|تحریر: رائے اسد|
ایک وقت تھا جب انسان غاروں میں زندگی بسر کرتا تھا۔سب سے پہلے انسان نے اوزار بنائے جو دفاع کے لئے اور شکار کرکے خوراک حاصل کرنے کیلئے نہایت ضروری تھے۔مادی حالات کے ساتھ شعور کی ترقی کا یہ سفر جاری رہا اور آج انسان نے خود کو اس قابل بنا دیا ہے کہ اسے اشرف المخلوقات کہا جا سکے۔ ہواؤں کو مات دے کر وہ بادلوں سے بغل گیر ہوا اور رفتہ رفتہ دوسرے سیاروں تک جا پہنچا،سمندر کا سینہ چیر کر اس کی تہوں کو جا ملا،پہاڑوں کو فتح کیا اور شہروں اور ملکوں کو جوڑتے ہوئے زمین کو اکائی بنا دیا۔ ہمارے آباء و اجداد دوسرے شہر کے لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے تھے اور ہم دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والوں سے با خبر ہیں۔ جہاں انسانی ہاتھ مہینوں کی محنت سے کوئی چیز بناتے تھے، انہیں ہاتھوں نے مشین بنا کر اس عمل کو گھنٹوں میں قید کر دیا۔ گو ہر وہ عمل جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، آج وہ معمولی فعل ہے۔
انسان کی عظیم ایجادات میں سے ایک پہیہ کی ایجاد تھی جس کے ذریعے اس نے وقت کو قید کیا۔ پرانے زمانے میں سفر کرنا بہت مشکل کام تھا اور لوگ بہت کم یہ گوارہ کرتے تھے۔ لیکن آج سفر کرنا ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہے (ضرورت بن چکی ہے)۔ آج چند میل کا فاصلہ بھی طے کرنا ہو تو ہم پیروں کی نسبت موٹر سائیکل، گاڑی، بس یا رکشہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے ایک تو ہمارا وقت بچ جاتا ہے (جو اس سرمایہ دارانہ نظام میں ہوتا ہی بہت کم ہے) اور دوسرا سفر میں آسانی ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ ایسی چیزیں ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
سماج کے طبقات (حکمران طبقہ اور محنت کش طبقہ) میں تقسیم ہونے کی بدولت جہاں انسان کی اکثریت غلامی کا شکار ہوئی وہیں دوسری طرف چند لوگوں کو فارغ وقت میسر آیا اور وہ غور و فکر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جس کی بدولت فلسفہ، سائنس، فلکیات اور ادب وغیرہ کا نا صرف آغاز ہوا بلکہ سماج (طبقاتی) کے ارتقاء کے دوران انہیں خوب فروغ ملا۔ اسی کے نتیجے میں آج ہمیں سماج اتنا ترقی یافتہ شکل میں ملتا ہے۔ لیکن آج یہی طبقاتی نظام ہماری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
سرمایہ داری نے جن ملکوں میں اپنے فرائض سرانجام دیے، وہاں بنیادی ضروریات کو کافی حد تک پورا کیا گیا (گو کہ وہاں بھی اس نظام کے نامیاتی اور حتمی بحران کے ساتھ تمام سہولیات اب ختم ہو رہی ہیں)۔ لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک جہاں سرمایہ داری پوری طرح پنجے نہیں گاڑھ پائی اور پچھلے نظام کی باقیات کو ختم نہیں کیا گیا، وہاں لوگوں کے جمہوری حقوق بھی پورے نہیں کیے گئے۔ یہی حال نقل و حمل کے نظام (Transport System) کا ہے۔ وہ مسئلہ جو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے، لوگوں کے لیے وبالِ جان بن چکا ہے۔ آئے روز اس شعبہ کی حالت بد تر سے بد ترین ہوتی جا رہی ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ کر لگتا ہے کہ آدمی انگریزی والا سفر(Suffer) کر کے آیا ہے۔ بس اڈے پر پہنچ کر محسوس ہوتا ہے کہ کسی مویشی منڈی میں داخل ہو گئے ہیں۔ جانور کی طرح لاد کر حضرتِ انسان کو منزلِ مقصود تک پہنچایا جاتا ہے۔ اکثریت آبادی جو کہ غریب ہے، عام بس میں ہی سفر کر سکتی ہے، جس کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ طوفان آنے پر نوح نے کشتی نہیں بلکہ اس بس کا سہارا لیا تھا۔ سڑکوں کی صورتحال ایسی ہے کہ بس میں سفر کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے پر بیٹھے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بٹھا کر اضافی کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ کئی لوگ بس میں کھڑے ہو کر گھنٹوں کا سفر طے کرتے ہیں۔ قدیم انسان کو اگر معلوم ہو جائے کہ آج اس طرح سفر کیا جاتا ہے تو شاید وہ اپنی قسمت پر اِترائے۔
دوسری طرف مہنگی بسوں کا جال نظر آتا ہے۔ ہماری مڈل کلاس انہیں کا رخ کرتی ہے۔ بس مالکان اپنی مرضی کا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ لیکن ان کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہاں اس بات پر فخر ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہم نے پیسے زیادہ دیے اور ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوئے۔ کچھ بہت مہنگی بسیں بھی ہیں جو چند لوگ ہی استعمال کر سکتے ہیں۔
ٹرین کا سفر جو نسبتاٌ بہتر سمجھا جاتا ہے، وہ بھی دن بہ دن دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ جب سے یہ شعبہ بنا اس وقت سے آج تک کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں بلکہ مزید نجی مالکان کو فروخت کرکے برباد کیا جا رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں جہاں بس مافیا طاقتور ہے،وہاں ٹرین کے اسٹیشن ہونے کے باوجود ٹرین نہیں جا سکتی کیونکہ اس سے بسوں کا کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ ہوائی شعبے کے حالات بھی خوشگوار نہیں ہیں۔ عام لوگوں کے لئے جہاز میں سفر کرنا کسی خواب سے کم نہیں ہے۔ یہ سہولت بھی چند لوگوں کو ہی میسر ہے۔
ان شعبہ جات میں کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں۔ مالکان حضرات لوٹ مار میں اضافہ کرکے اپنی دولت بڑھا رہے ہیں جبکہ کام کرنے والے مزدوروں کی حالت زار ہے۔ باقی سماج کی طرح نقل و حمل کے تمام ذرائع بھی مزدوروں کی وجہ سے چلتے ہیں اور انہیں مزدوروں کا خون نچوڑ کر امیروں کی تجوریاں بھری جاتی ہیں۔ آئے روز محنت کش سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ ریلوے کے محنت کش کئی ہڑتالیں کر چکے ہیں اور مستقبل میں بھی نجکاری کے خلاف لڑائی کے امکانات ہیں۔ PIA کے محنت کشوں نے بھی 2016ء میں تاریخی ہڑتال کی جس میں دو مزدوروں کو شہید کر دیا گیا۔ مہنگی مہنگی بسوں میں عورتوں کو اشتہار کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔کام کرنے والی عورتوں کو انتہائی افسوس ناک رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچپن میں جن کو سکول،کالج کا یونیفارم بھی نصیب نہیں ہوتا، انہیں بس میں یونیفارم پہناکر انسانیت کی توہین کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی نجی گاڑیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جو دولتمند ہوتا ہے وہ اپنی گاڑی خریدتا ہے۔ ایک عام انسان کے پاس بھی موٹر سائیکل ہونا ضروری ہے کیونکہ روز آمدرفت کے لیے رکشہ وغیرہ کا کرایہ برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق انسان کے چڑچڑے پن کی بڑی وجہ ان گاڑیوں وغیرہ سے پیدا ہونے والا شور ہے۔
ٹریفک کی صورتحال بھی انتہائی افسوس ناک ہے۔ دن بہ دن حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ روز کئی موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، بسوں کے مسافر کبھی گھر نہیں لوٹ پاتے، گاڑیوں کے حادثے میں لوگ مارے جاتے ہیں یا پھر راہ گیروں کو کوئی گاڑی کچل کر چلی جاتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 30310 یا 2.69% لوگ حادثات کی وجہ سے مارے جاتے ہیں (یعنی ایک لاکھ میں سے بیس لوگ)۔ اعداد و شمار کے مطابق کل 97749 حادثات میں 51416 افراد لقمہِ اجل بنے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک اور رپورٹ کے مطابق سال 2010ء میں 1.25 ملین لوگ ٹریفک حادثات میں اموات کا شکار ہوئے۔ پاکستان میں 2013 میں 25781 اموات ہوئیں۔
آج سائنس و ٹیکنالوجی اس نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ ان مسائل کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ نجی گاڑیوں کو ختم کرکے ہر طرف پبلک ٹرانسپورٹ چلنے سے بہت بڑی تعداد میں آلودگی اور شور کا خاتمہ کیا سکتا ہے۔ لیکن اس نظامِ زر میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ آج صرف ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔