الزام: ”سوشلزم فرد کی آزادی سلب کر لیتا ہے“ کا جواب

|تحریر: پارس جان|
]یہ اقتباس سہ ماہی میگزین لال سلام کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”سوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“ سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔[

اس اعتراض کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سوشلزم اجتماعیت کا نظام ہے، لہٰذا اجتماعیت کی آڑ میں فرد کے مفادات کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دار ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے والے طبقے کے طور پر تاریخ کے میدان میں جو جھنڈا اٹھائے داخل ہوئے تھے اس پر جلی حروف میں یہی نعرہ درج تھا ’فرد کی آزادی‘۔ لیکن آبادی کی بھاری اکثریت کو آلاتِ پیداوار کی ملکیت سے یکسر محروم کر دینے کے بعد فرد کی یہ آزادی عملاً سماج کی چھوٹی سی اقلیت پر مشتمل افراد کی باقی ماندہ افراد کی اکثریت کا استحصال کرنے اور ان کی محنت کو لوٹنے کی بلا روک ٹوک آزادی بن کر رہ گئی۔ اپنی قوت ِمحنت بیچنے کی ’آزادی‘کی آڑ میں پرولتاریہ طبقے کو بحیثیتِ مجموعی اپنی ہی پیداوار کے تصرف، ملکیت اور حتیٰ کہ شناخت سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس لیے، اس سے قبل کہ ہم جائزہ لیں کہ آیا واقعی سوشلزم فرد کی آزادی کا دشمن ہے، پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ تین سو سالہ تاریخی مسافت طے کرنے کے بعد کیا سرمایہ دارانہ نظام میں آج فرد واقعی آزاد ہے؟ مارچ 2023ء کی عالمی سامراجی ادارے ورلڈ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق عالمی غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور 6.85 ڈالر یومیہ سے کم کمانے والے افراد کی تعداد 46.9 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس میں 2019ء کے بعد سے 44 ملین لوگوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 23.6 فیصد لوگ تو 3.65 ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں۔ یوں دنیا کی لگ بھگ آدھی آبادی تو محض چلتی پھرتی لاشوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اپریل 2023ء کی یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 6 سے 18 سال کی عمر کے 244 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اس طرح کے بے شمار اعداد وشمار دیے جا سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن افراد کو دو وقت کا کھانا کھانے، تعلیم حاصل کرنے، علاج کرانے اور مناسب چھت کے حصول کی آزادی نہ ہو، کیا انہیں مٹھی بھر افراد کی سارے کرۂ ارض کی سیر و تفریح، جزائر کی خرید و فروخت، سمندروں اور پہاڑوں کی تسخیر کی آزادی کا جشن منانا چاہیے یا محرومی اور لاچاری کی اساس پر انفرادی کی بجائے متحد ہو کر اجتماعی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے؟ کوئی بھی شخص جس کی آنکھوں پر ہوس اور چاپلوسی کی پٹی نہ بندھی ہو اس کا جواب یقیناً آخرالذکر ہی ہو گا۔ یعنی انفرادی نہیں اجتماعی آزادی۔ فرد کی بقا کے لیے الگ الگ لڑائی نہیں بلکہ دو فیصد اشرافیہ کے خلاف طبقاتی جدوجہد۔
زیادہ باریک بین انفرادیت پسند سوال کریں گے کہ جناب یہ بتائیے کہ سوشلزم میں اگر کوئی شخص اپنی ’محنت‘ کی کمائی سے بڑی گاڑی، بنگلہ یا جزیرہ وغیرہ خریدنا چاہے تو کیا اسے آزادی ہو گی؟ تو ہمارا جواب ہو گا ہرگز نہیں۔ دراصل یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات موجودہ حالات اور ان سے منسلک شعور کی پیداوار ہیں۔ کسی بھی شخص کو بڑی گاڑی یا گھر دو وجوہات کی بنا پر چاہیے۔ اول تو یہ کہ غیر معیاری پبلک ٹرانسپورٹ کے باعث لوگ وقت کے ضیاع اور جسمانی مشقت سے بچنے کے لیے اپنی ذاتی آرام دہ ٹرانسپورٹ رکھنے کو پسند کرتے ہیں اور چونکہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں عموماً افراتفری اور انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے، اس لیے بڑا اور پُرسکون گھر جس میں بڑا سا دالان، باغیچہ یا سوئمنگ پول وغیرہ ہو، ذہنی اور جسمانی استراحت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دوسری وجہ زیادہ اہم ہے جو پہلی بیان کردہ وجہ کو غیر متعلقہ بنا دیتی ہے۔ وہ ہے سٹیٹس سمبل یا احساسِ برتری۔ سرمایہ دارانہ مسابقت میں ہر شخص دوسرے سے زیادہ کامیاب نظر آنے کی کوشش میں نمبر ون بننے کی دوڑ میں لگا رہتا ہے، اپنی جسمانی اور ذہنی استراحت سے زیادہ دوسروں کو پسپائی اور احساسِ محرومی میں مبتلا کر کے خود کو تسکین دینا آج ہر شخص کا عمومی نفسیاتی معمول بن چکا ہے، اس لیے امیر سے امیر تر اور پھر امیر ترین بننے کی خواہش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ یہی و جہ ہے کہ کار، بنگلہ یا اس طرح کی تمام اجناس درحقیقت اس سماجی رتبے کا اظہار ہیں۔ اب ایسا معاشرہ تصور میں لایئے جہاں سماجی رتبے کا تعین کموڈٹیز یعنی اجناس کے تصرف کی بجائے علم و تحقیق یا سماجی افادہ میں ادا کیا گیا کردار بن جائے تو کیا بڑا گھر اور بڑی گاڑی کی ہوس برقرار رہ پائے گی۔ ہرگز نہیں اور دوسری طرف جب ریاست خود جدید ترین اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ ہر شخص کو گھر کی دہلیز پر مہیا کرے گی اور ایک پُرامن معاشرے کا قیام یقینی بنایا جائے گا تو ظاہر ہے کہ نجی ٹرانسپورٹ کی ضرورت اور اہمیت ختم ہو جائے گی۔ جب سارا جہان، پہاڑ، میدان اور سمندر اجتماعی تصرف کے لیے دستیاب ہوں گے تو نجی جزیرہ خریدنے کی تمنا ہی دم توڑ دے گی۔ غرضیکہ مصنوعی مانگ اور قلت کا خاتمہ اس مسابقت کی نفسیات کو ہی ختم کر دے گا جس کی بنیاد پر سوشلزم پر اس قسم کے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ پلک جھپکتے ہی ممکن نہیں ہو گا، اس کے لیے ایسی مزدور ریاست درکار ہو گی جو پیداواری قوتوں کی ترقی اور دستیاب وسائل کی بنیاد پر منصوبہ بندی کے ذریعے اس منزل کے سفر کے مراحل کو آسان اور تیز تر بنانے کا فریضہ ادا کرے گی۔
یوں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے لیے جہاں فرد کی حقیقی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے، ہمیں ایک ایسا عبوری دور درکار ہو گا جہاں چند افراد کی دوسروں کا استحصال کرنے کی آزادی کو سلب کر دیا جائے، اسے کارل مارکس نے کمیونزم کا پہلا یا نچلا مرحلہ (یعنی سوشلزم) قرار دیا تھا۔ اگر حقیقت پسندانہ اور دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو عملیت پسندانہ نقطہِ نظر سے بھی آزادی کے مجرد تصور کی بجائے قابلِ عمل نجی یا انفرادی آزادی سماجی آزادی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے پر ہجوم محلے میں آدھی رات کو کوئی شخص لاؤڈ سپیکر لگا کر اپنی مرضی کی موسیقی سننے کی خواہش میں سارے محلے کی نیند خراب کر کے اسے اپنی انفرادی آزادی قرار دے گا تو بہرحال سماجی ردِ عمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس لیے ایک فرد کی آزادی کو بہرحال بنی نوعِ انسان کی آزادی کے تابع رہ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ہیگل نے وضاحت کی تھی کہ آزادی درحقیقت جبر سے فرار نہیں بلکہ جبر کے شعور کے مرہون ِمنت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.