چے گویرا کے نظریات پر ایک رائے

|تحریر: رابرٹو سارتی،  ترجمہ: فضیل اصغر|

چے گویرا کے بچپن کی تصویر۔

ارنیسٹو چے گویرا کو امریکی حمایت یافتہ بولیوین آرمی کے ہاتھوں 9 اکتوبر 1967ء کو شہیدکیا گیا۔ اپنی شہادت کے 51 سال گزر جانے کے بعد گویرا آج بھی پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ چے گویرا کی یاد میں اور خاص طور پر موجودہ دور میں ہونے والی جدوجہدوں کے حوالے سے اسکی زندگی اور نظریات کی مطابقت کو سمجھنے کیلئے اطالوی مارکسی نظریاتی میگزین میں چے کی چالیسویں برسی کے موقع پر آج سے گیارہ سال پہلے شائع ہونے والے اس مضمون کو ہم دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔

انگریزی میں مضمون: Notes on the ideas of Che Guevara

چے گویرافیدل کاسترو کیساتھ کیوبا کے انقلاب اور اسکے علاوہ پوری دنیا میں ظلم کے خلاف ہونے والی جدوجہد کی علامت تھا اور ابھی تک ہے۔ چے کی ذاتی قربانی کا جذبہ، سخت گیری اور دانشمندانہ سچائی ہم سب کیلئے متاثر کن ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ چے کی شخصیت اوراقوال بار بار سیاسی مباحثوں کا مرکز بن جاتی ہیں۔ چے کی شہادت کی چالیسویں برسی کے موقع پر یہ پہلے سے کہیں زیادہ درست ہے۔

چے کا آغاز

چے گویرا 1928ء میں ارجنٹائن کے شہر روساریو (Rosario) میں پیدا ہوا۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وہ دارلحکومت بیونس آیرس (Buenos Aires) منتقل ہوا۔ 1951ء میں چے نے اپنے دوست البرٹو گراناڈو کیساتھ موٹر سائیکل پر لاطینی امریکہ کا سفر کیا۔ اسی عرصے کے دوران چے کا شعور سیاسی شکل اختیار کرنا شروع ہوا۔ اس عمل میں سب سے زیادہ اہم کردار چے کے گو ئٹے مالا (Guatemala) میں ٹھہراؤ کا تھاجہاں وہ منتخب شدہ صدر جیکوبو آربینز کے خلاف امریکہ کی جانب سے کرائے گئے کُو (coup d’etat) کیخلاف پیدا ہونے والی مزاحمت میں شامل ہوا۔ گوئٹے مالا میں چے کی ملاقات ہلڈا گادیا (Hilda Gadea) سے ہوئی جس نے اسکا تعارف مارکسزم سے کرایا اور جو بعد میں چے کی بیوی بھی بنی۔ لیکن انقلابی جدوجہد کے آغاز میں چے کا تعارف کس طرح کے مارکسزم سے ہورہا تھا؟ وہ مارکسزم صرف سٹالنزم ہی ہو سکتا تھا کیونکہ دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کی کامیابی اور 1949ء کے چینی انقلاب میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے سٹالنزم کا کافی اثر رسوخ تھا۔

چے گویرا اپنے خاندان کے ساتھ۔

کیوبا کے انقلاب کی ابتدا

اسکے باوجود چے گویرا اور کاسترو لاطینی امریکہ کی کمیونسٹ پارٹیوں کی پالیسیوں کے حامی بالکل بھی نہیں تھے جو بے حد زوال پذیر ہوچکی تھیں اور اپنی قومی بورژوازی کی حمایت جیسی مجرمانہ پالیسیاں اپنائے ہوئے تھیں۔ جن میں سب سے زیادہ زوال پذیر کیوبن کمیونسٹ پارٹی تھی جسکے پہلی بتیستا حکومت میں دو وزیر بھی شامل تھے۔ کیوبا کے نوجوانوں نے اپنی ایک علیحدہ تنظیم بنائی 26 جولائی کی تحریک (the 26th of July movement) جسکا نام 1953ء میں مونکاڈا بیرکوں (Moncada barracks) پر ناکام حملے کے بعد رکھا گیا تھا۔

26 جولائی کی تحریک۔

اس حملے کا مقصدڈکٹیٹر شپ کے خلاف ایک عوامی بغاوت کو ابھارنا تھاجس میں انہیں ناکامی ہوئی اور اسکے نتیجے میں وہ گوریلا جنگ پر مجبور ہوئے۔بتیستا ڈکٹیٹر شپ کیخلاف شروع ہونے والی اس گوریلا تحریک کا مقصد سوشلسٹ انقلاب نہیں تھا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہی رہتے ہوئے چند ریڈیکل اصلاحات کے ذریعے قومی آزادی حاصل کرنا تھا۔ اس کا واضح انکشاف فیڈل کاسترو کی مشہور تقریر ’’تاریخ مجھے بے گناہ ثابت کرے گی‘‘میں ہے جو اس نے عدالت میں خود اپنے دفاع میں 1953ء کے ناکام مونکاڈا بیرکوں کے حملے کی وجہ سے اس پر لگنے والے الزامات کے خلاف کی تھی۔ فیڈل کے مطابق تمام بڑی صنعتوں، مرکینٹائل اور کان کنی کے کاروبار میں محنت کشوں اور ملازمین کو کل منافع میں سے 30 فیصد حصہ دیا جانا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ صنعتی اور معاشی ترقی کی بدولت سماجی برابری قائم کرنا تھا۔ اس وقت چے گویرا سوشلسٹ تبدیلی کا کہیں زیادہ ریڈیکل تناظر بنا چکا تھا جسکا اظہار اسکی ڈائریز میں بھی ملتا ہے جس میں وہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اسے اپنے کامریڈوں کو الوداع کہتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا (یعنی کہ انقلاب کو عالمی سطح پر پھیلانے کیلئے کیوبا کو چھوڑنا ہوگا)۔ اقتدار پر قبضے کے فوراََ بعد 1959ء کے ابتدائی مہینوں میں چے گویرا کو یہ ابہام تھا کہ سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے جمہوری طرز پر ترقی حاصل کی جاسکتی ہے جیسا کہ اس انٹرویو میں اس نے بیان کیا کہ:

’’ہم جمہوری ہیں اور ہماری تحریک بھی جمہوری ہے ہم لبرل سوچ رکھتے ہیں اور پورے بر اعظم امریکہ میں باہمی تعاون چاہتے ہیں۔ کمیونسٹوں کو آمر کہنا درحقیقت یہاں کے آمروں کی روایتی چال ہے کیونکہ کمیونسٹ ان آمروں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے۔ ڈیڑھ سال کے اندر 26 جولائی کی تحریک کے نظریے پر ایک سیاسی قوت کو منظم کیا جائے گا۔ پھر ایک الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا جس میں وہ پارٹی دیگر جمہوری پارٹیوں سے مقابلہ کریگی۔‘‘(ایچ تھامس، کیوبا :ایک تاریخ ،صفحہ 831 اطالوی ایڈیشن)

جبکہ کیوبا کے اندر سرمایہ داری کا جمہوری مرحلہ نہیں آسکتاتھا۔ اس کی وجہ امریکی سامراج کا کیوبا کے معاشی اور سیاسی زندگی کے ہر پہلو پر مکمل غلبہ تھا۔ مثلاً کیوبا کی 90 فیصد صنعت کی ملکیت امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس تھی اور اسکے علاوہ گنے کی فصل پر بھی مکمل قبضہ انہی کا تھا۔ امریکی سامراج کیساتھ تصادم میں آنا ناگزیر تھا۔ 26 جولائی کی تحریک کے ہوانا (Havana) میں داخل ہوتے ہی امریکہ نے نئی انقلابی حکومت کیلئے رکاوٹیں ڈالنا اور اسے سبوتاژ کرنا شروع کر دیا۔ لہٰذا اس وجہ سے سرمایہ داری کے ذریعے معاشی اور سماجی ترقی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی دوران سویت یونین، چین اور بقیہ مشرقی یورپ point of reference تھا۔ اور جب امریکی حکومت نے کیوبا سے گنا خریدنے سے انکار کر دیا تو اسکی جگہ پر ماسکو نے اسے خریدنے کی پیشکش کی۔ بڑے پیمانے پر انقلابی پیاس کی بدولت کیوبا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کیا گیا۔ مگر نئے نظام کی تعمیر میں لینن کے سوویتوں کی ریپبلکس کی پیروی نہیں کی گئی بلکہ سٹالن اور خروشیف کے سوویت یونین کی پیروی کی گئی۔ سوویت یونین میں پسماندگی اور تنہا رہ جانے کی وجہ سے اس نظام (سوشلسٹ) میں بیوروکریسی کا جنم ہوا جس نے محنت کش طبقے سے سیاسی طاقت چھین لی۔ محنت کشوں کی جمہوریت کے تمام تر ڈھانچے جیسے سوویتیں ،کونسلیں اور دیگر کو محض ریاست کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کی آمد و رفت کے رستوں تک محدود کر دیا گیا تھا۔ کیوبا میں ابتدائی سالوں کے دوران محنت کشوں اور مظلوم طبقات میں سیاسی طور پر سرگرم ہونے کی ایک چاہ موجود تھی مثلاً لاکھوں لوگ بڑی تنظیموں (خاص طور پر انقلاب کی دفاعی کمیٹیاں) میں شامل ہو رہے تھے اور اسی طرح لاکھوں لوگوں نے بے آف پگز (Bay of pigs) کے سامراجی حملے کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ مگر اس طرح کا کوئی جمہوری ڈھانچہ موجود نہیں تھا جس کے ذریعے وہ ریاست کے اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کر پاتے یا پھر معیشت اور سماج پر براہ راست کنٹرول حاصل کر سکتے۔ محنت کشوں کے پاس ایسے مواقع موجود نہیں تھے کہ وہ اپنی صفوں میں سے افسروں اور منتظمین کو منتخب کر سکتے اور نہ ہی یہ سہولت موجود تھی کہ وہ خراب کارکردگی کی بنیاد پر ان کو (افسروں اور منتظمین) واپس بلا سکتے۔ کیوبا کے انقلابیوں کے پاس کسی اور ماڈل کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں مجبوراً وہی رستہ اپنانا پڑا جو سویت مشیروں نے تجویز کیا۔ ان ابتدائی سالوں میں چے گویرا واقعی یہ سوچتا تھا کہ یہ درست طریقہ کار ہے اور اسکے کئی ثبوت موجود ہیں۔ مثلاً چے کا وضاحت کردہ ’’یگلامینٹو ڈی لا امپریسا کنسولیڈاڈا (Reglamento de la Empresa consolidada)‘‘۔ جب وہ وزیر صنعت تھا میں یہ واضح پڑھا جا سکتا ہے کہ:

’’منسٹری کی جانب سے نامزد منیجر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اجتماعی انٹرپرائز کی تمام تر منصوبہ بندی، تنظیم کاری، کنٹرول اور عمل درآمد کے مراحل، انٹرپرائز کے تمام تر افعال، اسکے ذرائع اور سہولیات وہ سب کچھ جو اس میں شامل ہے کا علم رکھے اور اسکے فیصلے کرے اور ہر صورت حال میں اس کی نمائندگی کرے۔‘‘ (ای۔گویرا،صفحہ 509)

سوویت یونین نے تمام تر غلطیوں کے باوجود جن کی وجہ سے بالآخر 1980ء کی دہائی کے اختتام پر نظام کا زوال ہوا معیشت، سائنس اور ثقافت میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ سب بیوروکریٹک کنٹرول کے باوجود آزاد منڈی کے خاتمے اور معاشی ذرائع کی منصوبہ بندی کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا۔ سوویت یونین کے دورے کے بعد چے کا پہلا تاثر یہ تھا:

’’سویت یونین آنے کے بعد یہاں تک کہ میں بھی حیران تھا کیونکہ یہاں جو چیز سب سے زیادہ آپکی توجہ کا مرکز بنتی ہے وہ یہاں موجود بہت زیادہ آزادی ہے، بے تحاشا سوچ و فکر کی آزادی، اپنی صلاحیت اور مزاج کے مطابق اپنی نشونما کرنے کی آزادی۔‘‘
(E. Guevara, Scritti, discorsi e diari di guerriglia, Einaudi, 1969, page 946)

 
یہ الفاظ 1961ء میں ادا کیے گئے، ماسکو کی جانب سے ہنگیرین محنت کشوں پر ہونے والے ملٹری جبر کے بعد۔ اور اسی طرح سوویت یونین میں سوشلزم کی نشو نما کی حکمت عملی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی ہمیں چے کی سوچ الجھن کا شکار نظر آتی ہے:

’’غور سے سنیے؛ ہر انقلاب، چاہے ہمیں پسند ہو یا نہ ہو، ہماری خواہش ہو یا نہ ہو، کو سٹالنزم کے ناگزیر مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اسے اپنے آ پ کوسرمایہ داری کے گھیراو سے بچانا ہوتا ہے۔‘‘
(KS Karol, La guerriglia al potere, Mondadori 1970, page 53)

یہاں پر سٹالنزم کو ایک بچگانہ بیماری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ ایک سیاسی رد انقلابی عمل تھا جو ایک سیاسی گروہ کی جانب سے کیا گیا جس کی بیوروکریسی کا نمائندہ سٹالن تھا اور جسکا خاتمہ اس (سٹالن) کے مرنے کے بعد بھی نہیں ہوا۔ اس میں ان تمام تر انقلابی سپاہیوں کو مار دیا گیا تھا جنہوں نے اکتوبر انقلاب کی قیادت کی تھی۔ کئی ممالک میں انقلابی دھارے میں خلل پیدا کیا گیا اسی وجہ سے کمیونسٹ تحریک میں سٹالن مخالف پوزیشنز، جن میں ٹراٹسکی بھی شامل تھا کیوبا جیسے ممالک میں نہایت کمزور تھیں اور بعض اوقات گڈ مڈ کر کے پیش کی جاتی تھیں۔ چے شاید اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اس سب سے آشنا ہوا تھا۔ 
ابتدائی سالوں میں کیوبا کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سوویت یونین کے ساتھ تعاون ناصرف یہ کہ ناگزیر تھا بلکہ انتہائی ضروری بھی تھا جس کی وجہ سے بالآخر کیوبا میں سوویت ماڈل ہی پہنچا۔ یہ سوچا (انتہائی غلط) جا رہا تھا کہ اس قدر بیوروکریٹک ماڈل کے تحت کیوبا خام مال اور خوراک کی اشیا جیسے چینی اور نکل (سفید دھات) کی سپلائی میں یقینی اور مستقل کردار ادا کر سکتا ہے جبکہ معیشت کی ہم آہنگ اور کلی نشونما کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔ بہرحال کیوبا کے انقلاب کی بیوروکریٹائزیشن کا عمل بھی مسائل سے پاک نہیں تھا۔ پہلے مرحلے میں کیوبا کے انقلابیوں اور سوویت بیوروکریٹوں (اور کیوبا کی پرانی کمیونسٹ پارٹی PSP میں موجود انکے پیروکاروں) کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ ان میں معیشت سے لے کر خارجہ پالیسی اور مارکسی نظریات سے لے کر آرٹ اور ثقافت تک کے بارے میں بحثیں شامل تھیں۔ 

معیشت پر بحث

چے کے اندر ابتدائی شکوک و شبہات کا آغاز صنعت کے انتظامی عمل میں درپیش مسائل سے ہوا جس شعبے کا وہ وزیر تھا۔ بجٹ سسٹم پر ہونے والی بحث جس میں چے پر یہ الزام تھا کہ وہ سرمایہ دارانہ اقدامات کو متعارف کرانا چاہتا ہے میں چے کا کہنا تھا کہ ’’اجارہ داریوں کے پیمائش کے نظام سے بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے (بجٹ سسٹم کی) مگر اس بات کا بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انکا نظام پیمائش نہایت موثر ہے۔ ’’ اور چے نے سوویت یونین میں موجود نظام پر تنقید کی کہ اس کا مرکزی محور ذاتی مفاد (خاص طور پر منیجر) ہے جس کی وجہ سے نابرابری پیدا ہوتی ہے۔معاشی منصوبہ بندی پر ہونے والی گرما گرم بحث میں چے کا بنیادی اختلاف اس وجہ سے تھا کیونکہ وہ بجٹ سسٹم کی وکالت کرتا تھا جس میں معیشت کی مختلف شاخوں تک وسائل کو مختص کرنے کا کام مرکزی معاشی اتھارٹی کے پاس ہوگا۔ مگر سب سے پہلے اس کی کوشش صنعت کو ترقی دینا تھا جس کی بدولت محنت کش طبقے کی طاقت میں اضافہ ممکن تھا۔ دوسری جانب سٹالنسٹ ہر کمپنی میں آزاد منڈی کے معیار کے مطابق کمپنیوں کے درمیان تعلقات اور منافع کو پیداوار کا بنیادی مقصد بناتے ہوئے کمپنیوں کو اور زیادہ خود مختاری دینے کی بات کرتے تھے۔ یہاں پر چے گویرا درست تھا اگرچہ شاید اسکے موقف کا رجحان رضاکاری کی طرف تھا۔ محرک (پیداوار کیلئے) کے بارے میں ہونے والی بحث میں جسکا تعلق رضاکاری کے ساتھ تھا گویرا نے اخلاقی محرک پر زور دیتے ہوئے مادی اور معاشی رعایتوں پر سخت تنقید کی۔ سماج کی تنظیم کاری میں چے کے طریقہ کار کی بنیاد سماجی ترقی تھی جسے ’’پیداوار اور عوام کے شعورکو بڑھانے کے ایک ہتھیار‘‘ کے طو پر لیا۔

(quoted in the book of Carlos Tablada Perez, Economia, etica e politica nel pensiero di Ernesto Che Guevara, page 209, italian edition).

البتہ کیوبامیں ان سالوں کے دوران معیشت پر ہونے والی بحث ایک بہت بڑی غلطی کا شکار تھی۔ سب سے اہم سوال (اس بحث میں) غیر حاضر تھا کہ منصوبہ بند معیشت میں پیداوار کیلئے اخلاقی محرک صرف محنت کشوں کی جمہوریت میں ہی ہے، نا صرف فرضی طور پر کہ محنت کش ذرائع پیداوار کے مالک ہیں بلکہ انکو اس بات کا احساس ہونا کہ سب کچھ انکی مرضی سے ہو رہا ہے اور جو فیصلے وہ لیتے ہیں سماج کی ترقی کا انحصار انہی پر ہے لہٰذا وہ انفرادی اور اجتماعی دونوں طور پر ایک طبقے کی حیثیت سے فائدہ حاصل کریں۔ ہم ہمیشہ اس مسئلے کی جانب واپس آئینگے جس پر ٹراٹسکی نے زور دیا کہ ’’جس طرح انسانی جسم کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح منصوبہ بند معیشت کو جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
دوسری جانب چے گویرا نے ہمیشہ ’’نئے انسان‘‘ کی نشونما کیلئے رضاکاری کو زیادہ اہمیت دی جیسا کہ اسکی مشہور تحریر ’’کیوبا میں سوشلزم اور انسان‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی بھی کمیونسٹ کیلئے سوشلسٹ سماج کی تعمیر کی غرض سے ایسے نئے انسان کوبنانا جو بیگانگی اور خود غرضی سے پاک ہو اولین فریضہ ہے مگر اس عمل کیلئے سماج میں ٹھوس مادی بنیادوں کی ضرورت ہے اور نئے نظام میں جس کی بنیاد محنت کش طبقے کے فیصلہ کن کردار پر ہوتی ہے۔ کیوبا میں عوام اور سوشلسٹ ریاست کے درمیان تعلق کے بارے میں چے انتہائی دلچسپ تناظر پیش کرتا ہے کہ:

’’عمومی طور پر کوئی بھی فیصلہ آغاز میں فیڈل کاسترو یا انقلابی پارٹی کی جانب سے آتا ہے اور پھر لوگوں کے سامنے اسکی تشریح کی جاتی ہے اور لوگ اسے اپنا لیتے ہیں۔بعض مواقعوں پر پارٹی اور گورنمنٹ ایک مقامی (مخصوص) تجربے کو لیتی ہے اور ایک ہی جیسے طریقہ کار کی بنیاد پر اسے عمومی بنا دیتی ہے۔‘‘(ای۔ گویرا، کیوبا میں سوشلزم اور انسان)

اسی طرح

’’بڑی عوامی میٹینگوں میں مشاہدے کے ذریعے ایسا لگتا ہے جیسے دو ٹیوننگ فارک (آواز پیدا کرنے والا آلہ) آپس میں بات چیت کر رہے ہیں اور دونوں کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہریں آپس میں مل کر ایک نئی آواز پیدا کر رہی ہیں۔ فیدل اور عوام اسی طرح سے شدت اختیار کرتی ہوئی بات چیت کے دوران اکٹھے دھڑکنا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ کہ بات چیت کے عروج پر پہنچنے کے بعد اچانک جدوجہد اور فتح کے حتمی نتیجے کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔‘‘

یہ تفصیل خاص طور پر انقلاب کے ابتدائی سالوں کے دوران موجود موڈ کی درست عکاسی کرتی ہے جس میں لیڈرشپ کی بے تحاشہ اخلاقی اور سیاسی اتھارٹی ہونے کی وجہ سے اسکے اور عوام کے درمیان انتہائی جڑت موجود تھی اور عوام جوش و جذبے کے ساتھ اسکا ساتھ دیتے تھے۔ البتہ یہ کافی نہیں تھا۔ ریاست اور معیشت کو چلانے میں عوام کیلئے ایسا کوئی جمہوری راستہ موجود نہیں تھا جس کے ذریعے وہ ریاستی امور میں براہ راست شامل ہوسکیں۔ محنت کشوں کی ریاست کے وہ اصول جو لینن نے اپنی تصنیف ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں بیان کیے تھے (تمام آفیشلز کو منتخب کرنے اور واپس بلانے کا حق، کسی بھی آفیشل کی تنخواہ ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوگی، کوئی آرمی نہیں ہوگی بلکہ عوام کو مسلح کیا جائے گا، افسروں کی گردش تا کہ کوئی بھی بیوروکریٹ نہ بن سکے وغیرہ) کیوبا میں موجود نہیں تھے۔

اسی تحریر میں چے محنت کشوں کے فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہونے میں موجود مسائل پر بھی بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ:

’’منیجمنٹ اور پیداوار کی ہر ساخت میں شعوری طور پر انفرادی اور اجتماعی شرکت انتہائی ضروری ہے۔‘‘

یہاں چے نئے انقلابی اداروں کی کھوج میں ہے۔

’’انقلاب کی یہ ادارہ بندی ابھی تک نہیں کی جا سکی۔ ہم کسی ایسی چیز (ادارہ یا کوئی راستہ) کی تلاش میں ہیں جو عوام اور حکومت کے درمیان ایک مکمل شناخت (ایسا رشتہ جس میں دونوں کی سوچ ایک جیسی ہو) پیدا کر دے۔‘‘

البتہ وہ ان ذرائع کی نشاندہی نہیں کر پایا جن کے ذریعے یہ کرنا تھا۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بالشویزم اور اکتوبر انقلاب کے نظریات سے کتنی گہری بیوروکریٹک تفریق موجود تھی جس کی وجہ سے یہاں تک کہ چے جیسا سنجیدہ انقلابی بھی سٹالنزم کے متبادل کی تشریح نہیں کر پایا۔ اس آخری نقطے پر چے نے ٹریڈ یونینوں کے سوال پر جو ایک انتہائی موقف اختیار کیا وہ اس بات کا اظہار ہے:

’’ایک امر کے بارے میں تو میں بالکل واضح ہوں کہ ٹریڈ یونینیں ایک رکاوٹ ہیں اور انکا خاتمہ ہونا چاہیے، مگر آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ نہیں بلکہ انکا خاتمہ ایک ہی بار میں ہونا چاہیے جیسے ریاست (سرمایہ دارانہ) کا۔‘‘ (چے گویرا کے نہ شائع ہونے والے یہ اور اسی طرح کے دیگر اقتباسات انٹونیو موسکاٹو کے مضامین میں سے لیے گئے ہیں جو ستمبر اور اکتوبر 2005ء کے دوران روزنامہ لبر یزیون librazioneمیں شائع ہوئے)۔

ٹریڈ یونینوں کی افادیت پر شک کرتے ہوئے چے نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ مزدوروں کی سب سے بہترین جمہوری ریاست بھی ہر حوالے سے مکمل نہیں ہوگی کیونکہ اس میں اس وقت تک مختلف طبقات کے مکمل طور پر خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے طبقاتی کشمکش موجود ہوگی۔ حتیٰ کہ ایک مزدور ریاست میں بھی مزدوروں کو افسر شاہی کے خلاف منظم ہونے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا عبوری دور کے دوران محنت کشوں کے منظم ہونے کے اداروں کی ضرورت رہے گی۔ ٹریڈ یونین پر ہونے والی اس بحث کا دفاع 1920ء میں سوویت یونین میں لینن نے بھی کیا تھا۔ اس بحث میں لینن کا سامنا ٹراٹسکی سے ہوا تھا جسکے بارے میں ٹراٹسکی نے بعد میں اپنی غلطی قبول کر لی تھی۔ 

انٹر نیشنلزم یا شاونزم؟

چے گویرا (اور کم از کم انقلاب کے ابتدائی عرصے میں فیڈل کاسترو) کا سوویت یونین سے بنیادی اختلاف انٹرنیشلزم پر ہی تھا۔ 60کی دہائی میں کیوبا نے لاطینی امریکہ میں سوشلسٹ انقلاب کے متعدد پیغامات پہنچائے اور اپیلیں کیں۔ مثلا ٹرائی کانٹینینٹل (tricontinental) کو بھیجا گیا پیغام اور ہوانا (Havana) کا دوسرا اعلانیہ بھی۔ دونوں کو چے گویرا نے لکھا تھا۔ انقلاب کو پھیلانے کی ضرورت کی سمجھ بوجھ ہی چے کی سب سے اہم بصیرت تھی جس سے خروشیف جو ’’پر امن طریقے سے اکٹھا رہنے‘‘ کی وکالت کرتا تھا کا اتفاق کرنا ممکن نہیں تھا۔ گویرا کی غیر شائع شدہ تحریروں میں اسکے سخت مؤقف کا انکشاف ہوتا ہے ’’انٹرنیشنلزم کی جگہ شاونزم (چھوٹی طاقت یا چھوٹے ملک کی) نے یا پھر دوسری مشہور جمہوریتوں سے اختلاف برقرار رکھتے ہوئے سویت یونین کی مکمل فرمانبرداری نے لے لی ہے۔‘‘ 
چے کے بعد والے سالوں میں ‘حقیقی سوشلزم’ real socialism والے ممالک (سٹالنسٹ بلاک) پر سے اعتماد اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اسکی غیر شائع شدہ تحریروں میں دوسرے ایفر و ایشین اکنامک سیمینار (Afro-Asian economic seminar) جو فروری 1965ء میں الجیریا کے مقام پر ہوا میں اسکی تقریر کا اور بھی زیادہ واضح سیاق و سباق پیش کرتی ہیں:

’’یہ بھلا کیسے باہمی طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے کہ وہ خام مال جو پسماندہ ممالک میں بے تحاشا محنت اور مشکلات کے بعد حاصل کیا جاتا ہے اسے بھی عالمی مارکیٹ کی قیمت پر بیچا جائے اور ایک جدید ملک کے اندر

ایفرو-ایشین کانفنرنس میں چے گویرا تقریر کرتے ہوئے۔

جدید تکنیک اور آٹو میٹڈ مشینری سے بنی ہوئی اشیا کوبھی اسی عالمی مارکیٹ کی قیمت پر خریدا جائے؟ اگر ہم ملکوں کے ان دو گروپوں کے درمیان اس طرح کے تعلقات پیدا کرتے ہیں تو پھر ہمیں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ ایک مخصوص انداز میں سوشلسٹ ممالک بھی سامراجی استحصال کے جرم میں شامل ہیں۔ اس حوالے سے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ پسماندہ ممالک کیساتھ سوشلسٹ ممالک کا بیرونی تجارت میں تبادلہ انتہائی معمولی سا ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے مگر اس میں پھر بھی تبادلے کا کردار غیر اخلاقی ہی رہتا ہے۔ سوشلسٹ ممالک کا یہ اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنی اس غیر اخلاقی پالیسی کا جس کے ذریعے مغربی ممالک کا استحصال کیا جا رہا ہے خاتمہ کرے۔‘‘ (الجیریا میں ایفرو -ایشین کانفرنس پر)

ان دلائل کیساتھ ساتھ بیوروکریسی پر بھی ہمیں شدید تنقید دیکھنے کو ملتی ہے جس کو چے نے ’’انقلابی عمل میں رکاوٹ قرار دیا‘‘ اور اسکے ساتھ ساتھ اسے’’ایک خطرناک تیزاب کرار دیا جو معیشت، تعلیم، ثقافت اورسرکاری شعبوں میں اس حد تک بگاڑ پیدا کردیتا ہے کہ اسکی وجہ سے بذات خود سامراج سے بھی زیادہ نقصان ہوتا ہے۔‘‘ 

چے گویرا اور ٹرا ٹسکی ازم

چے گویرا کے آخری دنوں کے دوران سوشلزم کی طرف ایک مختلف رستے کی تلاش ہی اسکا سب سے اہم مقصد تھا۔ اسکی المناک موت نے اس تلاش کو روک دیا، لہٰذا آج یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چے کیا نتیجہ نکالتا۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ چے نے سٹالنزم سے مکمل علیحدگی اختیارکر لی تھی۔ چے گویرا کیلئے ’’پرولتاری انٹرنیشنلزم ایک فریضے کیساتھ ساتھ ایک انقلابی ضرورت بھی تھی۔‘‘ لہٰذا اس وجہ سے اسکا مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کی قوم پرستی سے اور کیوبا کے کئی انقلابیوں کے کیوبا کے انقلاب کے حوالے سے مخصوص اور سخت مؤقف کے باعث ہمیشہ اختلاف رہا۔ اپنی موت تک اسکا مقصد پورے لاطینی امریکہ میں انقلاب کو پھیلانا تھا۔ مختلف قومی بورژوازیوں کے نام نہاد ترقی پسند کردار پر چے کو بالکل بھی یقین نہیں تھا جبکہ ماسکو اور بیجنگ کی جانب سے اسکا (قومی بورژوازی) دفاع کیا جا رہا تھا:

 
“دوسری جانب ہر جگہ مقامی سرمایہ دار طبقہ سامراج کا مقابلہ کرنے کی تمام تر صلاحیت کھو بیٹھا ہے (اگر پہلے کبھی انکے پاس تھی بھی تو) اور اب وہ تاش کا آخری پتہ بن چکی ہیں۔ اب سوشلسٹ انقلاب یا make-believe انقلاب کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں بچا۔” (ٹرائی کانٹی نینٹل کو پیٖغام)

جیسا کہ ہم نے دیکھا چے اس پر اور اس جیسے دیگر کئی مسئلوں پر سوویت بیوروکریسی کے مخالف تھا۔ مگر یہ کہنا کہ چے ٹراسٹکائیٹ بن چکا تھا جیسا کہ کئی تاریخ دان کہتے ہیں انتہائی غلط ہوگا۔ ایسا کرنا چے کی شخصیت کے ساتھ زیادتی ہوگی جس کے لیے سچائی اور دانشمندانہ حقیقت بنیادی اصول تھے۔ چے گویرا ایک ایسا انقلابی تھا جو اپنے سیاسی تجربات اور انقلاب کے تناظر کے بارے میں انتہائی گہرائی سے سوچتا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری عرصے میں اس نے ٹراٹسکی کو بھی پڑھا جیسا کہ اسکی کاپیوں/ڈائریوں میں دیکھا جا سکتا ہے جن میں اس نے انقلاب مسلسل اور انقلاب روس کی تاریخ جیسی کتابوں پر غور کیا جن میں سے اس نے پورے پورے صفحات بھی کاپی کیے۔ مگر انکے بارے میں چے کا ردعمل نامکمل ہی رہا۔ پہلے کانگو اور پھر بولیویا میں گوریلا لڑائی کا چناؤ اس کا ثبوت ہے جس کا ذکر اسکی غیر شائع شدہ تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ جب گویرا نے خود سے یہ سوال کیا کہ کیا اب بھی پرولتاریہ انقلابی عمل کو آگے بڑھانے والی طاقت ہے تو اس حوالے سے اسکا جواب واضح طور پر یہ تھا کہ

’’چین، ویتنام اور کیوبا کی مثالیں اس تھیسس کی محدودیت کو ثابت کرتی ہیں۔پہلی دو مثالوں میں پرولتاریہ کی شمولیت یا بالکل بھی نہیں تھی یا پھر نہایت ہی کم تھی جبکہ کیوبا میں جدوجہد کی لیڈرشپ محنت کش طبقے کی پارٹی نے نہیں کی بلکہ سیاسی طاقت پر قبضے کے بعد مختلف طبقات تحریک میں عملی طور پر شامل ہوئے۔‘‘

درحقیقت طاقت پر قبضے کا اہم عنصر عام ہڑتال تھی جس نے ایک ہفتے تک پورے ملک کو مفلوج کر دیا تھا۔ محنت کش طبقہ طاقت کے زور سے انقلاب کے عمل میں داخل ہوا مگر اسکی نمائندگی کرنے والا 1917ء کی طرح سوویتوں جیسا کو ئی ادارہ موجود نہیں تھا۔ اسکے بجائے اس نے کسان گوریلاز پر اعتماد کیا۔ اس نے بیوروکریسی کے ابھار میں مدد کی اور اسے ریاست کے سر پر لا کر کھڑا کر دیا۔ چین اور ویتنام میں گوریلا لڑائی کے ذریعے سامراج کی شکست کے ساتھ سرمایہ داری کا بھی خاتمہ ہوا مگر اس سارے عمل میں جو حکومت ابھری وہ اپنے آغاز ہی سے سوویت یونین کی طرح مسخ شدہ مزدور ریاستیں تھیں۔ 1917ء کے انقلاب روس کا سب سے اہم سبق یہی ہے کہ ایک پسماندہ ملک میں بھی پرولتاریہ کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے خواہ تعداد میں کتنا کم ہی کیوں نہ ہو۔
مارکسزم کسانوں کی تحریک کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔ لاکھوں غریب کسانوں کی مدد کے بغیر جنہوں نے ہراول دستے کا ساتھ دیا اکتوبر انقلاب ناممکن تھا۔ لیکن روسی صنعتی محنت کش طبقے نے روسی سماج میں اقلیت ( محض 10فیصد کے قریب) ہونے کے باوجود بھی انقلابی تحریک کی قیادت کی۔ چونکہ صرف صنعتوں کے اندر ہی سرمایہ دارانہ پیداواری رشتے موجود ہوتے ہیں لہٰذا وہیں (صنعتوں یا فیکٹریوں میں) فیصلہ کن لڑائی ہوتی ہے۔ سوشلزم کیلئے جدوجہد میں محنت کش طبقے کو قائدانہ کردار کسی خدائی طاقت نے نہیں دیا بلکہ پیداوار کے اندر اسکے کردار نے اسے دیا ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چے گویرا 1950ء اور 60 کی دہائیوں میں سیاسی شعور حاصل کر رہا تھا اوراسکی نظر میں مغربی ممالک کے پرولتاریہ کا فیصلہ کن کردار نہیں تھا۔ یہ دراصل وہ وقت تھا جب محنت کشوں کی تحریک وقتی ٹھہراؤکا شکار تھی جس کی وجہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والا معاشی ابھار تھا۔ مگر وقتی ٹھہراؤ کو عمومی تھیوری سے بالاتر کرنا سنگین غلطی تھی۔ بدقسمتی سے فرانس میں مئی 1968ء اور اٹلی میں گرم خزاں بہت دیر سے آیا تھا کہ وہ چے کو اپنا مؤقف درست کرنے کا موقع فراہم کرتا۔

’’دو، تین، کئی ویتنام‘‘ بنانے کی کوشش میں چے نے کیوبا کے انقلاب کے تجربات کو عمومی کردار دے دیا۔ اسکے مطابق جدوجہد شہروں سے دور (جنگلوں اور دیہاتوں میں) ہونی چاہیے اور محنت کشوں کی ہراول پارٹی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لاطینی امریکہ میں بہت بڑی تعدادنے ان نظریات کو اپنایا جب کہ یہ بولیویا کے اندر چے کے تجربات کے دوران ناکام ثابت ہو چکی تھیں جسکے نتیجے میں انقلابی تنظیموں نے کیڈرز کو فیکٹریوں اور شہروں سے نکال کر انکو دیہاتوں کا رخ کروایا حتیٰ کے یوراگائے اور ارجنٹائن جیسے صنعتی ممالک میں بھی۔ فوکو تھیوری (Foco theory) کو چے کے ان الفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے:

’’انقلاب کیلئے تمام تر ضروری شرائط کا ہمیشہ ہونا لازمی نہیں ہے سرکشی کا ’’فوکو‘‘  انکو تعمیر کر سکتا ہے۔” (ای گویرا، ibidemصفحہ 284)

محنت کشوں کی تحریک اسکے الٹ بتاتی ہے، وہ یہ کہ انقلابی انقلابات (تحریکوں) میں مداخلت کرتے ہیں نہ کہ انہیں تخلیق کرتے ہیں۔ کانگو اور بولیویا کے تجربات اس مفروضے کو درست ثابت کرتے ہیں۔ چے کی تمام تر کاوشوں کے باوجود خاص طور پر کونگولیز نیشنلسٹ گوریلا قیادت کے کرپٹ کردار کی وجہ سے کونگو میں آخری عرصے کے دوران چے کے کامریڈوں کے مطابق ’’وہ سال تھا جب ہم کہیں کے بھی نہیں تھے۔‘‘
کانگو کے طلبہ گروپ جنہوں نے چین اور بلغاریہ میں تربیت حاصل کی تھی بقول چے، 

’جنگ میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا کسی قسم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ پہنچتے ہی انہوں نے 15 دن کی چھٹی مانگ لی اور احتجاج کرنا شروع کر دیا کیونکہ انکو اپنا سامان رکھنے کی جگہ میسر نہیں تھی اور انکے لیے پہلے سے ہتھیار تیار نہیں تھے۔ ایک انتہائی مضحکہ خیز صورت حال تھی جن پر انقلاب نے اپنی امیدیں باندھی ہوئی تھیں (ان کا) یہ رویہ انتہائی افسوس ناک تھا۔‘‘(وہ سال جب ہم کہیں کے بھی نہیں تھے ، پی آئی ٹیبودوم، ایف ایسکوبر، ایف گویرا 1994صفحہ 233-234)

بولیویا میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کا شعوری طور پر بائیکاٹ حیران کن تھا۔ یہاں تک کہ فیدل کاسترو نے بھی اپنی بولیویا ڈائریز (Bolivia diaries) میں بولیویا کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو غدار قرار دیا۔ مگر صرف یہ ایک عنصر بولیویا میں کیوبا کی طرز کی مہم جوئی کی ناکامی کو بیان نہیں کر سکتا۔ چے ایک گوریلا تحریک پیدا کرنے کیلئے ننکاہوازو (Nancahuazu) کے قریب علاقے میں گیا، ایک ایسا علاقہ جس کی آبادی انتہائی کم تھی، گوریلا جنگ کیلئے بالکل نامناسب تھا اور عملی طور پر قصبوں اور شہروں میں حمایتی بالکل موجود نہیں تھے۔ یہاں ہمیں فوکو تھیوری کی محدودیت نظر آتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ چے کا ارادہ ’’بولیویا کے گوریلا جوانوں کیلئے ایک سیاسی ملٹری درسگاہ‘‘ بنانا تھا تو بھی بات وہی رہتی ہے۔ ایک انقلابی کا بنیادی کام ہی شعوری ہراول دستہ تعمیر کرنا ہے جو ہمیشہ قربانی کیلئے تیار ہو۔ مگر یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ وہ ہراول دستہ اپنے آپ کو عوام سے علیحدہ نہ کرے بلکہ وہ عوام جوانقلابی تبدیلی کا فیصلہ کن عنصر ہے میں رہ کر کام کرے۔ بولیویا میں ایک مضبوط محنت کشوں کی تحریک موجود تھی جس کی ہراول پرت ٹن (tin) کے کان کن تھے۔ چے گویرا کی شہادت کے چند سالوں بعد عوام کی ایک تحریک نے 1970ء میں آمریت کا خاتمہ کر دیا اور1971ء میں لا پاز (La paz) کمیون کے مختصر تجربے کی راہ کھولی۔ ایک کارآمد انقلابی جدوجہد کیلئے سب سے بہترین ذرائع کہاں تھے؟ گویرا نے اپنی غلطیوں کا جرمانہ اپنی جان کی صورت میں دیا۔

چے گویرا کی شہادت سے کچھ وقت پہلے کی تصویر۔

اسکی سیاسی اور نظریاتی میراث پر بات کرنا ایک ناگزیر امر ہے۔چے گویرا ایک مخلص انقلابی تھا،اور اسکے نظریات کوموجودہ صورت حال کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کے صرف کیوبا اور لاطینی امریکہ کے ماضی، حال اور مستقبل کیساتھ تعلق کی بنیاد پر۔
ہم چے کے اس نتیجے کوآج سب سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو پورے لاطینی امریکہ میں پھیلایا جائے اور انٹرنیشنلزم کو محض مجرد لفظ کے بجائے انقلابی تحریک کا مرکزی خیال تصور کیا جائے ۔ ہماری نظر میں یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ کیوبا کے انقلاب کے ابتدائی سالوں میں چے اور کیوبا کا انقلاب اس نکتے پر ماسکو کے زیر سایہ کمیونسٹ پارٹیوں سے اختلاف رکھتے تھے۔کیوبا کے انقلاب کی کامیابی انٹرنیشنلزم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔آج عالمی جدوجہد کی پہلے سے کہیں زیادہ مناسبت موجود ہے۔جب ہم بڑی عوامی تحریکیں اور انقلابات دیکھتے ہیں جو وینزویلا سے بولیویا اور ایکواڈور سے ارجنٹائن تک پھیلے ہوئے ہیں تو یہ ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ ہم ان ممالک میں مارکسزم کی قوتوں کی بڑھوتری کیلئے ان کو سیاسی اور مادی امداد فراہم کریں۔

چے گویرا کی شہادت کے بعد کی تصویر۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.