|از: خالد اسراں، کتاب: سر بریدہ سائے|
وہ باکمال مصور تھا اس کی تصویریں زندہ تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ حرکت کرتی ہیں، سوچتی ہیں۔ غم، حزن و ملال کو تصویروں میں اتارنے میں اسے خاص ملکہ حاصل تھا۔ اس کی تصویروں میں زندگی تھی۔ وہ ہنستی مسکراتی تھیں۔ ان کے ہونٹ ہلتے تھے گویا بولتی تھیں۔ ان کی انکھوں میں آنسو آتے تھے، گویا روتی تھیں۔ وہ ظاہر سے زیادہ باطن کی تصویر کشی کرتا تھا۔ خدا نے اس کو پردے کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت دی تھی۔ اس کی تصویر ظاہر سے باطن کی طرف سفر کرتی تھی۔ وہ بظاہر کسی کے ظاہر کی تصویر کشی کرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ تصویر اپنا رنگ خود بخود بدل لیتی تھی۔ آخر میں صاحب تصویر کا مکمل باطن ظاہر ہو جاتا تھا۔
وہ خوف کی بھی بہت خوبصورت عکاسی کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا ”جو چیز انسان کے اختیار سے باہر ہو وہ خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انسان اس دنیا میں نہ اپنی مرضی سے آتا ہے’نہ جاتا ہے‘ اس لیے ہمیشہ خوف میں مبتلا رہتا ہے۔۔۔ نامعلوم منزلوں کا خوف۔۔۔ فنا کا خوف۔۔۔ فنا اور بقا کے درمیان سفر کرتا خوف۔۔۔ میں اس خوف کی عکاسی کرتا ہوں“۔ وہ اس باطن کی عکاسی کرتا تھا جسے لوگ چھپانا چاہتے تھے۔ وہ مقدس پردوں کے پیچھے چھپی خباثت کی تصویر کشی کرتا تھا۔
ایک دن اس نے قاضئ شہر کی تصویر بنا کر چوک میں لگائی۔ کالے لباس میں ملبوس، ہاتھ میں انصاف کا ڈنڈا پکڑے۔ بہت خوبصورت تصویر بنی تھی۔ چندہی دنوں میں تصویر نے باطن ظاہر کر دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ قاضی کے ہاتھ میں ڈنڈے کے بجائے اشرفیاں تھیں اور وہ مکمل بے لباس ہو چکا تھا۔ کالا لباس اتر چکا تھا۔ اس کے انصاف کا شکار ہونے والے لوگ اس کا یہ باطن جانتے تھے لیکن آج سب لوگوں نے دیکھ لیا تھا۔
کوتوالِ شہر کی تصویر بنائی۔ ہاتھ میں لمبی تلوار تھامے، خوبصورت لباس زیب تن کیے وہ مسکرا رہا تھا۔ اگلے دن تصویر کے ہاتھ سے تلوار غائب تھی۔ جیبیں رشوت کے پیسوں سے بھری ہوئی تھیں۔ لباس پر جابجا مظلوموں کے خون کے چھینٹے تھے۔
اس کی شاہکار تصویر ایک مزدور کی تصویر تھی جو ہاتھ ریہڑی چلاتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ اگلے دن ظاہری مسکراہٹ تصویر سے غائب ہو گئی اور اس کے پیچھے چھپا ہوا کرب ظاہر ہو گیا۔ ایسا کرب کہ جس نے دیکھا دھاڑیں مار مار کر رویا۔
ایک تصویر میں ایک امیر شخص خیرات تقسیم کر رہا تھا اور غریب لوگ قطار میں کھڑے تھے۔ اگلے دن تصویر کا منظر بدل گیا۔ غریبوں کے چہروں سے دل دہلا دینے والی بے بسی مترشح تھی اور اس امیر کے چہرے پر بڑی شاطرانہ، مکروہ اور فاتحانہ مسکراہٹ ثبت تھی۔ جیسے وہ غریبوں کی بے بسی کا مذاق اڑا رہا ہو۔
اس کی تصویروں کی دھوم ہر جگہ پھیل گئی تھی۔ شہر کے بڑے چوک میں لگی اس کی تصویریں دیکھنے کے لیے لوگ دور دراز سے آتے تھے۔ درباری، امراء اور وزراء اپنے کرتوت جانتے تھے۔ اس لیے وہ مصوِر کو دھمکی آمیز پیغامات پہنچا رہے تھے کہ ان کی تصویریں بنانے سے باز رہے۔شہر کے بڑے تاجروں نے تو اسے خفیہ پیغامات بھیجوائے تھے کہ اگر وہ ان کی تصویر نہ بنانے کی ضمانت دے تو اسے رشوت میں اچھی خاصی رقم دی جائے گی لیکن مصور نے ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔
مفتی شہر کی تصویر نے تو دھوم مچا دی تھی۔ سر پر عمامہ، لمبی داڑھی اور سفید لباس زیب تن کیئے مفتی فرشتہ نظر آرہا تھا۔ لوگ مفتی کے پرنور چہرے کی تعریف کر رہے تھے لیکن تیسرے دن تصویر تبدیل ہونا شروع ہو گئی اور باطن سامنے آنے لگا۔ مفتی کی تصویر سے دستار اور داڑھی غائب ہو گئی۔ چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ لوگ نیک دل مفتی کا اصل چہرہ دیکھ کر چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔ کچھ چہروں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی اور شرمندگی کی وجہ سے مفتی دربار سے غائب ہو گیا تھا۔
دوہرے کردار والا منافق معاشرہ مصور سے خوفزدہ تھا۔ ہر کوئی اپنے باطن کے ظاہر ہونے سے خوفزدہ تھا۔ سب نے اصلی چہروں پر مصنوعی چہرے لگا رکھے تھے۔ مصور اصلی چہروں کی تصویر کشی کر رہا تھا۔ وہ بادشاہ اور ملکہ کی تصویر بنانا چاہتا تھا لیکن بادشاہ نے سختی سے منع کر دیا۔ وہ شہر کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کی تصویر بنا رہا تھا کہ اس کے مریدوں کو خبر ہو گئی۔ انہوں نے حملہ کر دیا، مصور کو مارا پیٹا اور اس سے رنگ چھین کر لے گئے۔
اگلے دن ہی بادشاہ کے مشورے سے مفتی صاحب نے فتوی جاری کر دیا کہ تصویر بنانا حرام ہے لیکن مصور نے پھر بھی اپنا کام جاری رکھا۔
آخر کار اس پر مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ دربار میں اس پر مقدمہ چلا اور اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔
منافق معاشرہ سچ کہاں برداشت کر سکتا تھا۔
مصور کو قتل کر دیا گیا اور پھر شہر نے مصور کی لاش شہر کے بڑے چوک میں عبرت کے لیے لٹکی ہوئی دیکھی۔
اس کے چہرے پر پرسکون مسکراہٹ تھی اور منہ میں گلاب کی پتیاں۔ خدا جانے یہ پتیاں کہاں سے آئی تھیں۔
لوگوں نے دیکھا کہ اس کی انکھوں سے روشنی نکل کر آسمان کی طرف جا رہی تھی۔