|تحریر: شاہ نواز|
چند روز پہلے سال 2021-22ء کے لئے محنت کش دشمن اقتصادی بجٹ پیش کیا گیا جس نے اب محنت کش طبقے کی زندگیوں پر خوف ناک اثرات دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ اس بجٹ میں ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کی خاطر خواہ رقم سرمایہ دارانہ قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کیلئے مختص کی گئی ہے، نیز دفاع کے لئے ایک بہت بڑی رقم مختص کی گئی ہے جبکہ محنت کش طبقے کو سہولیات دینے کی بجائے نئے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبانے کے منصوبے تیار کیے گئے ہیں اور سرکاری اداروں کی نجکاری کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
بالخصوص شعبہ تعلیم کے حوالے سے ریاست کے پاس صرف ایک ہی منصوبہ ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر اسے سرمایہ داروں کو بیچ دیا جائے۔ اقتدار کے آغاز سے ہی حکومت کی تعلیم اور طلبہ دشمن پالیسیاں واضح نظر آرہی ہیں۔ ہر سال تعلیم کا بجٹ مطلوبہ رقم سے کم مختص کیا جاتا ہے اور اس سال بھی بجٹ میں تعلیم کے لیے 108 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پہلے ہی سے پاکستان کے معذور تعلیمی نظام سے لاٹھی چھین لینے کی مترادف ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان تعلیم پر بجٹ کا سب سے کم حصہ خرچ کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیلئے اعلیٰ تعلیم کا حصول آج ایک خواب بن چکا ہے، اور اگر یہ سلسلہ اسی رفتار سے چلتا رہا تو واضح طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں سرکاری تعلیم کا شعبہ سرے سے اپنا وجود ہی کھو بیٹھے گا اور پھر صرف اور صرف تعلیم کا دھندا کرنے والے پرائیویٹ ادارے ہی باقی بچیں گے۔
تعلیم سے فارغ کرنے کا سلسلہ لمبے عرصے سے جاری ہے جس کی ایک مثال جامشورو کی سندھ یونیورسٹی کی فیسوں میں 30 فیصد کا اضافہ ہے۔ فیسوں میں اس اضافے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکمران طبقہ عام عوام کو تعلیم فراہم کرنے کیلئے بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے اور محنت کش طبقے پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کر رہا ہے۔
جامشورو کی سندھ یونیورسٹی ایک ایسی اہم یونیورسٹی ہے جہاں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں طلبہ کی اکثریتی تعداد سندھ کے محروم علاقوں سے آتی ہے۔ شدید ترین معاشی بحران کی صورت حال میں فیسوں میں ہونے والا حالیہ اضافہ غریب طلبہ کے سر پر بجلی بن کر گرا ہے۔
سندھ یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے کے خلاف مسلسل تین روز سے مظاہرے کیے جارہے ہیں جبکہ انتظامیہ کان تک نہیں دھر رہی اور یونیورسٹی انتظامیہ حکومت کو اس سب کا ذمہ دار کرار دے کر خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے رہی ہے، اور تا حال طلبہ فیسوں میں ہونے والے اضافے کے فیصلے کے مکمل طور پر رد ہونے کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نیز فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کی خود رو تحریک کے اُبھرنے کے خوف سے اور اپنی تباہ شدہ سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے ایک دفعہ پھر مختلف روایتی تنظیمیں مصنوعی طور پر اپنے آپ کو اس تحریک کی قیادت میں لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی ضمن میں سندھ سٹوڈنٹس کمیٹی تشکیل دی گئی مگر یہ اتحاد ابھی سے مختلف تنظیموں کی آپسی چپقلشوں کا شکار ہونے لگا ہے، جو غیر نظریاتی اتحاد ہونے کے وجہ سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ تمام تر عمل طلبہ کی جدوجہد کو درست بنیادوں پر منظم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
وہیں اساتذہ اور انتظامیہ بھی طلبہ کو لعن طعن کرنے میں مشغول ہیں۔ عرفانہ ملاح، جو کہ سندھ یونیورسٹی میں ٹیچر ہونے کے ساتھ سندھ یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن میں عہدیدار بھی ہے، بڑی بے شرمی سے یہ کہہ کر فیسوں میں اضافے کا ذمہ دار طلبہ کو قرار دے رہی ہے کہ ”جب بجٹ میں سندھ یونیورسٹی کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا تھا تو تب سب خاموش تھے، اب یونیورسٹی کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے فیسوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ یونیورسٹی کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے“۔
موجودہ احتجاجی تحریک میں طلبہ کی درست قیادت کا فقدان ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ طلبہ یونین پر اب بھی پابندی عائد ہے، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کیا کیا جانا چاہئیے؟
طلبہ اور محنت کشوں کو اس بات پر واضح ہونا ہوگا کہ یہ ریاست حکمران طبقے کے حقوق کا محافظ ادارہ ہے اور اس کو محنت کش عوام کی تعلیم و تربیت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ نیز یہ تعلیمی ادارے لوٹ مار کی فیکٹریاں ہیں۔ لہٰذا اس لوٹ مار کے خلاف لڑنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ طلبہ متحد اور منظم ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ جب تک فیسوں میں اضافہ مکمل طور پر واپس نہیں لے لیا جاتا، سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کو نا صرف جدوجہد جاری رکھنی چاہئیے بلکہ اس کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو ان تمام طلبہ دشمن عناصر کو احتجاجی تحریک سے علیحدہ کرتے ہوئے خود منظم ہونا ہوگا۔ اسی طرح طلبہ اتحاد کی بنیاد پر ملک گیر سطح پر اپنی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی جہاں فیصلہ سازی کا حق طلبہ کے پاس ہوگا اور اس طرح مفت تعلیم کے حصول، طلبہ یونیز کی بحالی اور حتیٰ کہ اس نظام کے خاتمے تک جدوجہد تیز کرنا ہوگی۔
سندھ یونیورسٹی جامشورو میں فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کی احتجاجی ریلی کی مکمل رپورٹ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔