اے پی ایس کے بچوں کا قاتل یا قومی ہیرو؟
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مشعل خان قتل کے بعد آنے والا عوامی ردعمل اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کی لہر کے نتیجے میں ریاست بری الذمہ ہونے کے لئے احسان اللہ احسان جیسے پالتو کتوں کا سہارا لے رہی ہے
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مشعل خان قتل کے بعد آنے والا عوامی ردعمل اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کی لہر کے نتیجے میں ریاست بری الذمہ ہونے کے لئے احسان اللہ احسان جیسے پالتو کتوں کا سہارا لے رہی ہے
|رپورٹ: صدیق جان| مشال خان انقلابی فرنٹ اور مشال خان شہید فورم کے زیر اہتمام گذشتہ روز چکدرہ، مالاکنڈ میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا۔ اس ریفرنس کے انعقاد میں پروگریسیو یوتھ الائنس کے کارکنان نے کلیدی کردار ادا کیا اور ریفرنس کے تمام انتظامی معاملات بخوبی سرانجام دئیے۔ تعزیتیRead More
ریلی میں طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ طلبہ نے مشال خان کے ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی، اور مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو فی الفور پھانسی دی جائے
اس اجلاس میں حکومت سے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا مضحکہ خیز مطالبہ کیا گیا۔ طلبہ تنظیموں پر پہلے ہی پابندی عائد ہے جبکہ ریاستی پشت پناہی اور انہی وائس چانسلرزاور یونیورسٹی انتظامیہ کی سرپرستی سے دہشت گرد تنظیمیں تعلیمی اداروں پر مسلط کی گئی ہیں
مشعل کی جدوجہد اور قربانی کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور یہ عزم کرتے ہیں کہ اس کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ مشعل کا قتل پولیس، فوج اور سیکیورٹی سمیت اس ٹوٹ کر بکھرتی ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے
مشال خان کی شہادت نے کمزور اور متذبذب طلبا تحریک کو ایک نئی معیاری جست لگائی ہے۔ اس نے دکھایا ہے کہ فیسوں میں اضافے سے لے کر دیگر مسائل کے حل کے لیے جرات مندی اور ثابت قدمی کے ساتھ آج بھی لڑا جا سکتا ہے