مشال خان کے قتل کاانتقام سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے!

|تحریر: خالد مندوخیل|

رواں سال 13 اپریل کو مشال خان کی دوسری برسی ایک ایسے عہد میں منائی جائے گی جب پوری دنیا تحریکوں اور انقلابات کی لپیٹ میں ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں بدترین بحران سے گزر کر اپنی قبر کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔مشال خان کا دوسال قبل ریاستی پشت پناہی میں قتل بھی اس گھناؤنے نظام پر قائم فرسودہ ریاست اور اس کے انسان دشمن دلالوں پر مشتمل سازشی ٹولے کی کارستانی تھی۔ دوسال گزرجانے کے باوجود یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے ان قاتلوں کو تحفظ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس خونی نظام کو قائم رکھنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔لیکن مشال خان کے قتل کے بعد ابھرنے والی طلبہ کی تحریک اور پھر گزشتہ دو سالوں کے طوفانی واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ ان تمام مظالم کیخلاف عوامی نفرت کا لاوا پھٹنے کے قریب ہے۔

مشال خان کا قتل محض ایک دن کا واقعہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایک مخصوص یا اچانک واقعہ اسکی موت کا سبب تھا بلکہ اس منصوبہ بند قتل کے پس منظر میں ایک لمبے عرصے پر مشتمل مختلف عوامل کا ایک سلسلہ موجود تھا جس میں بہت سے ریاستی اہلکار اور یونیورسٹی انتظامیہ اور دیگر عوام دشمن عناصر ملوث تھے۔درحقیقت یہ قتل یونیورسٹیوں کے علمی ماحول کی زوال پذیری کی عکاسی کرتا ہے اور ریاستی اداروں ، یونیورسٹیوں میں انتظامیہ میں موجود اہلکاروں اورتمام انسان دشمن طلبہ تنظیموں کے حقیقی چہرے سے نقاب اٹھانے کا باعث بنا ہے جس کے بعد ہر کسی نے ان کا گھناؤنا چہرہ دیکھ لیا ہے۔معروضی طور پر اس قتل کی بنیادیں اور جڑیں پوری دنیا کے اندر سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال اور شکست و ریخت میں پیوست ہیں۔

آج پوری دنیا شدید سماجی اور سیاسی بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور پوری دنیا میں موجودسامراجی طاقتیں اور سرمایہ دار طبقہ اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر جانب عوام کو جہنم میں دھکیل رہا ہے۔ آج تعلیمی ادارے جرائم کی آماجگاہ بن چکے ہیں اور طلبہ کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور انہیں بیروزگاری اور سماجی مسائل کیخلاف تحریکوں میں ابھرنے سے روکنے کے لیے جرائم ، منشیات، فرقہ واریت، نسل پرستی اور دیگر عوام دشمن تعصبات میں جان بوجھ کر دھکیلا جا رہا ہے۔پاکستان میں بھی یہ عمل اپنی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے جہاں آبادی کا 64فیصد تیس سال سے کم عمرنوجوانوں پر مشتمل ہے۔یہاں موجودتمام روایتی سیاسی پارٹیوں کا کردار بھی اس میں مختلف نہیں اور وہ بھی حکمران طبقے کی آلہ کار ہیں اور ان پر جرائم پیشہ افراد کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے۔ چاہے وہ قوم پرست پارٹیاں ہوں یا مذہبی، یا پھر نام نہادمزدوروں اور کسانوں کی کہلانے والی روایتی پارٹیاں ہوں جو خود کو سیکولر کہلاتی ہوں، یہ سب شدید سیاسی اور نظریاتی زوال کا شکار ہوکر ختم ہونے کی طرف گئی ہیں۔ یہ عمل آج پوری دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں تین چار دہائیوں سے چلی آرہی سیاسی قیادتیں ختم ہو چکی ہیں کیونکہ وہ آبادی کی اکثریت کی بنیادی ضروریات پورے کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ جسکے نتیجے میں عوام نے ان کو مسترد کرتے ہوئے جدوجہد کے نئے راستے تلاش کرنے کا آغاز کیا اور آئے روز دنیا میں کوئی نہ کوئی نئی تحریک انقلابی قیادت کی تلاش میں ابھرتی نظر آتی ہے۔

یہی عمل پاکستان کی مخصوص صورحال کے اندر بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں ماضی میں طلبہ سیاست میں موجود بائیں بازو کی سیکولر قوت کہلانے والی سیاسی روایات گزشتہ تین دہائیوں یعنی سٹالنزم کی غداری کے نتیجے میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد نظریاتی اور سیاسی طور پر زوال پذیر اور ختم ہوچکی ہیں اور عوام اور خاص کر نوجوانوں سے مکمل طور پر کٹ چکی ہیں۔ ماضی کی اس نسل اور آج کی نوجوان نسل کے بیچ میں صدیوں کا فاصلہ آچکا ہے اور ماضی کے نام نہاد قائدین اور رہنما بالکل سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ آج کے اس تبدیل شدہ عہد میں نوجوانوں کے مسائل اور زندگی کے حالات کیا ہیں، اور عوام کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اسلئے وہ عوام اور خاص کر نوجوانوں کی بڑی اکثریت سے لا تعلق ہوچکے ہیں۔

ایسے تبدیل شدہ عہد کے اندر کئی مشال جیسے بہادر اور ترقی پسند نوجوان ایک نظریاتی متبادل اور ایک حقیقی انقلابی سیاسی پلیٹ فارم تلاش کرتے ہیں جہاں وہ کھل کر اس ملک کے اندر ہونے والے ہر قسم کے مظالم، طلبہ کے مسائل اور ان پر کئے جانے والے معاشی اور انتظامی و سیاسی جبر کے خلاف ایک سچی انقلابی جدوجہد کرسکیں۔مشال خان عبدالولی خان یونیورسٹی کا نہ صرف ایک ذہین طالبعلم تھابلکہ ایک بہادر ترقی پسند سیاسی کارکن بھی تھا جس نے اپنی شہادت سے قبل اپنی یونیورسٹی کے اندر طلبہ کو درپیش مختلف مسائل کے خلاف ایک جدوجہد شروع کر رکھی تھی۔ وہ مفت ٹرانسپورٹ، طلباء کیلئے ہاسٹلز کی فراہمی، فیسوں میں کمی کیلئے جدوجہد کیساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن اور جبر کے خلاف بھی ایک پر امن اور سیاسی جدوجہد کرتا رہا اور انہی دنوں ان مسائل کے حل کیلئے ایک احتجاجی دھرنے کی قیادت بھی کررہا تھا۔

لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ مشال خان کیساتھ اس وقت ایک انقلابی نظریات سے مسلح تنظیم موجود نہیں تھی جو کہ اپنے نظریاتی سیاسی طریقہ کار کے ذریعے اسکو موت سے بچاسکتی۔ جس قوم پرست تنظیم کیساتھ ماضی میں اسکا تعلق رہا تھا اس تنظیم کے لیڈراسکے قتل میں ریاست، یونیورسٹی انتظامیہ، جمعیت اور نیم فاشسٹ پی۔ٹی۔آئی کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑے تھے۔ یہی نہیں بلکہ مردان سے تعلق رکھنے والے اسی پارٹی کے بڑے عہدے پر فائز لوگ بھی براہ راست اس قتل میں ملوث پائے گئے لیکن اس نام نہاد سیکولرپارٹی میں کوئی انکا ایک بال تک نہیں اکھاڑ سکا جبکہ ہنوز وہ اپنی کرسیوں سے مضبوطی سے چمٹے اپنے عیاشیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

دوسری طرف ریاست کا گھناؤناکردار اس کیس میں ہمارے سامنے آیا جس میں قاتلوں کو تحفظ دیا گیااور وہ اس قتل پر مٹھائیاں بانٹتے رہے اور ایسے جلسے منعقد کرتے رہے جن میں قاتلوں کی کھل کر حمایت کی گئی۔اس کے ساتھ ہی عدالتوں کا عوام دشمن کردار نظر آتا ہے ۔آج اگر ایک معمولی ذہن رکھنے والے انسان سے آپ ان عدالتوں سے انصاف ملنے کی بات کرینگے تو وہ بغیر سوچے آپکو بے وقوف سمجھ کر آپکے اوپر ہنس پڑے گا۔ دو سال مسلسل مشال خان کا کیس ان نام نہاد عدالتوں میں چلتا رہا جس دوران اسکے والد اور وکیلوں کو دھمکیاں ملنے سے لیکر بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخر میں عدالت کی طرف سے انصاف ملنے کی بجائے حیران کن فیصلہ سامنے آیا کہ جس میں صرف دو ملزمان کے علاوہ باقی تمام ملزمان کو باعزت بری کیا گیا۔ اور امکان ہے کہ جلد ہی باقی دو ملزمان کی رہائی کیلئے بھی تگ و دو شروع کی جائے گی۔

مشال خان کو قتل کرنے اور اسکو انصاف نہ ملنے کی ایک اور بنیادی وجہ اس وقت پورے پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی اور اسکی غیر موجودگی ہے۔طلبہ یونین عمومی طور موجودہ نام نہاد طلبہ تنظیموں کے برعکس طلبہ کا منتخب کردہ ایک جمہوری ادارہ ہوتا ہے جسے ہم اس ادارے کے طلبہ کی پارلیمینٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جوکہ نوجونوں کے تمام مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے اور انکے تمام حقوق کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن آج اس یونین کی غیر موجودگی میں پاکستان کے اندر طلبہ انتہائی مشکل اور کٹھن حالات کے اندر زندگی گزار رہے ہیں۔

سمسٹر سسٹم کے دباؤ سے لیکر انتظامیہ کی بد معاشی، غنڈہ گردی اور لوٹ مار، آئے روز تعلیمی فیسوں اور اخراجات میں اضافہ، سیکیورٹی کے نام پر طلبہ کو ہراساں کرنا اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی جیسے بنیادی مسائل کا آج طلبہ سامنا کرر ہے ہیں۔ جبکہ ان مسائل کے نتیجے میں طلبہ کی جب کوئی تحریک ابھرتی ہے تو حکمران اور انتظامیہ طلبہ کی اس تحریک کاگلادبانے کی کوشش کرتی ہے۔سب سے پہلے انتظامیہ کے پالتو غنڈے طلبہ پر چھوڑے جاتے ہیں جو سیکیورٹی کے علاوہ مختلف رجعتی اور عوام دشمن طلبہ تنظیموں کی شکل میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جعلی مقدمات سے لے کر تادیبی کاروائیوں تک مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں ۔اور پھر جیساکہ مشال خان کے کیس میں نظر آیا کہ جھوٹے الزامات لگا کرایک منصوبہ بندی کے تحت قتل سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔اس تمام تر عمل کا مقصد طلبہ کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے روکنا اور ریاستی اداروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی لوٹ مار اور غنڈہ گردی کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔طلبہ کی سیاسی جدوجہد ان قوتوں کی موت کا اعلان ہے اور طلبہ یونین کی بحالی ان کی لوٹ مار اور غنڈہ گردی کے خاتمے کا آغاز ہو گی۔

مشال نے جس لوٹ مار اور غنڈہ گردی کیخلاف آواز بلند کی وہی کچھ آج پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جاری ہے۔جوں جوں ریاست کا بحران گہرا ہوتا چلا جاتا ہے توں توں حکمران زیادہ وحشی اور جابر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی لوٹ مار بڑھتی جا رہی ہے۔اس وقت پاکستان کے موجودہ حکمران خاص کر نام نہاد تبدیلی سرکار مسلسل پرائیویٹایزیشن، بیروزگاری، مہنگائی، اور لوٹ مار کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ آئے روز خوراک کی اشیاء سے لیکر دوائیوں اور استعمال کی تمام چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اور اس بحران سے نکلنے کا حل بھی آج ان حکمرانوں کے پاس انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کبھی عوام کو انڈے بیچنے کا مشورہ دیا جارہا ہے تو کبھی دو کی جگہ ایک روٹی پر اکتفا کرنے کا کہا جارہا ہے، جسکا عوام آج تو مذاق اڑا رہی ہے لیکن جلد ہی یہ مذاق ایک شدید غصے اور تحریک میں بدل جائیگا۔

ایسی صورتحال میں ان حکمرانوں کے پاس جبر اور جمہوری حقوق پر حملے کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ حالیہ دنوں بلوچستان حکومت کی طرف سے تمام تعلیمی اداروں خاص کر کالجوں کے اندر تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیاگیا ہے جس کی واضح بنیاد ایک طرف حکمرانوں کے اندر طلبہ تحریک کا خوف ہے جبکہ دوسری طرف مزید معاشی حملوں کی تیاری کرنی ہے۔ پہلے جمہوری عمل پر پابندی لگائی جائیگی پھر فیسوں میں مزید اضافہ کیا جائیگا، سیکیورٹی کے نام پر طلبہ کی مزید تذلیل کی جائیگی، ٹرانسپورٹ اور ہاسٹلز کی سہولیات پہلے طلبہ کی اکثریت کے پاس نہیں ہیں۔ایسے میں مزید لوٹ مار کیلئے میدان تیار کرنے اور تحریک کے خوف سے جمہوری سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

لیکن ان تمام اقدام کے خلاف عملی میدان میں موجودہ تمام روایتی طلبہ تنظیمیں ناکام ثابت ہوئی جبکہ طلبہ کی بڑی اکثریت ان تنظیموں سے بیگانہ ایک نئے پلیٹ فارم کی ضرورت کو محسوس کررہے ہیں۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جو ان کو بلا رنگ، نسل، زبان، قومی و مذہبی تفریق اور علاقہ کے منظم کرتے ہوئے اس سیاسی اور معاشی جبر کے خلاف کھڑا کر سکے۔ اور پورے ملک کے اندر طلبہ حقوق کی لڑائی کو عملی طور پر سائنسی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے آگے بڑھایا جائے اور پورے پاکستان میں طلبہ کو درپیش تمام مسائل کے خلاف جدوجہد کو طلبہ یونین کی بحالی کی کیمپین کے ساتھ جوڑ کر تیز کیا جائے تاکہ طلبہ آزادانہ طور پر اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکیں اور اپنے مسائل حل کر سکیں۔اس سے بھی بڑھ کر طلبہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو اس سماج میں حکمرانوں کیخلاف تمام تر نفرت اور لڑائیوں کو یکجا کرتے ہوئے انہیں سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں منظم کر سکے۔ ایسی ہی منظم قوت کی تعمیر وہ ایک راستہ ہے جس پر چل کر مشال خان کے قتل کا حقیقی بدلہ لیا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.