|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے 23مارچ 2018ء کو بھگت سنگھ کی 87ویں برسی کے موقع پر مووی سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ’’دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘‘فلم دکھائی گئی۔ اس تقریب میں30سے زائد طلبہ اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ شرکاء کا تعلق بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ایمرسن کالج ملتان اور دیگر شعبوں سے تھا۔ مووی سیشن کے آغاز میں راول اسد نے بھگت سنگھ کی جدوجہد کے حوالے سے بتاتے ہوئے یہ کہا کہ اس فلم کو دکھانے کا مقصد قطعاً بھگت سنگھ کی شخصیت کی پرستش کرنا ہر گز نہیں بلکہ اس کا مقصد بھگت سنگھ کی جدوجہد سے نئی نسل کو روشناس کروانا اور اس سے قیمتی اسباق سیکھتے ہوئے آج اس جدوجہد کو آگے لے کر بڑھنا ہے۔ اس کے بعد فلم کا باقاعدہ آغازکیا گیا۔ تمام شرکا نے اس فلم کو نہایت ہی دلچسپی کیساتھ دیکھا۔ تقریباً 2گھنٹے 15منٹ تک جاری رہنے والی اس فلم نے تمام حاضرین کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا۔ تمام حاضرین فلم کے دوران ہنسے بھی، افسردہ بھی ہوئے اور جذبے سے سرشار بھی۔فلم میں شرکا کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ فلم ختم ہونے تک انتہائی توجہ کیساتھ بیٹھے رہے۔
فلم کے اختتام پر پروگریسو یوتھ الائنس ملتان کے کارکن فضیل اصغر نے بھگت سنگھ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک کے حکمران طبقے اور ان کے زر خرید تاریخ دانوں کی جانب سے دوسرے سچے انقلابیوں کی طرح بھگت سنگھ کے بارے میں بھی بے تحاشا جھوٹ بولے گئے اور اسے تاریخ سے مٹانے کی کوششیں کی گئیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں تو سرے سے بھگت سنگھ کا کسی بھی نام نہاد نصابی تاریخ میں ذکر تک ہی نہیں ملتا جبکہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار (ہندوستان) میں بھی بھگت سنگھ کی حقیقی جدوجہد اور کردار کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔لہٰذا یہ ہمارا اہم ترین فریضہ ہے کہ ہم مارکس وادی اس عظیم انقلابی کی جدوجہد کو دنیا کے سامنے لائیں۔ اسی وجہ سے آج اس فلم سکریننگ کا انعقاد کیا گیا ۔اسکے بعد فضیل نے بھگت سنگھ کے نظریاتی سفر پر بات کی اور بتایا کہ کس طرح بھگت سنگھ اپنے سچے جذبے اور مسلسل مطالعہ کے نتیجے میں ایک انٹرنیشنلسٹ اور مارکس وادی بنا۔اس کے بعد فضیل نے بھگت کی تحریروں پر بات کی اور حاضرین کو خاص طور پر بھگت سنگھ کی ایک تحریر جسے اس نے پھانسی سے کچھ عرصہ پہلے جیل کے اندر بیٹھ کر لکھا تھا ’’نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام‘‘ کا مطالعہ کرنے کی تجویز دی اور ساتھ کہا کہ اس تحریر میں بھگت سنگھ کے نظریاتی ارتقا کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے بالشویک پارٹی (روس میں1917ء میں ہونے والے محنت کشوں کے انقلاب کی قیادت کرنے والی پارٹی)کے کسی کیڈر نے اسے تحریر کیا ہو۔
اس کے بعد فضیل نے حالات حاضرہ پر بات کی اور بھگت سنگھ کے نظریات اور جدوجہد سے قیمتی اسباق حاصل کرتے ہوئے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت اور اہمیت پر بات کی۔