کتنی عروج فاطمائیں ان درسی قتل گاہوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟ 

|تحریر: پروگریسیو یوتھ الائنس،راولپنڈی|


پوسٹ گریجویٹ کالج فار وومن سکستھ روڈ(سب کیمپس یونیورسٹی آف گُجرات) میں 28 ستمبر کو ایک طا لبہ ’عروج فاطمہ‘ ہا سٹل کے کمرے میں زہریلے کیڑے کے کاٹنے کے بعد فوری طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ گئی۔ ساتھی طالبات کا کہنا ہے کہ رات کو عروج کو کسی زہریلے کیڑے نے کاٹا جسکے بعد وہ کئی گھنٹے درد میں مبتلا رہی۔ساتھی طالبات اور عروج نے ہاسٹل وارڈن سے ہسپتال جانے کی اجازت مانگی جس پر وارڈن نے کہا کہ اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا جو بھی ہوگا صبح ہوگا۔ہاسٹل کے اندر کوئی ڈاکٹر یا میڈیکل سہولیات نہیں ہیں۔ کئی گھنٹے درد میں مبتلا رہنے کے بعد عروج فاطمہ دم توڑ گئی۔بیس سالہ عروج فاطمہ بی ایس تھرڈ سمسٹر شعبہ انگریزی کی طالبہ تھی اور اپنی والدہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔اسکی والدہ دل کی مریض ہیں اور والد حیات نہیں۔
اگلے روز ہاسٹل انتظامیہ کے خلاف کالج کی طالبات نے اس قتل پر شدید احتجاج کیا۔ احتجاج کرنے والی طالبات پر اساتذہ نے تشدد کیا اور انکے کیریر تباہ کرنے کی دھمکی دی۔ اس کے ساتھ ہی کالج اور ہاسٹل انتظامیہ نے عروج پر ڈرگ ایڈکشن کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ اس نے خود کشی کی ہے۔ اس پر طالبات میں مذید غم و غصہ بھر گیا اور بالآخر احتجاج روکنے کے لیے کالج کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

جعلی رپورٹ کالج انتظامیہ کی جانب سے تحریر کی گئی۔ اس پر اساتذہ کے اپنے انگوٹھوں کے نشانات ہیں۔

کالج اور ہاسٹل انتظامیہ نے طاقت اور پیسے کے زور پر جعلی پوسٹ مارٹم رپورٹ بنوائی ہے جسکے مطابق عروج فاطمہ دل کی مریض تھی اور دل کا دورہ پڑنے سے اسکی موت ہوئی جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔عروج کے پاوں پر کاٹنے کے نشان کی تصاویر موجود ہیں اور اسکی ساتھی روم میٹس کو انتظامیہ نے کمرے میں بند کر دیا جب کالج میں پولیس آئی۔ اسکے علاوہ ان طالبات کے نام سے ایک جھوٹا بیان بھی شائع کیا گیا جسکے مطابق ہاسٹل انتظامیہ اس سب سے نا واقف تھی اور یہ طبعی موت تھی، جبکہ یہ ایک قتل ہے! ہم اس قتل کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا مقدمہ کالج اور ہاسٹل انتظامیہ کے خلاف فوری درج کیا جائے۔ 

پاوں پر کیڑے کے کاٹنے کے نشانات۔

یہ محض ایک کالج کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس ملک کے تمام تعلیمی اداروں کی یہی صورتحال ہے۔آئے روز ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جو کہ ادارے کی انتظامیہ دبا دیتی ہے۔ اس ملک کے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کوئی میڈکل سہولت یا ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ گرلز ہاسٹلز میں اگر رات کے وقت کسی طالبہ کو علاج کی ضرورت ہو تو اسے باہر ہسپتال جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ اسے صبح کا انتظار کرنا پڑتا ہے چاہے وہ صبح دیکھنے کے لیے وہ زندہ رہے یا نہ رہے۔ لیکن عروج کے اس قتل کی خبر سوشل میڈیا پر پھیل گئی جس کے بعد 28 ستمبر کو کالج گیٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا، جس میں مختلف تعلیمی اداروں کے طلباء اور طالبات نے شرکت کی۔

پروگریسو یوتھ الائنس اس قتل کی پرزور مذمت کرتا ہے اور اسکے ذمہ داران کے اوپن ٹرائل اور درج ذیل مطالبات کے پورا ہونے تک جدوجہد کا علان کرتا ہے۔
مطالبات
1۔ ہم تمام جھوٹے بیانات اور میڈیکل رپورٹس کو رد کرتے ہیں اور اس قتل کے کیس کا اوپن ٹرائل کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں طلبہ کی منتخب کمیٹی کو اس تفتیش کا حصہ بناتے ہوئے ذمہ داران کو سزا دی جائے۔
2۔ طالبات کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے اور ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے کالج بند کرنے کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر کالج کھولا جائے اور تمام طالبات کو اس کیس کی تفتیش سے آگاہ کیا جائے۔
3۔ احتجاج کرنے والی طالبات پر تشدد کرنے والی اساتذہ کے خلاف کاروائی کی جائے۔
4۔ ہاسٹل کے انتظامات طالبات کی منتخب شدہ طالبات نمائندگان کے سپرد کئے جائیں۔
5۔ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں کم از کم ایک ڈاکٹر اور میڈ یکل سنٹر فراہم کیا جائے۔
6۔ طلبہ کے دیگر مسائل کے حل کے لیے طلبہ یونین بحال کی جائے اور تمام تعلیمی اداروں میں فوری طلبہ یونین کے الیکشن کروائے جائیں تاکہ طلبہ کے منتخب نمائندے تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.