|تحریر: یار یوسفزئی|
انسانی ذہن عموماً دو طریقوں سے سوچ سکتا ہے۔ ایک طریقہ ہوتا ہے اپنے ارد گرد کی دنیا کو پس پشت ڈال کر خالص بناوٹی باتیں سوچنا جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو۔ دوسرا طریقہ ہوتا ہے اپنے چاروں طرف نظریں دوڑا کر مادی دنیا کو سمجھتے ہوئے سوچنا۔۔ اس علم کے ذریعے سوچنا جو انسانی سماج کی لاکھوں سالہ تاریخ اور ارتقاء کی صورت میں تشکیل پایا ہو۔ جادو، پریاں، چڑیلیں غرض جتنے بھی دیومالائی قصے ہیں وہ اول الذکر طریقے سے سوچے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد یا تو کسی کو ڈرا کر اپنا مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے یا پھر تھوڑی دیر کے لیے اپنی مادی دنیا سے اکتا کر فرار حاصل کرنا۔ جبکہ دوسرے طریقے کا استعمال مادی دنیا کو من پسند سانچے میں ڈھال کر اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کیلیے ہوتا ہے۔
یہ دونوں طریقے انسانی شعور کے ساتھ ہی وجود میں آئے۔ ایک ایسا انسان جو محض جانوروں کی طرح فوری درپیش مسائل پر ہی نہیں بلکہ آنے والے کل کی تیاری کے بارے میں بھی سوچ سکتا تھا۔ جب کسی درندے نے ابتدائی انسان کے بچے کو نوچ کر کھایا ہوگا تو غم سے نڈھال ہو کر اس نے ایک ایسی دنیا کے بارے میں سوچا ہوگا جہاں وہ دوبارہ اس سے مل کر کھیل کود کر سکے، اسے ہنسا سکے اور کھلا پلا کر اس کی پرورش کر سکے۔ مگر ہوش کے ناخن لینے کے بعد ساتھ ہی ساتھ اس نے درندوں سے بچاؤ کی تدابیر بھی ضرور سوچی ہوں گی۔ اس نے پہاڑ میں غار کھود کر نہ صرف وحشی درندوں سے بلکہ موسم کی شدت سے بھی خود کو بچایا ہوگا۔ اس نے نہ صرف اپنی حفاظت بلکہ خوراک کی خاطر شکار کرنے کے لیے بھی ہتھیار بنائے ہوں گے۔
اسی طرح سوچنے کے یہ دونوں طریقے آپس میں جڑے ہوئے بھی ہیں اور الگ الگ بھی ہیں۔ جب انسان کے مادی حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ کوئی ایسی تدبیر کر سکے جس کے ذریعے وہ اونچی فضاؤں میں اڑ پائے تو وہ پرندوں کو اڑتا دیکھ کر محض ٹھنڈی آہیں بھر سکتا تھا اور اپنی اس خواہش کو خوابوں اور خیالوں میں پورا کرتا تھا۔ مگر انسانی سماج ترقی کرتے کرتے ایسے مرحلے پر پہنچ گیا جہاں انسان نے نہ صرف سفر کے لیے ہوائی جہاز تخلیق کیے بلکہ سائنسی تحقیقات کے لیے خلائی راکٹ بھی بنا ڈالے جو اس دنیا کی حدود کو چیرتے ہوئے دوسرے سیاروں تک جا پہنچے۔
آج تک انسانی سماج نے بحیثیت مجموعی بلاشبہ ترقی کے بہت مراحل طے کیے ہیں۔ لیکن ترقی کے اس سفر میں طبقاتی عنصر بھی برابر موجود رہا۔ دو متضاد طبقے؛ حکمران اور محکوم طبقہ،اقلیتی اور اکثریتی طبقہ۔ جس کی وجہ سے انسانی محنت کے حاصل شدہ ثمر سے ساری انسانیت مساوی طور پر مستفید نہ ہو سکی اور کچھ خاص لوگ ہی حقیقی معنوں میں اس کے مزے لیتے رہے۔ اس کا نتیجہ مسلسل طبقاتی تضاد کی صورت میں نکلا۔
طبقات سے پاک دنیا کا تصور محض سوشلزم کے نظریات سے شروع نہیں ہوا۔ محکوم طبقے نے تاریخ کے کئی مراحل پر حاکموں کے خلاف بغاوت کی۔ مگر ایک غیر طبقاتی سماج قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کی بنیادیں اجتماعی ملکیت میں ہوں۔ جب نجی ملکیت کا تصور نہیں تھا اور لوگ مختلف قبائل کی صورت میں ایک ساتھ رہتے اور ایک ساتھ شکار کر کے مل کر کھاتے پیتے تھے تو طبقات کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن جب پیداوار میں اضافہ ہوا اس کے سبب یہ سوال بھی ابھرا کہ زائد پیداوار کا مالک کون ہوگا ایسے میں غلام دارانہ نظام کی صورت میں طبقات کا جنم ہوا؛ غلام مالکان اور غلاموں کا جنم۔ اس عرصے میں ایک بڑی بغاوت کی مثال ہمیں رومن غلام سپارٹکس (Spartacus) کی ملتی ہے جس نے غلاموں کی ایک بڑی فوج تیار کر کے سلطنتِ روم کے خلاف کئی سالوں تک جنگ لڑی۔ بالآخر وہ عظیم رومن فوج کا مقابلہ نہ کر سکے اور ناکامی سے دو چار ہوئے۔ ادھر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ کامیاب بھی ہو جاتے اور یکے بعد دیگرے دنیا کے ہر کونے سے غلامی کا خاتمہ بھی ہو جاتا تو کیا سماج آگے کی جانب بڑھتا یا واپس پیچھے چلا جاتا؟ اس دور کے پیداواری تعلقات غلام دارانہ تھے اور اسی کے ذریعے سماج نے ترقی کی۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ غلام داری کو صحیح قرار دیا جائے۔ بلاشبہ یہ ایک وحشیانہ نظام تھا جس میں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ مگر غلام دارانہ نظام انسانی سماج کے ارتقاء کا ایک ناگزیر مرحلہ تھا اور اس سے بغاوت کرنے والا انسان اگر ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا دیتا تو بھی اس وقت طبقات کا خاتمہ نہیں کر سکتا تھا۔ جیسا کہ مشہور فلسفی ہیگل کہتا ہے کہ ”انسان نے غلامی سے نہیں بلکہ غلامی کے ذریعے آزادی حاصل کی“۔
دنیا کی تاریخ کے مختلف مراحل میں جو بھی معاشی نظام آیا، اس کی وجہ کسی مخصوص شخص یا گروہ کی خواہش یا سازش نہیں تھی، بلکہ وہ معروضی ضرورت تھی۔ جب تک کوئی نظام اپنے دن پورے نہیں کرتا تو اس کا متبادل نافذ کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ مگر جب وہ اپنی حدود پوری کر دیتا ہے تو حکمران طبقے کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس کو قائم و دائم رکھنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے اور انقلاب کے ذریعے ایک نئے نظام کا جنم ہوتا ہے۔
جب غلام داری کا نظام دنیا کو مزید ترقی نہیں دے سکا تو اس دور کی بڑی بڑی سلطنتیں، جن کی بنیادیں غلام داری پر تھیں، لرزنے لگیں اور آخرکار ختم ہوگئیں۔ جس کے بعد جاگیردارانہ نظام کا جنم ہوا۔ جاگیرداری کے اندر چھوٹے پیمانے کی صنعت کا جنم ہوا جو بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ اس کے لیے جاگیردارانہ سلطنتوں کی حدود تنگ پڑ گئیں۔ اس وقت کئی ممالک میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوتوں اور انقلابات نے جنم لیا۔ ان میں انقلاب فرانس اور برطانیہ کا انقلاب سرفہرست ہیں۔ ان انقلابات نے جاگیرداری کو اکھاڑ پھینکا اور اس طرح ذرائع پیداوار کی ملکیت اب سرمایہ دار طبقے کے پاس آگئی۔
جب سرمایہ دار طبقہ جاگیردارانہ نظام کے خلاف لڑ رہا تھا تو وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی آزادی کی بات کرتا تھا۔ لیکن جاگیرداری کے خاتمے کے بعد چھوٹے پیمانے کے کاریگر اور دستکار سرمایہ داروں کی محکومیت میں آتے چلے گئے کیونکہ ان کے ہاتھوں کی بنی چیزیں جدید صنعت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ یوں ایک نئے مزدور طبقے کا جنم ہوا جسے پرولتاریہ کہا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے ابتداء میں کچھ ایسے مفکرین گزرے ہیں جن کو مارکس اور اینگلز نے خیالی سوشلسٹوں کا نام دیا ہے۔ یہ نجی ملکیت کو اجتماعی ملکیت میں لیے بغیر سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اصلاحات کے ذریعے سب کی برابری اور ایک نئے نظام کی بات کرتے تھے۔ مگر نظام کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے محرکات اور بنیادوں کو سمجھا جائے۔ مارکس اور اینگلز نے اسی لیے سرمایہ داری کا متبادل پیش کرنے سے قبل اس نظام کو اور اس کے معیشت دانوں کا بغور مطالعہ کیا۔ انہوں نے انسانی سماج کی تاریخ اور ارتقاء کو جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے ذریعے سمجھا۔ اس کے بعد کہیں جا کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ نظام مسلسل بحران اور طبقاتی تضادات کا شکار رہے گا جب تک کہ اس کی بنیادوں کو یعنی نجی ملکیت اور اس کے ذریعے اشیاء کی پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں نہ لیا جائے۔ اسی طرح سب کی برابری کی باتیں کرنا محض خیالی پلاؤ نہیں رہا اور لمبے عرصے کی تحقیقات کے بعد ایک سائنسی حقیقت بن کر سامنے آیا۔
آج ہمارے پاس پیداوار کے اتنے ترقی یافتہ ذرائع موجود ہیں کہ وہ ساری آبادی سے بھی زیادہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کر سکنے کے قابل ہیں۔ موجودہ نظام کے اندر یہ ذرائع پیداوار ایک مخصوص طبقے، جو سماج کی اقلیتی پرت ہے، کے قبضے میں ہیں۔ وہ انسانی ضروریات پر اپنے منافعوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ نتیجتاً زائد پیداوار کا بحران جنم لیتا ہے۔ میڈیکل اسٹورز دوائیوں سے بھرے پڑے رہتے ہیں مگر لوگ بیماری سے اس لیے مر جاتے ہیں کہ وہ انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ گودام اناج سے بھرے پڑے رہتے ہیں مگر پھر بھی لوگ فاقوں پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک طرف امیروں اور سیاستدانوں کے بچے آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں جبکہ دوسری جانب محنت کش طبقے کے بچوں کو پیٹ کی آگ بجھانے کے چکر میں بنیادی تعلیم بھی میسر نہیں آ پاتی۔
آج ہر ذی شعور پر فرض ہو چکا ہے کہ اگر وہ اس جابرانہ نظام کا خاتمہ چاہتا ہے تو اس کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ مگر محض حل کا ادراک ہو جانا ہی کافی نہیں۔ روسی انقلابی لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ کوئی بھی شیطان اپنے پنجے خود نہیں کاٹتا۔ ایک نئے کل کی خاطر، جس میں اس نظام کے وحشی پن کا خاتمہ ہو، کے لیے مستقل اور ثابت قدم جدوجہد کی ضرورت پڑے گی۔ اس جدوجہد کو منظم کرنے کیلئے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی ناممکن ہے۔ آج تک کے انقلابات کی تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اگر ایک منظم انقلابی پارٹی موجود نہ ہو تو بڑی بڑی تحریکیں اپنی حتمی منزل یعنی سوشلسٹ انقلاب تک نہیں پہنچ پاتیں۔