہاسٹل سے شام 7 بجے کے لگ بھگ پر اسرار طور پر لاپتہ ہوئے ہیں۔ قریبی دوستوں کے مطابق وہ شام 7 بجے کے قریب ہاسٹل جانے کے لیے ان سے جدا ہوئے تھے۔ آخری بار بھی انہیں ہاسٹل جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ جب دونوں سے کسی طرح بھی رابطہ نہ ہو سکا اور تمام جاننے والوں سے جانچ پڑتال کے بعد بھی کچھ نہ پتہ چلا تو طلبہ تنظیموں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے کہا کہ آپ کوئی قدم اٹھائیں کہ دونوں طالب علم اسی ادارے سے منسلک تھے اور اسی کے ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے ہیں لیکن انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی، تو طلبہ نے مطالبہ کیا کہ آپ یونیورسٹی میں لگے کیمرے ہمیں چیک کرائیں۔ پھر انتظامیہ نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اس وقت بجلی نہیں تھی۔ یہ سراسر جھوٹ ہے، شام کو اس وقت کبھی بجلی نہیں جاتی۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ سیکورٹی کے نام پر یونیورسٹی میں سینکڑوں کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ ”کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے“ یہ جملہ لکھا ہوا ملے گا، لیکن اب تک یہ کیمرے صرف اور صرف طلبہ کو ہراساں کرنے کے سوا کسی کام نہیں آئے۔ انہی کیمروں کی وجہ سے ایک ہراسانی کا واقعہ بھی منظر عام پر آیا تھا، جس میں عام طالبات کی ویڈیوز بنا کر انہیں ہراساں کیا جاتا تھا۔ جب اس واقعے کے خلاف احتجاج شروع ہوئے اور ایک بہت بڑی تحریک بننا شروع ہوئی تو انتظامیہ نے اس کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ظاہر ہے اس میں بھی انتظامیہ اور اس کے منظور نظر پروفیسر ملوث تھے، اس لیے سارا ملبہ سیکورٹی گارڈز پر ڈال دیا گیا۔

دو طالبعلموں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے انتظامیہ کا ناروا رویہ دیکھ کر طلبہ تنظیموں نے 5 نومبر بروز جمعہ احتجاج کی کال دی۔ 5 نومبر کو سینکڑوں طلبہ نے ایڈمن دفتر کے سامنے جبری گمشدگی کے خلاف دھرنا شروع کر دیا۔ لیکن پھر بھی انتظامیہ اپنی ہٹ دھری پر قائم رہی اور کوئی نوٹس نہیں لیا، نہ کیمرے دکھائے گئے۔

جب انتظامیہ کسی بھی طریقے سے بات ماننے کو تیار نہ ہوئی تو طلبہ تنظیموں نے آگے بڑھتے ہوئے 9 نومبر کو یونیورسٹی کا مین گیٹ بند کرنے کی کال دی۔ اس وقت کچھ ڈپارٹمنٹس میں مڈ ٹرم کے امتحانات چل رہے تھے اور کچھ میں ایک دو دن میں شروع ہونے تھے جو اچانک امتحانات سے ایک دن پہلے مسلط کیے گئے تھے اور اکثر طلبہ ذہنی طور پر امتحانات کے لیے تیار نہیں تھے۔ عام طلبہ جو اس مقدس درس گاہ میں کئی مسائل سے دوچار تھے اب اوپر سے اچانک امتحانات کے دباؤ نے ان کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کیا۔ ایسے میں انہوں نے اس کال کی حمایت کی۔ انہیں اس تحریک سے انتظامیہ اور اپنے ڈپارٹمنٹ کے خلاف غصہ نکالنے کا موقع ملا۔

انتظامیہ نے جب عام طلبہ کی ہمدردیاں طلبہ تنظیموں سے جڑتے ہوئے دیکھیں تو اس کو ختم کرنے کے لیے اس نے باضابطہ یونیورسٹی بند کرنے کا نوٹس جاری کر دیا۔ 10 نومبر کو انتظامیہ کی طرف سے یونیورسٹی بند کر دی گئیتا کہ عام طلبہ نہ آ سکیں اور یہ تحریک پھیل نہ سکے۔ لیکن 10 نومبر کو یونیورسٹی بند ہونے کے باوجود بہت سے طلبہ یکجہتی کے لیے یونیورسٹی میں جاری دھرنے میں آتے رہے۔

جب مین گیٹ کے بند ہونے اور امتحانات کے بائیکاٹ کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ اسی طرح ہٹ دھرمی کا شکار رہی تو طلبہ تنظیموں نے کوئٹہ کی دوسری یونیورسٹیوں کو بھی بند کرنے کی کال دے دی۔ ہم سمجھتے ہیں یہ سب سے بہترین اقدام تھا۔ ایک احتجاج کی کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے مسلسل وسعت دی جائے اور اس کو دوسرے اداروں سے جوڑا جائے۔

11 نومبر کو جب کوئٹہ کے اہم تعلیمی ادارے بند ہوئے تو اس سے انتظامیہ کے کان کھڑے ہوئے اور پھر مذاکرات کی کوششیں شروع کی گئیں۔ طلبہ کے اتحاد، جرات اور استقامت کو دیکھتے ہوئے 11 نومبر کو ہی وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرف سے ایک وفد تہذیب، قومیت، بلوچ قومیت، پگڑی، ثقافت وغیرہ کا ٹوکرا ساتھ لیے دھرنے میں آیا۔

اس وفد نے کوئی مذاکرات وغیرہ نہیں کیے بس ان کو اس وقت بلوچ قومیت یاد آگئی تھی اور قومیت کے نام پر اس احتجاج کو ختم کروانا چاہتے تھے کہ ہم آپ لوگوں کے پاس آئے ہیں، آپ کے معتبر ہیں، بلوچوں میں جب کوئی پگڑی لیے کسی کے پاس جاتا ہے تو اس کی بات مان لی جاتی ہے۔

ان دلالوں کو اس وقت بلوچ غیرت یاد نہیں آئی جب طلبہ انتظامیہ کے سامنے کیمرے دکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے جن میں اکثریت بلوچ طلبہ کی تھی۔ اُس وقت ان تہذیب کے علم برداروں کو تہذیب یاد نہیں آتی جب نہتے طالبعلموں کو ہاسٹلوں سے لاپتہ کیا جاتا ہے۔ لیکن جب جب طلبہ طاقت دکھا کر انتظامیہ یا حکمران طبقے کی پروردہ ریاست کو للکارتے ہیں تو ان بزرگ و معتبر بلوچوں کو علم و ادب کے قافلے لوٹتے نظر آتے ہیں۔ معصوم طالب علم غیر مہذب اور وحشی نظر آتے ہیں کیوں کہ وہ ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔

اس احتجاج سے عام طلبہ میں سیاسی شعور بڑھ رہا تھا، ان کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو رہا تھا، ہاسٹل کے ایسے طلبہ جو سیاسی نہیں تھے، سیاست میں حصہ لے رہے تھے اور دن میں کم از کم ایک بار دھرنے میں جا کر اپنی حاضری ضرور دیتے۔ ہاسٹل میں سیاسی بحثیں شروع ہوچکی تھیں۔ چائے خانوں میں جہاں پہلے پڑھائی، اسائنمنٹ اور دوسرے موضوعات پر بات ہوتی تھی، اب وہاں سیاسی بحثیں ہونے لگی تھیں۔ اس احتجاج میں وسعت لانے کے لیے بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی بحث شروع ہو گئی۔

پھر جمعہ کے روزیعنی 12 نومبر کو دوپہر دو بجے پھر ایک وفد مذاکرات کیلئے آیا۔ جو 11 نومبر کو آئے تھے وہ صرف بغیر کسی وعدہ و پیمان کے بلوچ قومیت کے نام پر احتجاج کو ختم کروانا چاہتے تھے، ان کی ناکامی کے بعد پھر نیا ٹولہ آیا۔

حکومت کی جانب سے جو مذاکراتی ٹیم آئی تھی، انہوں نے پانچ دن کی مہلت لینے کی بات کی، اور طلبہ سے کہا کہ وہ اپنا احتجاجی دھرنا ختم کر دیں۔ ایسے میں اگرچہ قیادت کافی پریشر میں آگئی مگر یہ معاملہ چونکہ عام طلبہ میں نا صرف بہت زیادہ زیر بحث آچکا تھا بلکہ طلبہ کی بہت بڑی اکثریت سیاسی طور پر براہ راست اس میں شامل ہو چکی تھی، لہٰذا عام طلبہ کے دباؤ کی وجہ سے قیادت نے احتجاجی دھرنے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد مذکورہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم مین گیٹ سے احتجاجی دھرنے کو اٹھا کر یونیورسٹی میں ایڈمن دفتر کے سامنے دھرنا دیں گے، اور کسی بھی صورت دھرنا ختم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ کیوں کہ طلبہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دوست زندانوں میں رہیں اور وہ امتحان یا کلاسوں میں بیٹھے رہیں، اسی لیے اب تک ان سب کا یہی مطالبہ ہے کہ جب تک گمشدہ طالب علموں کو بازیاب نہیں کرایا جاتا تب تک ہم کلاسز سمیت ہر قسم کی تعلیمی سرگرمی سے بائیکاٹ کریں گے۔

اس کے بعد 16 نومبر کو ایک بار پھر مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ طلبہ کی کمیٹی کے مذاکرات ہوئے۔ مگر ان مذاکرات میں بھی انتظامیہ کی مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ گمشدہ طالب علموں کو بازیاب نہیں کرا سکتے، مگر طلبہ احتجاج ختم کر دیں۔ طلبہ کی کمیٹی کی جانب سے اس مضحقہ خیز مطالبہ کو رد کر دیا گیا اور احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ تاحال احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

احتجاجی دائرہ کار کو پھیلانا ہوگا

ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں طلبہ کو درپیش مشکلات و مسائل کی نوعیت تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔ فیسوں سے لے کر ہاسٹل، کلاسز سے لے کر ٹرانسپورٹ تک، اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی سے لے کر ہراسمنٹ تک تقریباً تمام تر مسائل اس وقت پورے پاکستان میں طلبہ کو درپیش ہیں اور اس کے خلاف مختلف احتجاجوں و مظاہروں کی شکل میں مزاحمت بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ آن لائن کلاسز کے نام پر فیسوں کی لوٹ مار کے خلاف ملک گیر طلبہ تحریک چلائی گئی تھی، جہاں اکثر و بیشتر جگہوں پر ان کے مطالبات طلبہ کی بھرپور مزاحمت کی وجہ سے مان بھی لیے گئے تھے۔

بلوچستان میں ان تمام تر مسائل کے علاوہ ایک اور سنگین مسئلہ بھی درپیش ہے جہاں پر بالخصوص بلوچ طالبعلموں کو جبری گمشدگی کا شکار بننا پڑتا ہے۔ صوبے کے دیگر مقامات کے علاوہ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز سے طلبہ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ جو کہ نا صرف قابل مذمت اقدام ہے بلکہ اس کے خلاف بلوچستان بھر کے طلبہ کو اپنی آواز ملک گیر طور پر پھیلانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ طلبہ پر ہونے والی ریاستی جبر کا بھرپور جواب دیا جا سکے۔

اب تک طلبہ نے انتہائی جرات مندانہ اور قابل ستائش جدوجہد کی ہے جس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس احتجاجی تحریک کے دائرہ کار کو تیزی کے ساتھ وسیع کرنا ہوگا۔ اسی صورت ہی انتظامیہ اور ارباب اختیار پر پریشر بڑھایا جا سکتا ہے۔

اس کیلئے سب سے پہلے تو کوئٹہ شہر میں موجود تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ کو اس احتجاجی تحریک میں شامل کرنے کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ایک بڑی کمپئین کا آغاز کیا جانا چاہئیے جس میں ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ چھاپ کر انہیں شہر کے تعلیمی اداروں میں تقسیم کیا جائے۔ اس پمفلٹ پر ان طالب علموں کی بازیابی سمیت طلبہ کو درپیش دیگر مسائل جیسے فیسوں میں اضافے، ہراسمنٹ، ٹرانسپورٹ وغیرہ کو بھی شامل کیا جانا چاہئیے۔

اس کے علاوہ جامعہ بلوچستان کے اکیڈمک سٹاف سے لے کر کلاس فورتھ تک تمام تر ملازمین کی تنخواہوں سے بے جا کٹوتی کی جارہی ہے جس کے جواب میں یونیورسٹی فنڈز کی کمی کا بہانہ کرکے جان چھڑا لیتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب یونیورسٹی میں ایڈہاک اور کنٹریکٹ پر اکیڈمک سٹاف کو بھرتی کیا جاتا ہے جن کی تنخواہیں یا واجب الادا رقم بر وقت ادا نہیں کی جاتی۔ اس کے باوجود فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جاتا ہے اور طلبہ سے مختلف غیر ضروری امور کی شکل میں بے تحاشا فیسیں لوٹی جاتی ہیں۔ جامعہ بلوچستان سمیت صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ سمیت دیگر ملازمین شدید استحصال کا شکار ہیں جن سے انتہائی کم اجرتوں پر بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی شعبہ بھی نجکاری کی زد میں ہے جہاں ملازمین کو جبری برطرفی کا سامنا ہے۔ ایسے میں ان ملازمین کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے انہیں بھی موجودہ تحریک میں شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔

جتنا زیادہ احتجاجی دائرہ کار وسیع ہوتا جائے گا اتنا ہی طلبہ کی طاقت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور انتظامیہ اور ارباب اختیار پر پریشر بھی بڑھتا جائے گا۔ ہماری طاقت ہماری تعداد اور ہمارا اتحاد ہے۔ ایک بڑی طلبہ قوت نا صرف ان گمشدہ طالب علموں کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہوگی بلکہ طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کے حل کی جانب بھی ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ اور مستقبل میں یہی قوت پھر بالآخر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام، جو تمام مسائل کی جڑ ہے، کے خلاف جدوجہد میں بھی ایک اہم ہتھیار ثابت ہوگی۔

پروگریسو یوتھ الائنس روز اول سے اس احتجاجی تحریک میں شامل رہا ہے اور گمشدہ طالب علموں کی بازیابی تک اس تحریک میں سرگرم کردار ادا کرتا رہے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.