|تحریر: عمر ریاض|
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی ہے اور یہ پابندی ضیاء الحق کے عہد میں عائد کی گئی تھی۔ اس لیے کسی بھی تعلیمی ادارے میں طلبہ کو یونین بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ لمبے عرصے سے طلبہ یونین کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثریتی طلبہ کے ذہنوں میں طلبہ یونین کا تصّور بھی موجود نہیں ہے، اس لیے طلبہ تعلیمی اداروں میں موجود مختلف طلبہ تنظیموں اور علاقائی کونسلز کو ہی طلبہ یونین سمجھتے ہیں۔ اس لئے جب بھی یونین کے حوالے سے بات کی جائے یا اس پر سے پابندی ہٹانے کی بات کی جائے تو طلبہ کی اکثریت کا فوری ردِ عمل یونین کے خلاف جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ طلبہ یونینز کے حوالے سے کیا جانے والا سرکاری پروپیگنڈا ہے جس میں غنڈہ گردی، منشیات اور اسلحہ کلچر کو طلبہ یونینز کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی جن کونسلز اور طلبہ تنظیموں کو وہ یونین سمجھتے ہیں اُن کا تاریخی کردار ان کے سامنے عیاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ طلبہ پہلے پہل یونین کی مخالفت میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں لیکن اگر ان کے تحفظات کو تحمل مزاجی سے سنتے ہوئے ان کے ابہامات کو دور کیا جائے اور طلبہ یونین کی ساخت اوراُس کے کردار کو واضح کیا جائے تو فوری طور پر یونین کی بحالی کی حمایت میں آجاتے ہیں۔ پھر اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کے تعلیمی ادارے میں موجود مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ اگر سب مل کر ان مسائل پر بات کریں تو ان کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف طلبہ کے پاس طلبہ یونین کا واضح تصور موجود نہیں ہے اور دوسری طرف شعوری یا لا شعوری پر وہ طلبہ کے ایک اجتماعی ادارے کی ضرورت کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں طلبہ یونین کی بحالی کے لئے سب سے پہلے طلباء وطالبات میں طلبہ یونین کے حوالے سے ایک نظریاتی کمپئین کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے یونین کا شعور بیدارکیا جا سکے اور طلبہ کو شعوری طور پر یونین کی بحالی کے لئے تیارکیا جا سکے۔ طلبہ میں یونین کا شعور بیدار کرنے کے بہت سے طریقہ کار ہو سکتے ہیں لیکن سٹڈی سرکلز کا طریقہ کار آسان اور مؤثر ہے کیونکہ اس سے ایک طرف طلبہ میں پڑھنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے اور دوسری طرف یہ ایک اجتماعی عمل بھی ہے۔ لہٰذا تعلیمی اداروں، ہاسٹلز اور دیگر مقامات پر سرکلز کا انعقاد کرتے ہوئے یونین کے پیغام کو طلبہ تک با آسانی لے کے جایا جا سکتا ہے۔
کیا طلبہ کی شعوری جدوجہد کے بغیر یونین بحال ہو سکتی ہے؟ تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ تنظیموں، کونسلز اور دیگر بہت سے ترقی پسند رجحانات میں اکثر سننے کو ملتا ہے کہ طلبہ یونین پر تو قانونی پابندی ہے لہٰذا جب تک وہ ختم نہیں ہوتی طلبہ یونین بحال نہیں ہو سکتی،اس لیے اس پر کام کرنے سے ضروری ہے کہ پارلیمان میں بیٹھے ترقی پسند رجحانات تک رسائی حاصل کرتے ہوئے پہلے یونین پر سے پابندی ختم کروائی جائے اس کے بعد ہی کچھ ہو سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ یونین کی ضرورت کس کو ہے؟ تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ کو یا ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو، جنہوں نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی ہے؟ چلیں کچھ وقت کے لئے ہم مان لیتے ہیں کہ اگر کسی بھی طریقے سے قانونی طور پر یونین پر سے پابندی ہٹ جاتی ہے تو کیا تعلیمی اداروں کی انتظامیہ یا حکومت خود طلبہ یونین کے الیکشن کروانے کی طرف جائے گی؟ اس وقت پاکستان میں سندھ کے اندر قانونی طور پر طلبہ یونین بحال ہے اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی 2018ء میں طلبہ یونین پر سے پابندی ہٹا ئی جا چکی ہے تو کیا سندھ اور کشمیر میں عملی طور پر تعلیمی اداروں میں یونین کی موجودگی ہے؟
درحقیقت اس سوال کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم طلبہ یونین پر عائد پابندی کی تاریخی وجوہات کو سمجھیں تب ہی ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ طلبہ یونین کی بحالی طلبہ کی شعوری مداخلت کے بغیر ناممکن ہے۔ یونین کی موجودگی میں تعلیمی اداروں کا ماحول مکمل طور پر جمہوری تھا اور یونین طلبہ کے مسائل کو حل کرنے والے ایک ادارے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی سیاسی تربیت کی بھی آماجگاہ تھی۔ ایسے میں ایک طرف طلبہ کی نا صرف فیسوں میں اضافے سے لے کر تعلیمی نصاب اور ہاسٹلز سے لے کر دیگر تمام طلبہ مسائل پر کڑی نظر ہوتی تھی بلکہ تعلیمی اداروں سے باہر ملکی سیاست اور معیشت پر بنائی جانے والی پالیسیوں پر بھی تنقید ہوتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ طلبہ یونین کی موجودگی میں طلبہ ایک پریشر گروپ کا کردار ادا کرتے تھے جس کا ایک اظہار ہمیں 1968-69ء میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف پورے پاکستان میں طلبہ کی ایک تحریک کی شکل میں نظر آیا جس کے نتیجے میں ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد ضیاء الباطل کے عہد میں منصوبہ بندی سے حکمران طبقے نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی تا کہ طلبہ کی منظم قوت کو ختم کیا جا سکے اور خود کو درپیش خطرے سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ طلبہ یونین پر پابندی عائد کی گئی اور طلبہ کو سیاسی عمل سے کاٹ کر نا صرف تعلیم کو کاروبار بنایا گیا بلکہ نئی نسلوں کے سیاسی شعور کو بنجر کر دیا گیا اور اُس کا نتیجہ آج ہم فیسوں میں اضافے، ہاسٹلز کی عدم دستیابی، ٹرانسپورٹ کی قلت، جنسی ہراسگی، سمیسٹر سسٹم، اسائنمنٹس، پراجیکٹس، انتظامیہ کی بد معاشی اور تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کی پشت پناہی میں موجود غنڈہ گرد تنظیموں کی غنڈہ گردی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یونین کی ضرورت طلبہ کو ہے تا کہ وہ اپنے مسائل کو حل کر سکیں نہ کہ حکمران طبقے کو کہ وہ یونین بحال کر کے اپنے لئے نئے مسائل پیدا کرے۔
ایسے میں جب تک طلبہ کی ایک بڑی پرت تک یونین کا پیغام پہنچاتے ہوئے طلبہ یونین کے حوالے سے موجود پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرتے ہوئے انہیں حقیقت سے آگاہ نہیں کیا جاتا، یونین کی بحالی عملی طور پر ناممکن ہے۔ اس لیے آج تمام تعلیمی اداروں میں سرکلز اور دیگر پروگرامات کے ذریعے طلبہ تک یونین کا پیغام لے کر جاتے ہوئے تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ کو ایک تنظیم میں پرونے کی ضرورت ہے تا کہ پورے پاکستان میں ایک آواز ہوتے ہوئے طلبہ یونین کا نعرہ بلند کیا جائے اور ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں سے جدوجہد کے ذریعے ،طلبہ یونین کا حق چھینا جائے اور طلبہ یونین کے الیکشن کرواتے ہوئے طلبہ کی حقیقی نمائندگی حاصل کی جا سکے۔
اس سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کی ایک نمائندہ تنظیم کے طور پر پورے پاکستان کے بیشتر تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کی ایک کمپئین کا آغاز کئے ہوئے ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پاکستان کے تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ و طالبات کو اور دیگر ترقی پسند طلبہ گروپوں یا تنظیموں کو یہ دعوت دیتی ہے کہ آئیں مل کر طلبہ مسائل کے حل کے لئے طلبہ یونین کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور’ایک کا دکھ، سب کا دکھ‘ کی بنیاد پر ایسا مضبوط اتحاد قائم کریں جس کی مثال مستقبل کی کامیابی کی صورت میں تاریخ کا حصہ بن جائے۔ صرف اسی صورت میں ہم یونین کا حق حاصل کر سکتے ہیں اور پاکستان میں طلبہ میں سیاسی اور جمہوری اقدار کو بیدار کرتے ہوئے اپنے بہتر مستقبل کا تعین خود اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔