گوجرانوالہ: گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں طالبات کے مسائل

|تحریر: سحر وائیں|

26نومبر 2020 کو پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے کرونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔ اور 18 جنوری 2021 سے نویں سے بارہویں جماعت کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بلانے کا نوٹس جاری کیا گیا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نومبر میں کرونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار کم تھی اور اب جنوری میں کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے، لیکن پھر بھی حکومت نے سکول و کالج کھول دیے ہیں۔ حکومت کے مطابق اب کرونا وائرس طلبہ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

اب اسی سلسلے میں سٹی کالج برائے خواتین، گوجرانوالہ کی انتظامیہ نے واٹس ایپ پر طالبات کو میسج کیا کہ 18 تاریخ کو ہر حال میں وہ کالج آئیں۔ طالبات اگلے دن کالج پہنچیں تو پرنسپل نے کہا کہ ان سب لڑکیوں کو کالج سے باہر نکال دیا جائے۔ جب طالبات نے وجہ پوچھی تو کہا کہ آج آپ کی کلاسز نہیں ہونی اس لیے آپ کالج سے نکلیں اور اپنے گھروں کو جائیں۔ طالبات نے پرنسپل کو بتایا کہ وہ فلاں ٹیچر کے کہنے پر آج کالج آئی ہیں لیکن بعد میں وہ استانی بھی مکر گئی۔ جب طالبات نے کہا کہ ہمارے پاس نہ تو موبائل فون ہے کہ گھر والوں کو کال کر لیں اور نہ ہی گھر جانے کے لیے رکشے کا کرایا ہے تو پرنسپل نے ان کو گالیاں نکال کر ڈرانے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ طالبات نے ہار نہ مانی اور پرنسپل سے کہا کہ یا تو ان کو کرایا دیا جائے، یا گھر کال کرائی جائے۔ اگر یہ کام وہ نہیں کر سکتی تو ان کو کالج میں کھڑا رہنے دیا جائے۔ لیکن پرنسپل نے ایک نہ سنی اور طالبات کو شدید ٹھنڈ میں باہر نکال دیا۔ اور یہ بھی نہ دیکھا کہ لڑکیاں کتنی دور سے یہاں پڑھنے آتی ہیں تو اپنے گھروں میں بغیر پیسوں کے کیسے جائیں؟ اور نہ ہی یہ دیکھا کہ ہم جس غلیظ سماج میں رہ رہے ہیں جہاں ہر دو دنوں کے بعد ایک نیا ریپ کیس سامنے آ جاتا ہے، اس طرح سے کالج کی طالبات کو پہلے کالج بلانا اور پھر باہر نکال دینا سراسر ناانصافی ہے۔ اگر ان لڑکیوں کے ساتھ کچھ ہو جاتا تو یہ کس کی ذمہ داری تھی؟

یہ صرف گوجرانوالہ کے ایک کالج میں نہیں ہوا بلکہ بڑے بڑے اداروں میں بھی ہوتا ہی رہا ہے۔ جیسے کہ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین، سٹیلائٹ ٹاؤن میں ایک مرتبہ کالج کا وقت تبدیل کر دیا گیا اور طالبات کو بتایا ہی نہیں گیا۔ حالانکہ یہ گوجرانوالہ کا سب سے بڑا کالج ہے اور کالج انتظامیہ کم از کم اپنے فیس بک پیج پر ہی طلبہ کو اس بات سے مطلع کر سکتی تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، ان کے مطابق طالبات کو اس بارے کوئی خواب آنا چاہیے تھا۔ یہاں تک کہ سیکیورٹی گارڈ، جس کی گیٹ کھولنے کی ذمہ داری ہوتی ہے اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے بھی کچھ نہیں بتایا۔ اور بعد میں جب طالبات نے اپنے گھروں میں فون کرنے کی اجازت مانگی تو کہا گیا کہ ہم دس لڑکیوں کو کال نہیں کروا سکتے اس لیے سب کی سب تین گھنٹے کالج میں بیٹھ کر انتظار کریں۔ طالبات نے کافی احتجاج کیا کہ ان کو فون کرنے دیا جائے لیکن ان کی بات کسی نے نہیں سنی کیونکہ گورنمنٹ کالجوں میں یہی رواج ہے کہ، بے عزتی کی اور باہر نکال دیا۔ اگر انتظامیہ کو کوئی کچھ کہے گا تو اسے پانچ سو روپے بد تمیزی کا جرمانہ بھی دینا پڑے گا۔ اس وجہ سے کچھ لڑکیاں تو گھر والوں کے انتظار میں بیٹھی رہیں جبکہ باقی طالبات، جنہوں نے کبھی لوکل سفر نہیں کیا تھا، انہیں بھی لوکل سفر کر کے اپنے گھر جانا پڑا۔ وہ کالج کی انتظامیہ کو بتا کر گئی تھیں کہ اگر راستے میں انہیں کوئی حادثہ درپیش ہوا تو اس کی ذمہ دار کالج کی انتظامیہ ہو گی۔

اسی طرح گورنمنٹ کالجوں میں ہمیشہ رواج رہا ہے کہ بے عزت کرو اور بچوں کو چپ کرا دو۔ اگر کوئی طالبعلم آگے سے منطقی جواب دیتا ہے تو اسے پانچ سو روپے یا ایک ہزار روپے کا جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ اب کرونا وائرس کے آنے کے بعد گورنمنٹ اداروں کے اساتذہ نے طلبہ سے اپنا کافی ”جیب خرچ“ اکٹھا کیا ہے۔ کیونکہ پہلے تو صرف جرابوں، دو روٹیوں، دو کیلوں، بیگ کا سیاہ رنگ کا نہ ہونا، نیل پالش کا لگا ہونا، کالے رنگ کے جوتوں میں سفید یا کسی اور رنگ کا نشان ہونا، ویلویٹ کی جرسی پہننا اور گراؤنڈ میں بیٹھنا وغیرہ کی وجہ سے جرمانہ لیا جاتا تھا لیکن اب جس بچی نے ماسک نہیں پہنا ہوا وہ تو تیس روپے جرمانے کے طور پر دے گی ہی اور جس کا ماسک ناک سے تھوڑا سا نیچے ہے وہ بھی جرمانہ دے۔ اس کے علاوہ اگر کسی نے ”ہاتھ“ میں ہینڈ سینیٹائزر نہیں پکڑا ہوا، وہ بھی تیس روپے جرمانہ نکالے۔ اساتذہ نے یہ نہیں دیکھنا کہ طالب علم کے پاس پیسے ہیں یا نہیں ہیں، یا انہوں نے انہی پیسوں سے، جو جرمانے کی مد میں ان سے اینٹھ لیے جاتے ہیں، اپنے گھر واپس بھی جانا ہے۔ لیکن اساتذہ کو بس پیسوں سے غرض ہے یا یوں کہیے کہ اپنی جیب خرچ سے۔

پروگریسو یوتھ الائنس کا یہ مطالبہ ہے کہ گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ساتھ جتنی بھی زیادتیاں ہوتیں ہیں ان کو ختم کیا جائے اور طلبہ یونین بحال کی جائے تا کہ طلبہ اپنے حق کے لیے جدوجہد کر سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.