| رپورٹ: عرفان منصور، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری پی وائی اے|
طلبہ کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس نے 4 فروری 2023 ء کو طلبہ کی سیاسی و نظریاتی تربیت کے لیے زوم اپلیکیشن کے ذریعے ایک روزہ آنلائن مارکسی سکول کا انعقاد کیا۔ یہ اسکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ اس سکول کے لیے ملک کے طول و عرض سے 250 سے زائد طلبہ اور محنت کشوں نے خود کو رجسٹر کروایا۔
سکول کا آغاز 12 بجے ہوا۔ پہلا سیشن عالمی و پاکستان تناظر پر محیط تھا جس میں نظامت کے فرائض عرفان منصور نے سرانجام دیے اور موضوع پر بحث کا آغاز ثناء اللہ جلبانی نے کیا۔ اپنی لیڈ آف میں ثناء نے موجودہ عہد میں سرمایہ داری کے عالمی بحران، افراط زر، شرحِ سود میں اضافے، عالمی سطح پر معاشی قوم پرستی اور تحفظاتی پالیسیوں کے ابھار، عالمی اداروں کی ناکامی، روس یوکرائن جنگ کے اثرات، سامراجی طاقتوں کے توازن میں تبدیلی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم نقاط پر تفصیلی بات کی۔
ثناء اللہ کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں درپیش تمام مسائل کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہے۔دنیا بھر میں سرمایہ داروں کی دولت میں بے شمار اضافہ ہوا ہے اور دوسری طرف محنت کش طبقے میں غربت، بھوک، بے گھری، لاعلاجی میں کئی گنا اضافہ ہو ا ہے۔ دنیا بھر میں روایتی سیاسی پارٹیاں غیر مقبول ہو رہی ہیں، حکمران طبقہ شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ موجودہ بحران حکمران طبقے کی طرف سے جہاں بے پناہ لوٹ مار اور ٹیکسوں میں اضافے کو جنم دے رہا ہے وہیں ان کے خلاف مزاحمت بھی آج نوشتہ دیوار بن گیا ہے۔ ایران، سری لنکا، برطانیہ اور امریکہ سمیت ہر ایک ملک میں محنت کش، طلبہ اور خواتین بڑی تعداد میں اپنے حق کے لیے سڑکوں کا رخ کررہے ہیں اورسری لنکا میں تو حکمران طبقے کو اقتدار سے بے دخل بھی کردیا مگر انقلابی پارٹی نہ ہونے کے سبب انقلابی بغاوت پسپائی کا شکار ہو ئی اور سماج کی انقلابی تبدیلی نہیں کی جا سکی۔ پاکستان کا معاشی بحران بھی اسی سمت ہی لے کے جارہا ہے۔ بڑھتا ہوا معاشی بحران، سیاسی مفاد پرستی اور عوام کی اجیرن ہوتی زندگی، اسی سرمایہ دارانہ نظام کی ہی دین ہیں اور پاکستان کے طلبہ، محنت کشوں، کسانوں اور خواتین کے لیے اگر بہتری کا کوئی راستہ موجود ہے تو وہ سوشلسٹ انقلاب ہی ہے جس کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر ہمارا اولین فریضہ ہے۔
اس کے بعد شرکاء نے سوالات کئے اور پھر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لاہور سے ثاقب اسماعیل اور فضیل اصغر، کشمیر سے خرم، ملتان سے راول اسد اور وقاص، حیدرآباد سے عبدالمجید اور کراچی سے ساجد خان اور جویریہ ملک نے بالترتیب ماحولیاتی تبدیلی اور سرمایہ دارانہ نظام کے انحطاط، قرضوں کے پہاڑ اور سرمایہ داری کی بند گلی، پاکستان کی برباد ہوچکی عالمی معاشی ساکھ، چین کے سامراجی کرداراور خواتین کے مسائل اور انکے سوشلسٹ حل کو موضوع گفتگو بنایا۔ اس کے بعد پچیس منٹ کا وقفہ ہوا اور دوسرا سیشن سوا تین بجے شروع کیا گیا۔
دوسرے سیشن کا عنوان ”اصلاح پسندی یا انقلاب“ تھا۔ جسے آنند پرکاش نے چئیر کیا اور پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی صدر فضیل اصغر نے لیڈ آف دی۔فضیل اصغر نے اکیسویں صدی کے معروض میں عالمی اور ملکی سطح پر موجود اہم ترین مسائل کے حوالے سے اصلاح پسندی کے سطحی حل کی قلعی کھولی اور انقلابی حل کی اہمیت و ضرورت سامعین کو باور کرائی۔ مزید یہ کہ سرمایہ داری میں اصلاحات کا نعرہ آج کا نہیں ہے بلکہ ایک صدی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ بنیادی طور پر سوشلسٹ انقلاب کے خوف سے حکمران طبقے نے اصلاح پسندی کے نظریات کو فروغ دینا شروع کیا۔ اصلاح پسندی کے نظریات کے مطابق موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے لیے بھی بہرحال ضروری ہے کہ نظام میں گنجائش موجود ہو جو کہ آج کے عہد میں مسلسل کم ہوتی جارہی ہے، مارکسسٹ اصلاحات کے ہرگز خلاف نہیں ہیں بلکہ اصلاح پسندی کے خلاف ہیں جو اسی نظام میں رہتے ہوئے بہتری کی بات کرتے ہیں۔ اس وقت حاصل کردہ اصلاحات جومحنت کشوں نے لڑ کر جیتی تھیں انہیں واپس چھینا جا رہا ہے۔ ایسے عہد میں اس نظام میں بہتری کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہے۔ پوری دنیا میں محنت کشوں پہ حملے کیے جا رہے ہیں محنت کشوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے خاتمے کی طرف بڑھا جائے اور مزدور ریاست جو کہ سوشلزم کے نظریات کو اپناتے ہوئے ہی بنائی جا سکتی ہے اس کی کوشش کی جائے۔
اس کے بعد فضیل اصغر نے تفصیل سے بتایا کہ پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد موجودہ مسائل: غیر معیاری تعلیم، ناکام نظام صحت، پسماندہ زراعت، لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری، پانی کی قلت، ماحولیاتی آلودگی،غربت، مہنگائی اور خواتیں و مظلوم قومیتوں پر جبرجیسے درپیش سنگین مسائل کو کیسے حل کیا جائیگا اور مزدور ریاست کا کردار کیا ہوگا۔ آنے والے عرصے میں مزید حالات بد تر ہوں گے سرمایہ دارانہ نطام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہی مسائل کا واحد حل ہے۔
اس کے بعد موضوع کے متعلق سوالات ہوئے اوربہاولپور سے عرفان منصور، کراچی سے جلال جان، کشمور سے اختر سندھیار، کشمیر سے آفاق احمد، گلگت سے احسان علی ایڈووکیٹ، لاہور سے ارسلان دانی گوپانگ، اسلام آباد سے لقمان رحمانی نے بحث میں حصہ لیا۔ اورعالمی مارکسی رجحان پاکستان کے مرکزی رہنماء آدم پال نے بھی بات کی۔
آخر میں فضیل اصغر نے سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں میں نام نہاد پروفیسر حضرات نوجوانوں کو سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے کی درس دیتے تھکتے نہیں اور انقلاب کو ناممکن عمل قرار دیا جاتا ہے، لیکن آج نوجوان ان کے گھٹیا دلائل کے برخلاف پورے نظام کو تبدیل کرنے اور انقلابی نظریے کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی شاندار جدوجہد جاری ہے جلد ہی پاکستان میں تحریک ابھر سکتی ہے۔ اس کے لیئے طلبہ، نوجوانوں، کسانوں اورمحنت کشوں کو مارکسزم کے انقلابی نظریے کے تحت منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس کراچی سے کشمیر تک طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کر رہا ہے۔
ہم آپ سب کو پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔
ممبر بننے کے لیئے یہاں کلک کریں۔