|تحریر: زینب |
برطانوی مارکسی رہنما ایلن ووڈز نے کہا تھا کہ تاریخ غیر جانبدار نہیں ہوتی ہے اور خاص طور پر انقلابات کی تاریخ تو بالکل بھی نہیں۔ نصاب میں پڑھائی جانے والی مدرسانہ تاریخ حکمران طبقے کی ہے جس میں حکمران طبقے کی شخصیات کے کردار، ذاتی افعال اور محلاتی سازشوں کو ہی اصل تاریخ بتایا جاتا ہے جبکہ سماج میں کروڑوں محنت کشوں کے وجود اور ان کی جدوجہد کو دانستہ طور پر تاریخ سے مٹا دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر انقلابات کی تاریخ کو تو ایسے غائب کیا جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کیونکہ حکمران انقلاب کی یادداشت سے بھی کانپتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ نئی نسل ماضی میں ان کے بزرگوں کی طرف سے کی گئی لازوال جدوجہد کو جانے اور اس سے سبق حاصل کرے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ جمہوریت، آئین اور آمریت کی لایعنی بحثیں، پارلیمانی جدوجہد، جرنیلوں اور سیاسی شخصیات کا حد سے بڑھا ہوا کردار اور کشمیر کی آزادی اور ہندوستان دشمنی۔ پاکستان کی نصابی اور سرکاری تاریخ میں یہاں کی اکثریت یعنی محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کی نڈر جدوجہد کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ سماج کی انقلابی تبدیلی میں سرگرم سیاسی کارکنان اور نوجوانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ نئی نسل کے سامنے مملکت خداداد کی حقیقی تاریخ سامنے لائیں جسے ان ظالم حکمرانوں نے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
ہم اس تحریر کو 1968ء کے انقلاب کے دوران طلبہ اور نوجوانوں کے انقلابی کردار کی تاریخ تک محدود رکھیں گے۔ 1969-1968ء کے پاکستان کے انقلاب کے متعلق کسی کی جو بھی رائے ہو، اس کی تاریخی و سیاسی اہمیت پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ اس سے عوام الناس کے شعور کو ایک ذی اثر اور جاندار نیا تحرک ملا تھا جس کی تھرتھراہٹ آج ایک بار پھر طلبہ اور مزدوروں کی سیاست کے میدان میں محسوس کی جارہی ہے۔ بلکہ حقیقت میں حکمران طبقہ انقلابات اور طلبہ و محنت کش طبقے کی متحدہجدوجہد سے خوفزدہ اور اس کو زائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے۔ اپنے کرائے پر لیے ہوئے دانشوروں، ملاؤں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کے ذریعے حکمران طبقہ محنت کش طبقے کی یادداشت سے 1969-1968ء کی عوامی تحریکوں اور اس سے انقلابی عنصر کی ہر علامت طلبہ اور نوجوانوں کے شعور سے مٹا ڈالنے کی بھرپور کوشش میں لگا ہوا ہے۔ آج بھی اس انقلاب کو ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف محض جمہوریت کی بحالی کی جدوجہدکے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بائیں بازو کی پارٹیاں بھی اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے پاکستانی سماج کی تاریخ کے اس اہم موڑ کو نظرانداز کرتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ روسی انقلابی لیون ٹراٹسکی نے کہا تھاکہ ”نوجوان محنت کشوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کل اور اپنے طبقے کے کل کو یاد رکھیں“۔
یہ انقلاب اچانک سے نہیں پھٹا تھا بلکہ سماج میں سطح کے نیچے پنپنے والے تضادات کا نتیجہ تھا۔ یہ نسل 1947ء کے ردِ انقلاب سے بھی گزری تھی۔ 1953ء میں بھی طلبہ کی ایک قابلِ ذکر تحریک دیکھنے کو ملتی ہے۔ 7 جنوری 1953ء کی تحریک ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کی قیادت میں ”ڈیمانڈز ڈے“ کی صورت میں شروع ہوئی جس نے کراچی کے نوجوانوں کو بہتر تعلیمی سہولیات کے ساتھ ایک بڑی یونیورسٹی کی حاصلات جیت کر دیں۔ 50ء کی دہائی میں ڈی ایس ایف ملک کے ہر کیمپس میں اپنی بنیاد بنا چکی تھی اور اس نے ترقی پسند طلبہ کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کی تھی۔ ریاست پاکستان ہمیشہ سے امریکی سامراج کی کٹھ پتلی تھی اور یہاں کے عوام کے سوویت یونین کے نقش قدم پر چلنے کے امکان کے خوف سے 1954ء میں اس نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں ڈی ایس ایف پر خود کار طریقے سے پابندی عائد ہوگئی، جس سے کافی طلبہ رہنماؤں کو ان کی سرگرمیوں کے سبب گرفتار بھی کرلیا گیا۔ اس کے بعد پے در پے طلبہ کے احتجاج اور اور تحریکیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور 1968ء کے انقلاب میں بھی طلبہ نے بہت اہم کردار ادا کیا جس نے ایوب آمریت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
جنرل ایوب کی فوجی آمریت کو پاکستان کی تاریخ میں تیز ترین ”ترقی“ کی دہائی آج بھی کہا جاتا ہے۔ ایوب آمریت پچھلے دس سالوں سے راج کر رہی تھی اور امریکہ اور برطانیہ جیسی وحشی سامراجی طاقتوں کی جانب سے بڑے زور و شور سے مالی اور سیاسی امداد حاصل کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ چینی بیوروکریسی کی حمایت نے جنرل ایوب خان کی بیوروکریٹک فوجی آمریت کو ترقی پسند لباس بھی پہنا دیا تھا۔ عبدالحمید بھاشانی اسی نظریہ کے تحت انتہائی اہم موقع پر تحریک کی قیادت چھوڑ کر کشتی میں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ جہاں ایوب آمریت 22 خاندانوں کے لیے ”تیز ترین ترقی“ کا زینہ بنی، وہیں پاکستانی سماج میں طبقاتی خلیج تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور محنت کش طبقے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا تھا۔ پاکستان کا دیو ہیکل معاشی اور معاشرتی بحران، جو کہ عوام اور بالخصوص محنت کش طبقے کے شعور پر معیاری نقوش چھوڑے جا رہا تھا، پر ایوب خان نے طاقت، اصلاحات، جنگی جنون الغرض ہر طریقے سے پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ غریب اور امیر کے درمیان تقسیمبڑھتی جا رہی تھی۔ اس دوران ملک کا حکمران اور سرمایہ دار طبقہ دولت جمع کر رہا تھا اور اس میں مزید اضافہ کررہا تھا۔ دوسری طرف پاکستان کے محنت کش عوام ریاستی جبر، نظام کے استحصال، فوجی آمریت کا ظلم اور بڑھتی ہوئی غربت کے اندھیرے کی دسویں سالگرہ منا رہے تھے۔
1968ء کے شروع کے مہینوں سے ہی پورے پاکستان، مشرق سے لے کر مغرب تک، کو انقلابی تحریکوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا، جس میں سماج کی ہر پرت بڑے پیمانے پر سیاسی میدان میں شامل ہونے لگی تھی۔ جیسا کہ عظیم انقلابی رہنما لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ نوجوان درخت کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں جو طوفان میں سب سے پہلے تحرک میں آتے ہیں۔ یعنی ہر انقلاب پہلے نوجوانوں میں ہلچل پیدا کرتا ہے۔ انسانی تاریخ کے کئی انقلابات کی طرح، پاکستان میں 69-1968ء کے انقلاب کو بھڑکانے والی سب سے پہلی چنگاری طلبہ کی جانب سے ہی لگائی گئی تھی اور طلبہ نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
محنت کش عوام پر ظلم و ستم ایک دھماکہ خیز انقلابی صورتحال کو جنم دینے کی طرف لے گیا تھا جس کو صرف اور صرف آگ پکڑنے کی دیر تھی۔ 1966ء میں ریلوے مزدوروں کی تیرہ دن کی شاندار ہڑتال محنت کش طبقے کے لڑاکا پن کی پیشین گوئی اور ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف عدم اطمینان اور غصے کا اظہار کرچکی تھی۔ 69-1968ء کے انقلاب کا آغاز 7 نومبر 1968ء کو ہوا جب پولی ٹیکنک کالج کے طلبہ پولیس کی ناانصافی کے خلاف راولپنڈی میں سراپا احتجاج تھے اور ان کے مظاہرے کو توڑنے کے لیے ریاستی مشینری کی طرف سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا جارہا تھا۔ اس دوران پولیس نے ایک طالب علم، عبد الحمید کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ طالب علم کے سرِعام قتل کے بعد، طلبہ کے احتجاج نے مزید زور پکڑا اور احتجاج ایک تعلیمی ادارے سے دوسرے تعلیمی اداروں تک پھیلتا گیا۔ وقت کے ساتھ مظاہروں کا یہ جاندار اور پرجوش سلسلہ جدوجہد کو اگلے مرحلے میں لے گیا اور ایک ملک گیر احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ ان مظاہروں کی نوعیت انتہائی لڑاکا نظر آ رہی تھی۔ طلبہ اب صرف پولیس کی ناانصافی کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے تھے بلکہ مفت تعلیم، روزگار، تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن اور اس سے بڑھ کر محنت کشوں کے اقتدار کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جلد ہی اس تحریک نے ملک کے ہر تعلیمی ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تعلیمی اداروں کے لڑاکا طلبہ جنہوں نے احتجاجات کا انعقاد کرنے کا قدم اٹھایا تھا، وہ اب سماجی تبدیلی کی جدوجہد کی طرف بڑے پیمانے پر رخکر رہے تھے اور سڑکوں پر پولیس کا جرات اور دلیری سے سامنا بھی کر رہے تھے۔
پاکستانی سیاسی منظر نامے پر جس تیزی اور زور و شور کے ساتھ یہ جاندار بغاوت پھوٹ پڑی تھی، اس نے سٹالنسٹ پارٹیوں کو، جو اپنے زوال پذیر نظریات کے سبب تناظر بنانے اور قیادت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھیں، کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ وہ تحریک کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہے اور تاریخی غداری کرتے ہوئے ایسی انقلابی تحریک، جو کہ ملکیتی رشتوں کو للکار رہی تھی، کو محض جمہوریت کے پروگرام پر قید کرنے کی کوششکرتے رہے لیکن عوام نے انہیں رد کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف سوشلزم کے نعرے لگاتے ہوئے ایک معمولی سیاستدان ملک کا سب سے بڑا لیڈر بن گیا۔ انقلاب کی اس شورش کے دوران حکمران طبقے کے محلات میں ایوب خان کے 10 سال کی حکمرانی کے اعزاز میں خوشگوار تقریبات منائی جا رہی تھیں جبکہ محلات کے نیچے، ملک کے کونوں، گلیوں، سڑکوں، محلوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے طلبہ و محنت کشوں کی مشترکہ انقلابی جدوجہد کا لاوا پھوٹ رہا تھا۔
ایوب آمریت کے خلاف طلبہ کی تحریک بالآخر کھیتوں اور کارخانوں کی تحریکوں سے جڑ گئی اور محنت کش طبقہ فیصلہ کن طور پر اس جدوجہد میں شامل ہوا۔ احتجاجات اور ہڑتالوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ سے پورا ملک مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ طلبہ خریداری کے مراکز، بازاروں، گلیوں اور سڑکوں پر ایوب آمریت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے اور آٹے، چینی کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کرتے ہوئے عوام اور محنت کشوں کو ساتھ شامل کر رہے تھے۔ اس دوران زرعی مزدوروں اور غریب کسانوں نے بھی جاگیردارانہ اشرافیہ کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا تھا اور ان کے پُر آسائش محلات اور حویلیوں کو جلا رہے تھے۔ نجی املاک اور طبقاتی نظام سے انتہائی نفرت کا اظہار بینکوں، عیش و عشرت سے مالامال نجی مکانات، یہاں تک کہ بسوں، ٹرام گاڑیوں، پیٹرول پمپوں، آئل اسٹیشنوں اور سرکاری دفاتر کے جلائے جانے اور قبضوں کی صورت میں کیا جا رہا تھا۔ طلبہ ایوب مخالف احتجاجات کا آغاز کرنے سے لے کر کسانوں اور مزدوروں کی تحریک میں شامل ہونے تک، اپنے حقوق کے لیے بڑھ چڑھ کر جارحانہ انداز میں کھڑے تھے اور پولیس کیجبر و تشدد کے خلاف سڑکوں پر سماج کے اجتماعی مفاد کے دفاع کے لیے تحریک کیہر اول دستے کے طور پر ابھر کر آئے۔ نجی صنعتوں کے مزدور، لاکھوں سرکاری ملازمین، غریب کسان، صحافی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش اس تحریک کا حصہ بن گئے تھے۔ اس عظیم انقلابی دور کے گواہوں کا کہنا ہے کہ شاید ہی کوئی فیکٹری، محلہ، کالج یا ورکشاپ باقی رہ گئی تھی جو اس کی شدت سے متاثر نہ ہوئی ہو اور مطالبات اور ہڑتال سے لرز نہ رہی ہو۔ اس کی شدت اور توانائی نے پاکستانی حکمران طبقے کے دنوں کا سکون اور راتوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی تھی۔ حکمران بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے تھے اور انہوں نے طلبہ کیخوف سے یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی بھی ختم کردی تھی۔ لیکن بڑھتے ہوئے عوام کے دباؤ اور تحریک کی رفتار کی وجہ سے جنرل ایوب خان کو 25 مارچ 1969ء کو آخر کار استعفیٰ دینا پڑا۔
طلبہ سماج کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتے ہیں۔ 69-68ء کے انقلاب میں بھی انہوں نے بغاوت کا عمل شروع کرنے اور بڑے پیمانے پر تحریک کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج کرونا وباء عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کو سطح پر لے آئی ہے اور نظام کے بحران کو ایک جست عطا کردی ہے۔ سٹاک مارکیٹیں سست روی کا شکار ہیں، سرمایہ دار طبقے کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے، جاگیرداروں اور حکمران طبقے کی سیاسی نااہلی اور محنت کش دشمنی ہر جگہ بے رحمی سے بے نقاب ہو رہی ہے۔ حکمران طبقے نے بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈال دیا ہے جس کے رد عمل میں پوری دنیا میں تحریکیں پھوٹ رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر طلبہ اور محنت کشوں کے احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے۔ 2021ء کے آغاز میں بھی طلبہ نے ملک بھر میں آن کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی ہے۔
1968-69ء کا انقلاب صرف اسی لیے کامیاب نہیں ہو پایا کیونکہ اس وقت ایک ایسی انقلابی پارٹی موجود نہیں تھی جو انقلابی پروگرام پر محنت کشوں اور نوجوانوں کو منظم کر پائے۔ آج ہمیں آگے بڑھنے کے لیے ماضی کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تحریکوں کی توانائی و جوش اور نظام کے خلاف عوام کے غم و غصے کو سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر سرمایہ داری کے خلاف منظم کر نے کی ضرورت ہے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کو متحد ہوکر سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی آج سرمایہ داری وحشتوں سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔