برطانوی راج کے ہاتھوں 1947ء میں برصغیر کے خونی بٹوارے کو سرحد کے دونوں پار حکمران طبقے کی جانب سے آزادی کے طور پیش کیا جاتا ہے۔ مگر کیا یہ واقعی آزادی ہی تھی جب لاکھوں عوام کو آپس میں لڑا کر اور ہجرت پر مجبور کر کے انہیں خون کی ندی اور دنگے فساد کی دلدل میں دھکیلا گیا تھا؟ بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے اس سوال کوکئی دفعہ اٹھایا ہے اور اس تاریخی قتل و غارت پر اہم ادب پارے تخلیق کیے ہیں۔ 1956ء میں شائع ہونے والا ناول ”ٹرین ٹو پاکستان“ میں بھی اس سوال کی منظر کشی کی گئی ہے جو انڈیا کے نامور مصنف خشونت سنگھ نے اپنے تجربات کی بنیاد پر لکھا ہے۔
1998ء میں اسی نام پر بنائی گئی فلم کی ڈائریکٹر پیمیلا روکس ہے، جس میں بڑی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ ناول کو پردے پر اتارا گیا ہے جبکہ موسیقی بھی لطف کو دوبالا کر دیتی ہے۔ یہ پنجاب کے ایک گاؤں منو ماجرا کی کہانی ہے، جہاں دریائے ستلج کے اوپر سے ریل گاڑی گزر کر جاتی ہے۔ یہ ایک پُر امن گاؤں ہوتا ہے جہاں ہندو، سکھ اور مسلمان ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں اور چھوٹی موٹی ڈکیتیوں کے انفرادی واقعات کے علاوہ بڑے پیمانے پر کوئی جرم اور فساد نہیں ہوتا۔ کہانی کا آغاز تب ہوتا ہے جب پاکستان نیا نیا بنا ہوتا ہے اور دونوں اطراف سے ہجرت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک دن پاکستان سے ایک ریل گاڑی آتی ہے جو ہندو اور سکھ مرد، عورتوں اور بچوں کی لاشوں سے بھری ہوتی ہے، جسے دیکھ کر گاؤں والوں کا امن و امان برباد ہو جاتا ہے۔
فلم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ضلع کا مجسٹریٹ حکم چند ہے جسے شراب نوشی کی لت ہے اور اسے ایک نوجوان طوائف کی عادت پڑ جاتی ہے؛ جگّا نامی ایک سکھ ڈاکو جو مسلمان لڑکی پر عاشق ہوتا ہے؛ اور گاؤں کے کسانوں کو منظم کرنے کے لیے آنے والا ایک کمیونسٹ اقبال سنگھ۔ بٹوارے کے دوران گاؤں کے اوباش نوجوانوں اور ڈاکوؤں کا ایک ٹولہ پاکستان جانے والی ریل گاڑی پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے جس میں جگّے کی معشوقہ نوراں بھی سوار ہوتی ہے۔ نوراں کی وجہ سے جگا ایک کشمکش میں مبتلا ہوجاتا ہے اور محبت اور نفرت کے جذبات کے درمیان ہچکولے کھاتا ہے۔ فلم میں پولیس کے ادارے کا عوام دشمن اور قابل نفرت کردار بھی دکھایا گیا ہے جو برطانوی سامراج نے یہاں کے مقامی افراد پر جبر کرنے کے لیے بنایا تھا۔ بٹوارے کے 76 سال بعد بھی پولیس کا ادارہ اپنے کالونیل کردار سے لتھڑا ہوا ہے اور محنت کشوں پر بد ترین جبر کرتا ہے جبکہ حکمرانوں کی خدمت پر ہر وقت مامور رہتا ہے۔
بالی ووڈ کی انتہائی قابل اداکارہ دیویا دتہ نے بھی اس فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں جبکہ حکم چند کا کردار موہن آگاشے نے اور جگے کا کردارنرمل پانڈے نے ادا کیا ہے۔ کہانی میں سیاسی پہلو سے کوئی خاص بحث نہیں کی گئی مگر یہ ضرور دکھایا گیا ہے کہ نفرت اور مذہبی بنیاد پرستی انسانی رشتوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ بٹوارے کے دوران ہونے والی قتل و غارت میں ریاستی اداروں کی مکمل سرپرستی شامل تھی اور قتل و غارت کی تمام تر منصوبہ بندی فوج، پولیس اور دیگر اداروں کے سربراہان کے ذریعے نیچے تک پہنچائی جاتی تھی اور مقامی سطح پر موجود جرائم پیشہ افراداور اوباشوں کے ذریعے اس پر عملی جامہ پہنایا جاتا تھا۔ بظاہر نظر آنے والے اس پاگل پن میں ایک باقاعدہ میتھڈ شامل تھا جس کی ذمہ داری برطانوی سامراج، مقامی سیاستدانوں اور ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اس فلم میں بھی اس عمل کی جھلک نظر آتی ہے۔