|تحریر: صغیر امین|
کرونا وباء نے ترقی یافتہ ملکوں کی ”ترقی“ کو برہنہ کر دیا ہے جن کے گُن گاتے لبرل لوگ تھکتے نہیں تھے، ایسے میں مملکتِ خدا داد کی حالتِ زار ناقابلِ بیاں ہے جہاں وباء سے پہلے تعلیمی اداروں سمیت مختلف شعبے نجکاری کے حملے سہہ رہے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں احتجاج ہو رہے تھے، وہاں وباء نے ہمارے حکمرانوں اور یہاں کے سرمایہ داروں کی عوام دشمنی اور زر کی ہوس کو مزید عیاں کیا ہے۔ مملکتِ خدا داد عرف ”ریاست مدینہ“ کا نظام تعلیم انتہائی خستہ اور زبوں حال ہے، تقریباً دو کروڑ 28 لاکھ بچے، جن کو سکولوں میں ہونا چاہیے تھا، سکول کی چار دیواری تک سے ناآشنا ہیں۔ جو سکول جاتے ہیں وہ بھاری فیسوں اور مہنگائی کی وجہ سے کالج نہیں جا پاتے اور اگر کالج کی ریکھا کو پار کر دیا تو یونیورسٹی میں لٹیرے فیسوں کا پھندا لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے یکم جون سے آن لائن کلاسز کا اجراء کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو ایک سراب، دھوکہ، فیسیں بٹورنے کا ذریعہ اور طالب علموں پر ذہنی دباؤ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چونکہ ہم طالب علموں کو ان کی عیاری و مکاری کا اچھی طرح علم ہے اس لیے ہم نے ٹویٹر، فیس بک اور دوسری جگہوں میں اس کے خلاف آواز اٹھائی اور ابھی تک اٹھا رہے ہیں۔
یونیورسٹی میں آن لائن کلاسز کا آغاز ہوا تو بہت بڑی تعداد تو شامل ہی نہیں ہو پائی اور باقی طلبہ نے مشکل سے خستہ حال انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ کلاسز لینے کا انتظام کیا، لیکن جیسے ہی کلاسز شروع ہوئیں تو مالکان بھاری فیسوں کی مانگ کرنے لگے۔ فیسوں کی مانگ پر طلبہ کے شدید غصے کا اظہار سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر ہوا، خاص کر ٹویٹر پرسمیسٹر فیس کے خاتمے کا ٹرینڈ چلایا گیا۔ سوشل میڈیا کے علاوہ عملی بنیادوں پر بھی احتجاج دیکھنے کو ملے ہیں۔
آن لائن کلاسز ایک بہترین اور ترقی یافتہ قدم ہے اور ہم اس کے خلاف نہیں ہیں لیکن بغیر سہولیات کے یہ ایک مذاق ہے۔ اگر ریاست طالبعلموں کے مستقبل اور ان کی تعلیم کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اس پرلازم ہے کہ ملک کے کونے کونے میں بہترین اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرے ہر طالبعلم کو لیپ ٹاپ مہیا کرے۔ بحران میں جب غریبوں کے چولہے بڑی مشکل سے جل رہے ہیں، اس دوران فیسیں معاف کرے۔
یہاں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کس چیز کی فیسیں لی جا رہی ہیں؟ کیا ان کی بلڈنگ استعمال ہو رہی ہے؟ کیا بجلی استعمال ہو رہی ہے؟ کیا پانی خرچ ہو رہا ہے؟ اگر کچھ نہیں تو فیسیں کس بات کی؟
غریب طلبہ اور امیر طلبہ کے مسائل ایک جیسے نہیں ہیں۔ امیروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انٹرنیٹ پیکج کتنے کا ہو رہا ہے اور فیسیں کتنی ہیں۔ وہ اپنی آسائشوں پر مبنی زندگی میں قرنطنیہ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور اے سی میں بیٹھ کر آرام سے آن لائن کلاسز میں شامل ہو جاتے ہیں جبکہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کیلئے انٹرنیٹ کے مہنگے مہنگے پیکج خریدنا مشکل ہی نہیں بلکہ نامممکن ہے اور اگر پیکج خرید بھی لیا جائے تو سندھ کے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ سگنل ڈھونڈنے کے لیے مختلف مقامات کا طواف کرنا پڑتا ہے۔ پھر یونیورسٹیوں میں کشمیر، گلگت، بلوچستان، فاٹا، وزیرستان اور بیرون ممالک تک کے طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ کیا ان کے بارے میں کچھ سوچا گیا ہے؟ ریاست کے اس طرح کے اقدام سے صرف یہی ظاہر ہوتا کہ ان کی نظر میں طالب علموں کی زندگیوں اور مستقبل سے زیادہ فیسیں ضروری ہیں اور یہ فیسوں کی وصولی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
ابھی تو خیر کلاسز اچھی طرح شروع ہی نہیں ہوئی تھیں کہ فیسوں کا مطالبہ شروع ہوگیا، لیکن اگر کلاسز چلتی رہتی ہیں تو کیا یہ ہمیں پریٹیکل کروا سکیں گے؟
یونیورسٹی میں طالب علم سٹوڈیوز یا لیب میں کام کرتے تھے مگر گھر میں تو کوئی سٹوڈیو اور لیب نہیں ہے اور پاکستان کے تمام صوبوں کے مختلف گاؤں میں رہتے ہوئے ہمیں مطلوبہ چیزیں بھی نہیں مل سکتیں اور کہیں سے مل بھی جائیں تو یونیورسٹی میں طالب علم پراجیکٹس 5 سے 10 افراد پر مشتمل گروپ میں کرتے تھے جس سے مہنگی چیزوں پر بھی زیادہ سے زیادہ فی طالب علم 1000 روپے خرچ آتا تھا لیکن اب 2000 سے 10000 روپے کا خرچ کوئی غریب اکیلے کیسے برداشت کرے گا؟
کچھ یونیورسٹیوں میں صرف ہفتہ دس دن کلاسز ہوئیں اور فیسوں کی وصولی کے بعد انتظامیہ کو یہ خیال آیا کہ آن لائن کلاسز سے طالب علم ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں، انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے وغیرہ، اس لیے اب آن لائن کلاسز نہیں ہو پائیں گی۔ اب 15 جولائی کے بعد کلاسز شروع کریں گے۔
آج طالب علموں پر جس طرح معاشی اور ذہنی حملے کیے جا رہے ہیں ایسا کبھی نہ ہوتا اگر یونیورسٹیوں میں یونین سازی کی اجازت ہوتی۔ یونین کے ہوتے ہوئے کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ طالبعلموں کو بغیر اعتماد میں لیے تعلیمی ادارے آن لائن کلاسوں کا انعقاد کر کے فیسیں نچوڑ سکتے۔ آج طلبہ کو پورے ملک میں متحد ہونا ہوگا اور ملک گیر تحریک کا آغاز کرنا ہوگا۔