|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ|
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے سندھ کے مختلف شہروں میں ”پاکستان کے موجودہ بحران پر سوشلسٹ تناظر“ کے عنوان سے لیکچر پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔ سندھ بھر سے ان پروگراموں میں طلبہ اور نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی۔ ان لیکچر پروگراموں کا آغاز 15 مئی کو خیرپور میرس سے کیا گیا، اسی سلسلے میں نوشہروفیروز، حیدرآباد، ٹنڈو جام اور ٹنڈو محمد خان اور سجاول میں پروگرام منعقد کئے گئے۔ طلبہ اور نوجوانوں نے ملک سیاسی و معاشی سے نجات حاصل کر نے کے لیے سوشلزم کے انقلابی نظریات میں دلچسپی کا اظہار کیا اورانقلابی لٹریچر بھی خریدا۔ کئی نوجوانوں نے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنے کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کی ممبرشپ کا اعلان کیا۔
خیرپور میرس
اس سلسلے کا پہلا لیکچر 15 مئی بروز پیر کو شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور میرس کے بوائز ہاسٹل میں منعقد کیا گیا۔ جس کو کامریڈ ناصر شر نے چیئر کیا جبکہ عالمی مارکسی رجحان پاکستان کے مرکزی رہنما کامریڈ پارس جان نے تفصیلی طور پر سرمایہ داری کے نامیاتی بحران، امریکی سامراج کے رلیٹو زوال اور بکھرتے ورلڈ آرڈر سے گفتگو کا آغاز کیا۔ انہوں نے مزید کہا کے ماضی میں پاکستانی ریاست کو سامراج نے اس خطے میں اپنے سامراجی عزائم کو جاری رکھنے کے لئے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ بنا رکھا تھا لیکن اب طاقتوں کا توازن تبدیل ہوچکا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی شدت کے باعث جب ورلڈ آرڈر بکھر کر ٹوٹنے لگا ہے۔ امریکی سامراج کی پالیسیز میں بھی شفٹ آیاہے اور امریکا کو اس خطے میں پاکستانی ریاست کو پالنے کی ضرورت کم سے کم تر ہو چکی ہے۔ جس کے باعث اس ریاست کو ڈالردینا بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستانی سیاستدان اور معیشت دان بوکھلاہت کا شکار ہوچکے ہیں۔ معیشت دیوالیہ ہوچکی ہے بس اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ہی اس بحران سے نجات دلا سکتا ہے۔
اس بعد شرکاء کے سوالات کے جواب دیے گئے۔
نوشہرو فیروز
اگلے روز 16 مئی کو نوشہرو فیروز میں سجاگی اسٹڈی سرکل کے تعاون سے لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام کو چیئر شبانا پیرزادہ نے کیا جبکہ کامریڈ پارس جان نے موجودہ نظام کے بحران اور با الخصوص پاکستانی ریاست پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹیلیوژن پر محنت کش عوام کو محض سیاستدانوں کی آپسی نورا کشتی ہی دکھائی جارہی ہے اور ایک مایوس کن ماحول بنایا جارہا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں طلبہ، نوجوانوں، کسانوں اور محنت کشوں کی دشمن ہیں۔ حکمرانوں کی طرف سے سارے بحران کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ریاست درحقیقت مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ ہے، جس کو تمام مظلوم اقوام طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر ختم کرنا ہوگا۔
حیدرآباد
17 مئی کو حیدرآباد میں پی وائی اے کے آفس میں پروگرام منعقد کیا گیا، جس میں مختلف اداروں کے محنت کشوں اور طلبہ نے شرکت کی۔ اس پروگرام کو مجید پنہور نے چیئر کیا۔ اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کامریڈ پارس جان نے کہا کہ اس وقت سیاسی افق پر جاری اس ڈرامے کو دیکھ کر دائیں سے لیکر بائیں تک ہر جانب نئے تناظر تخلیق کیئے جارہے ہیں۔ کل تک بائیں بازو کے بھگوڑے، جو تحریک انصاف کی صورت میں فاشزم کے ابھار کا تناظر تخلیق کر کے لبرلز کے ساتھ جا ملے تھے، ان کو بھی اچانک تحریک انصاف پر اپنے ہی آقاؤں کی جانب سے لات پڑنے پر مروڑ سی آئی ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بائیں بازو کو تحریک انصاف کے نوجوان سنجیدہ سیاسی کارکنان پر تشدد اور ملٹری ٹرائلز کی مذمت کرنی چاہیے، اور ان کو سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں کی آپسی لڑائی میں استعمال ہونے کی بجائے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھنکنے اور متبادل نظام سوشلزم کی کی تعمیر کی جدوجہد میں شامل ہونے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔
ٹنڈو جام
اسی سلسلے کا اگلا پروگرام 18 مئی کو سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام میں منعقد کیا گیا جسے کامریڈ مرتضیٰ نے چیئر کیا۔ لیکچر کے آغاز میں کامریڈ پارس جان طلبہ سیاست کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کے کیمپس کی سیاست ہی وہ نرسری ہے جہاں طلبہ اپنی جدوجہد کے ذریعہ سیکھتے ہیں اور نظریات کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمیں یہ یقین کر لینا چاہیے کہ اس ریاست و نظام کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہے، جسے اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریاست وہ ٹائر ٹیوپ بن چکی ہے جس کو مزید پنکچر لگا کر نہیں چلایا جاسکتا۔ انہوں نے یونیورسٹی میں موجود سیکیوٹی اداروں کی موجودگی کی مذمت کی اور تمام طالب علموں سے مارکسزم کے نظریات سے لیس ہو کر طبقاتی بنیادوں پر اس نظام کے خلاف مل کر لڑائی لڑنے کی اپیل کی۔
ٹنڈو محمد خان
اس سلسلے کا پانچھواں لیکچر پروگرام 19 مئی کو ٹنڈو محمد خان میں منعقد کیا گیا۔ جسے اسامہ ٹالپر نے چیئر کیا۔ اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کامریڈ پارس جان نے تفصیلی طور عالمی سرمایہ داری کے تضادات، بحران، سامراج اور اجارہ داریوں پر بات کی اور تیسری دنیا میں انقلاب کے تناظر پر بھی بات کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ حکمران اتنے اہل ہیں کہ وہ کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا کر سکیں اور نہ ہی مظلوم قومیتوں کی قوم پرست پارٹیوں کے پاس ایسا نظریاتی پروگرام اور لائحہ عمل ہے، جس کہ ذریعے وہ اس ریاست سے علیحدہ ہوکر جدید اقوام میں تبدیل ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی لینن ازم ہی وہ نظریاتی میراث ہے جس کے ذریعے یہاں قومی و طبقاتی جبر کا خاتمہ اور ایک رضاکار سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جاسکتی ہے۔
سجاول
اس سلسلے کا آخری پروگرام سجاول کے شہر دڑو میں ریڈ ورکرز فرنٹ اور پی وائی اے نے مشترکہ طور پر 20 مئی بروز ہفتہ کو منعقد کیا جسے کامریڈ رشید آزاد نے چیئر کیا۔ اپنے لیکچر کے آغاز میں کامریڈ پارس جان نے سجاول اور دڑو شہر میں ریاستی پشت پناہی میں جاری منشیات فروشی کے خلاف جاری تحریک کو سراہا۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ریاست اپنے جنم سے ہی ایک سیکیورٹی اسٹیٹ رہی، جو سامراجی ڈالروں پر پلتی، پھلتی اور پھولتی رہی۔ یہاں کی سول و ملٹری اشرافیہ نے بیرون ممالک کھربوں ڈالرز کے جزیرے اور کمپنیاں خریدیں، مگر اس ملک میں کوئی انڈسٹری نہیں لگا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنی تاریخی تاخیر زدگی کے باعث یہاں کے حکمران طبقات ہمیشہ سے خصی اور اپنے سامراجی آقاؤں کے کمیشن ایجنٹ رہے ہیں، اسی لئے وہ پاکستان کو ایک جدید انڈسٹریل ملک تو نہ بنا سکے مگر یہاں کی زراعت کو ہی مکمل طور پر برباد کر کہ رکھ دیا گیا۔ کامریڈ پارس جان نے مزید کہا کہ ہتھیاروں اور منشیات پر چلنے والی اس کالے دھن کی معیشت کو مزید اس طرح سے نہیں چلایا جاسکے گا۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دہشتگردی اور بربریت سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے جس کے لئے پاکستان کے محنت کشوں نے یک مشت ہوکر اس نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔