|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
پاکستان کی آبادی کا تقریباً نصف 17 سال سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب نوجوان تو سماج کی طبقاتی بنتر کے باعث کالجوں اور یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ ان کا محض چند فیصد ہی تعلیمی اداروں تک پہنچ پاتے ہیں۔ یوں تو مشال خان کے وحشیانہ قتل پر سماج کی تمام پرتوں سے ایک شدید ردِ عمل کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا لیکن طلبہ کی طرف سے آنے والے شدید غصیلے ردِ عمل نے ریاستی اداروں اور ان کے حواریوں کو مشال خان کے قتل کی واردات کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر نئی نسل نے کھل کر ریاست اور ذمہ داران کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا۔ جہاں وہ مشال خان سے اپنی طبقاتی جڑت کا اظہار کر رہے تھے وہیں ان کے اپنے مسائل (فیسوں سے لے کر بیروزگاری کی ننگی لٹکتی تلوار تک) سب کے خلاف مسلسل پکتا لاوا بھی پھٹنا شروع ہو گیا تھا جس کے باعث وزیرِ اعظم، علمائے کرام اور دیگر اہم شخصیات سے مشال خان کو شہید کی سند دلوا کر اس غم و غصے کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر ساتھ ہی دہشت گردوں کو اپنا ریاستی اثاثہ سمجھنے والے قاتلوں کو بچانے کے لیے بھی سر توڑ کو ششیں کرتے رہے۔ کچھ کو پولیس کی تحویل سے نکال کر بیرون ملک فرار کرا دیا گیا اور کچھ کو اہم سیاسی شخصیات کے گھروں میں پناہ دی گئی۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مشال خان کے قاتلوں کا تحفظ کرنا ریاست کے رجعتی دھڑوں کے لیے ان کی بقا کا مسئلہ ہے کیونکہ وہ انہی مذہبی جنونیوں کے ذریعے ہی اپنی کالی معیشت کا انجن گرم رکھے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے پہلے پہل تو مشال خان کے خون کو فراموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر بعد ازاں مگر مچھ کے آنسو بہا کر ریاست نے خود اس معاملے کو مستعار لینے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے واقعات کی ایسی برق رفتاری میں جہاں دوسرے ہی دن کوئی بھی خبر پرانی ہو جاتی ہے، مشال خان کا کرب چالیس دنوں کے بعد آج بھی کروڑوں انسانوں کے دلوں میں تازہ ہے۔ مشال خان کے چہلم کی تقریب سے قبل چارسدہ میں کچھ دستی بم پھینک کر، اور دیگر حیلوں، حربوں سے خوف کی فضا بنا کر یہ کوشش کی گئی کہ زیادہ لوگ اس تقریب میں شرکت نہ کر سکیں لیکن اس کے باوجود ایک ہزار سے زائد افراد کی شمولیت نے مشال خان کے لیے انصاف کی جدوجہد کرنے والوں کے حوصلوں کو توانائی بخشی ہے۔ ان شرکا کے ساتھ ساتھ مشال خان کے دکھ میں نڈھال نہ صرف ملک کے طول وعرض میں کروڑوں نوجوان جو مختلف نا مساعد حالات کے باعث وہاں نہیں پہنچ سکے، اور ان کے ہمراہ دنیا بھر کے مختلف خطوں میں مقیم لاکھوں پاکستانی محنت کشوں کے دل بھی اس روز زیدہ میں دھڑک رہے تھے۔اور دیگر ملکوں اور قوموں کے محنت کش بھی مشال خان کے لیے انصاف کی جدوجہد میں ہر ممکن تعاون اور کاوش کے لیے مستعد اور متحد ہیں۔
21مئی 2017ء کو مشال خان کی شہادت کے چالیس دن بعد مشال خان کے چہلم کے موقع پر مشال خان کے آبائی علاقے زیدہ میں پاکستان بھر سے طالب علموں اور سیاسی کارکنان کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مشال خان کی شہادت نے ہر با ضمیراور باشعور انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعہ نے ایک طرف جہاں پورے ملک میں طلبہ کی بہت بڑی تعداد کو متحرک کیا تو دوسری جانب روایتی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی بھی بیشتر پارٹیوں کے عوام دوستی اور ترقی پسندی کے ڈھونگ کا پردہ بھی فاش کیا۔ مشال خان کے قتل میں اے این پی کا طلبہ ونگ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن، تحریک انصاف کا طلبہ ونگ، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن اور ان دونوں کو متحرک کرنے اور اس وحشی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کام کرنے والی ریاست کی گماشتہ جماعت اسلامی کا طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ شامل تھے۔ مشال خان کے قتل کے چالیس دن گزر جانے کے بعد آج تک مشال کے قاتلوں کو کسی بھی قسم کی سزا نہیں دی گئی حتیٰ کہ جن ملزمان کو پکڑا گیا ہے انہیں بھی جیل کے اندر کسی فائیو سٹار ہوٹل جیسے ماحول میں رکھا گیا ہے۔
وہی اے این پی جو مشال خان کے بہیمانہ قتل میں سب سے آگے تھی، مشال خان کے چہلم پر ہر جگہ اسی کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ اپنے سیاسی مفادات کیلئے اسی اے این پی نے پہلے مشال خان کو شہید کیا اور پھر اسی کی لاش پر اپنی سیاست چمکائی۔ اسی طرح اے این پی کے علاوہ درجنوں دیگر پارٹیاں اور این جی اوز بھی اپنا اپنا کاروبار چمکانے کیلئے مشال خان کے چہلم پر اپنے اپنے جھنڈوں اور بینروں کیساتھ موجود تھیں۔ جلسے میں موجود لیفٹ کی ہر نام نہاد پارٹی اور این جی اوز نے اس جلسے کو اپنے جھنڈوں، بینروں اور سٹیج پر جھوٹی لفاظی سے ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ کاٹن کے سوٹ پہنے اور مہنگے مہنگے چشمے لگائے ہر نام نہاد پارٹی کے لیڈران اس جلسے میں محض تصویریں کھنچوانے اور اپنے ساتھ چار پانچ لڑکوں کے گروپ سے اپنے خوشامدی نعرے لگوانے بڑی بڑی گاڑیوں میں آئے تھے۔ مشال کے بہیمانہ قتل کے چالیس دن تک ان تمام پارٹیوں میں سے کسی بھی پارٹی نے مشال خان کیلئے حقیقی معنوں میں کوئی بات نہیں کی۔ اگر کہیں کسی نے کوئی بات کی تو وہ بھی اپنی سیاسی بقا اور تشہیر کیلئے۔ لیفٹ کی بیشتر پارٹیاں تو مشال خان کے کیس کو نام نہاد فوجی عدالتوں میں چلانے کے لئے مہم چلا رہی ہیں۔۔۔ جس کے سبب بیمار ہوئے اسی عطار کے لونڈے سے دوا طلب کی جا رہی ہے۔ اسی طرح جلسے کے دوران امن جرگہ صوابی سے کمال شاہ نے جب یہ کہا کہ اس قتل میں پختون ایس ایف بھی شامل ہے تو اے این پی کے وحشی کارکنوں نے سٹیج پر حملہ کر دیا اور کمال شاہ کو زدوکوب کیا۔ اے این پی کے کارکنوں نے کمال شاہ کو بات کرنے سے روک دیااورشدید جھڑپ کے بعد بہت مشکل سے کمال شاہ کو اے این پی کے وحشی کارکنان سے بچا کر سٹیج سے اتارا گیا۔ بعد میں کمال شاہ کو اپنے الفاظ واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ اس واقعے نے اے این پی اور پختون ایس ایف کی ترقی پسندی اور عدم تشدد کا پردہ چاک کردیا۔
اس جلسے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے وفد نے بھی بھرپور شرکت کی۔ پی وائے اے کے کارکنان نے اس جلسے میں مشال خان کی شہادت کے بعد شائع کیا گیا لیف لیٹ 1ہزار سے زائد تعداد میں تقسیم کیا جس کو بہت پذیرائی ملی۔ اس جلسے میں واحد سٹال بھی پی وائے اے کی جانب سے لگایا گیا تھا جس پر مارکسی لٹریچر رکھا گیا۔ شرکاء کی بڑی تعداد خصوصاً نوجوانوں نے سٹال کا دورہ کیا اور قریباً 2 گھنٹے کے اندر ہی سٹال پر موجود تمام میگزین، ورکرنامہ اور کتابیں خرید لیں۔ شرکاء کا مارکسی لٹریچر کی طرف اس قدر تجسس بہت حوصلہ افزا تھا۔ بہت سے شرکاء نے پی وائے اے کے کارکنان کے ساتھ بات چیت کی اور اکثریت نے پی وائے اے کے موقف کو درست قرار دیا۔ بات چیت کے دوران نوجوانوں نے پی وائے اے کے کام کوخوب سراہتے ہوئے پی وائے اے کی مشال خان کیلئے عالمی سطح پر کی گئی کمپین کو ہی حقیقی کمپین قرار دیا۔ تمام لٹریچر فروخت ہو جانے کے بعد بھی لوگ سٹال پر آتے رہے اور ’لال سلام‘ میگزین اور چے گویرا پر لکھا گیا کتابچہ طلب کرتے رہے۔ شرکاء کا یہ ماننا تھا کہ مشال ایک سوشلسٹ تھا اور اس کی جدوجہد ایک غیر طبقاتی سماج کیلئے تھی۔
جلسے کا اختتام مشال خان کے والد اقبال لالا نے کیا۔ اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے اقبال لالا کا کہنا تھا کہ ریاست، حکمرانوں کے ہاتھ میں تھاما ہوا ایک ڈنڈا ہے جس سے وہ محنت کشوں، کسانوں اور طلبہ پر اپنا جبر برقرار رکھتے ہیں۔ آج تک کبھی بھی محنت کشوں کو اس ریاست سے انصاف نہیں ملا۔ آج مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کو مل کر اس ڈنڈے کو ان حکمرانوں سے چھیننا ہوگا اور آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ ہم مشال کے والد کی بات سے اتفاق کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں محنت کشوں اور طلبہ کو اپنے حقوق بھیک میں نہیں ملے اور آج بھی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔