جنسی ہراسانی کی سماجی بنیادیں اور مستقل حل !

|تحریر: زینب |

14 اگست کی شام لاہور کے اقبال پارک میں ”جشن آزادی“ کے دوران ایک ہولناک واقعہ منظرِ عام پر آیا،جس نے انسانی جذبات رکھنے والوں کے دل دہلا دیے۔ جس طرح ایک لڑکی کو سینکڑوں مردوں کی طرف سے اپنی حوس کا نشانہ بنایا گیا وہ ناصرف قابلِ مذمت بلکہ قابلِ نفرت اور قابلِ مزاحمت ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان المعروف ”ریاستِ مدینہ“ میں اس طرح کے وحشیانہ واقعات اب معمول کا حصہ بن گئے ہیں۔ آئے دن ہراسانی، ریپ، گھریلو تشدد، عزت کے نام پر قتل کی خبریں سننے کو ملتی ہیں جو اس تلخ حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ ملک خواتین کے لیے جہنم سے بھی بد تر ہو چکا ہے۔

خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم اور جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ان مظالم سے مشتعل ہونے اور ان پر ماتم کرنے کے ساتھ ساتھ، اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ انکی وجوہات کو سمجھا جائے تا کہ اس کے مکمل خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کر سکیں۔

جیسے کینسر کے مرض کے علاج کے لییپہلے اس مرض کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔کسی بھی بیماری کی جڑ تک پہنچے بغیر اس کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح خواتین کے خلاف ہونے والے غیر انسانی اور سنگدل جرائم بھی کینسر کے مرض سے کم نہیں۔ مارکسی نقطہ نظر کے مطابق جہاں ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے درندوں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی عین ضرورت ہے، وہیں ان وجوہات کا خاتمہ بھی ضروری ہے جو ایک انسان کو انسانیت کے درجہ سے گرا کر حیوان کے درجہ پر پہنچا دیتی ہیں۔ ورنہ تو کڑی سے کڑی سزائیں ملتی رہیں گی، کچھ کے ختم ہونے کے بعد، مزید درندے پیدا ہوتے رہیں گے اور خواتین اس اذیت میں مبتلا رہیں گی۔

خواتین کے خلاف ہونے والے کسی بھی جرم کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ جرم جس معاشرے میں ہوا ہے، وہاں نظام کونسا ہے؟ وہاں انسان کن باہمی رشتوں کے تحت سماجی و انفرادی زندگی گزارتے ہیں؟ اس معاشرے میں کونسے عوامل انسانوں کی سوچ اور نفسیات بناتے ہیں؟اگر موجودہ وقت کی بات کریں تو ہم آج عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام میں رہ رہے ہیں۔ اس نظام میں ایک فیصد حکمران طبقہ تمام تر ذرائع پیداوار کا مالک ہوتا ہے۔ ان تمام ذرائع کو وہ اشیاء بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، جن کو بیچ کر منافع کماتا ہے اور یہ منافع اس کی پرتعیش زندگی کا ضامن بنتا ہے۔ باقی نناوے فیصد عوام، بلخصوص محنت کش طبقہ، اس نظام میں سرمایہ دار، یعنی ایک فیصد، کے پاس اجرتی غلامی کرتا ہے۔ محنت کے ذریعے سرمایہ دار کی دولت میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور بدلے میں اسے صرف اتنا ملتا ہے کہ وہ محض زندہ رہ سکے اور بچے پیدا کر سکے۔ زندہ اس لیے رہ سکے کہ اگلے دن پھر اس سرمایہ دار کے لیے کام کرنے آئے اور بچے اس لیے پیدا کرے کہ جب وہ خود مر جائے یا بوڑھا ہو جائے تو سرمایہ دار کی دولت میں اضافے کو برقرار رکھنے کے لیے محنت کشوں کی نئی نسل تیار ہو چکی ہو۔

تاریخی عمل میں عورت کی زندگی کا دائرہ کار صرف بچے پیدا کرنے سے لے کر گھر کے کام کرنے تک محدود کر دیا گیا۔گھریلو مزدوری کا سارا بوجھ خواتین کے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔ خواتین کو سماجی پیداوار سے سرے سے خارج کر دیا گیا، گھریلو غلام بنا دیا گیا ہے اور معاشی طور پر مرد پر منحصر کر دیا گیا۔ ان تمام گھریلو کاموں کو عملی طور پر ممکن بنانے کے لیے ضروری تھا سماج میں عورت کو مرد کے ماتحت، مرد سے کمزور اور مرد سے کم تر بنانے کی سوچ اور نظریات پھیلائے جائیں اور ان نفسیات کو پروان چڑھانے کے لیے مذہب اور روایات کا سہارا لیا گیا۔یہ وہ بنیاد ہے جہاں سے عورت کی غلامی کی شروعات ہوتی ہے، باقی تمام صنفی جرائم اسی بنیاد سے جنم لیتے ہیں۔

سرمایہ داری میں عورت کو نام نہاد”آزادی“ ملی۔یہ آزادی مرد محنت کشوں کے ساتھ اپنی محنت کا استحصال کروانے کی آزادی تھی۔ سرمایہ داروں کو زیادہ سے زیادہ اجرتی غلاموں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکے۔اس طرح عورت دوہرے جبر کا شکار ہوئی۔گھر سے باہر کسی زردار کی غلامی اور گھر میں گھریلو غلامی۔چونکہ سرمایہ دارانہ نظام منافع کا نظام ہے اور منافع تب ہی حاصل ہوتا ہے جب اشیائے فروخت ہوں۔ اشیاء کی زیادہ سے زیادہ فروخت کے لیے سرمایہ داروں نے اشتہار بازی کا بازار گرم کیا۔ ٹی وی پر، سڑک پر، موبائل کی سکرین پر، سینما ہال میں حتی کہ ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں میں ہمیں مختلف پرڈاکٹس کے اشتہار نظر آتے ہیں جن کا واحد مقصد ہے کہ بس خریداری کرتے رہو۔ یہ اشیاء خواتین کے عریاں جسم دکھا کر بیچی جاتی ہیں۔ یعنی خواتین بھی انسان کے درجہ سے گرا کر پروڈکٹ بنا دیا جاتا ہے۔سو جس طرح دیگر اشیاء فروخت ہو رہی ہیں اور استعمال ہو رہیں اسی طرح خواتین بھی سرمایہ داری میں ”اشیاء“ ہیں۔چونکہ سرمایہ داری میں عورت انسان کے بجائے ”کموڈیٹی“ ہے تو کوئی بھی اسے جیسے چاہے اپنی ضرورت کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں عوت پر ہونے والا جبر مزید بھیانک شکل اختیار کر جاتا ہے۔ یہاں عورت دشمنی اور جنسی گھٹن اپنے انتہاوں کو پہنچ کر جس غلیظ ترین طریقوں سے اپنا اظہار کرتی ہے۔اس کی وجوہات میں یہاں کے حکمران طبقے کی تاریخی پسماندگی، نا اہلی، بوسیدہ رسومات اور کالے قوانین وغیرہ شامل ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے۔جیسا کہ ہم نے اوپر اس کی بنیادوں پہ بات کی ہے جو اس سماج میں پیوست ہیں اور سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے۔سو یہ جبر بھی پوری دنیا کی غریب خواتین سہہ رہی ہیں۔مختلف ممالک میں اس جبر کی شدت میں کمی بیشی یا نوعیت تبدیل ہو سکتی ہے۔

خواتین کے مسئلے پر مختلف نقطہ ہائے نظر آتے ہیں اور حل پیش کیے جاتے ہیں۔ایک طرف بنیاد پرست یہ حل بتاتے ہیں کہ عورت کو چار دیواری میں قید کر دیا جائے اور دوسری طرف لبرل خواتین و حضرات عورت کو وہی ”آزادی“ دینے کی بات کرتے ہیں جو یہ سماج اسے دینا چاہتا ہے۔یعنی منڈی میں مرد محنت کشوں کی طرح اپنی محنت بیچنے کی آزادی!ہم مارکس وادی خواتین پر ہونے والے ہر قسم کے جبر کی شدید مذمت کرتے ہیں اور خواتین کے تمام جمہوری حقوق کا مکمل دفاع کرتے ہیں۔خواتین کے حقوق کی جدوجہد ہماری جدوجہد کا بنیادی حصہ ہے۔لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اسے درست نظریات کی بنیاد پر لڑا جا سکتا ہے۔ہم سوال کرتے ہیں کہ کون سی عورت مظلوم ہے؟مینارِ پاکستان پر جنسی ہوس کا نشانہ بننے والی لڑکی یا پھر کرنل کی بیوی؟ایک عام عورت یا مریم نواز اور حکمران طبقے کی دیگر خواتین؟ حکمران طبقے کی خواتین اس نظام کی محافظ ہیں اور اس ظلم کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔خواتین کا مسئلہ حتمی طور پر ایک طبقاتی مسئلہ ہے۔اس لیے خواتین کی آزادی کی جدوجہد طبقاتی جدوجہد کا حصہ ہے۔

طبقاتی سماج کی موجودہ شکل، یعنی سرمایہ دارانہ نظام، میں آزاد بلآخر صرف وہی ہے جو سرمائے کا مالک ہے۔ اس بوسیدہ سماج میں عورت اور مرد دونوں ہی سرمائے کے غلام ہیں۔ جب تک طبقات کا پوری طرح سے خاتمہ نہ کیا جائے، تب تک یہ غلامی اور اس سے جڑے تمام تر ظلم و ستم کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس نظام کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے لازم ہے کہ محنت کش خواتین کو منظم کیا جائے اور ان کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کی جدوجہد سے جوڑا جائے۔

سرمایہ داری ایک مسلسل گہرے بحران کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے لہذا دنیا بھر میں خواتین کی حالت بھی لامحالہ طور پر بگڑتی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے اس سے زیادہ اہم وقت کبھی نہیں آیا کہ ہم اس مسئلے کو سمجھیں اور اسے ختم کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہم انفرادی نقطہ نظر سے نکل کر اجتماعی نقطہ نظر اپنائیں۔ خواتین کی آزادی کے لیے لڑائی محنت کش طبقے کی بین الاقوامی جنگ کا حصہ ہونی چاہیے۔کیونکہ محنت کش طبقے کی آزادی، خواتین کی حقیقی آزادی اور انسان کی سرمائے سے آزادی سماج کی آزادی میں ہی ہے۔ اس جدوجہد کی حتمی منزل اور فتح سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی میں مضمر ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.