منشی پریم چند کے اسی نام کے ایک اہم افسانے پر ہندوستان کے مشہور فلم ساز ستیہ جیت رے کی یہ 1977ء میں بنائی گئی فلم کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس فلم میں مشہور اداکاروں امجد خان اور سنجیو کمار نے اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں اور اس فلم کو امر کر دیا ہے۔ امجد خان ”شعلے“ فلم کے گبر خان کے کردار کے لیے مشہور ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اودھ کی ریاست کے آخری بادشاہ واجد علی شاہ کا کردار کمال مہارت سے ادا کیا ہے جو گبر سنگھ کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
سنجیو کمار نے بھی لکھنؤ کے نواب کا کردار بہت خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ ستیہ جیت رے کی زندگی کی چند بہترین فلموں کی اگر فہرست بنائی جائے تو یہ فلم اوپر کے نمبروں میں لازمی جگہ بنائے گی۔ یہ افسانہ اور فلم ہندوستان کی پرانی تہذیب پر انتہائی اہم تنقید ہے خاص کر اس وقت جب سرمایہ دارانہ نظام یہاں پر اپنے قدم جما رہا تھا۔ برطانوی سامراج کے آنے سے یہاں پر صرف حکمران ہی تبدیل نہیں ہوئے بلکہ پورا سماجی معاشی نظام بھی مکمل طور پر تبدیل ہو گیا تھا۔
تمام تر سماجی رشتے اور ملکیت کا نظام تہہ و بالا ہو گیا تھا اور سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نئی طرز پیداوار اور سماجی رشتے استوار ہوئے تھے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ کیسے شاعروں، اساتذہ اور دیگر اہم شعبوں کی اہمیت ختم ہو گئی تھی اور تمام تر رشتے صرف روپے پیسے سے طے ہوتے تھے۔ لیکن لکھنؤو کے نوابوں کا اس سماجی تبدیلی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور وہ مرغوں کی لڑائی، کبوتر بازی اور شطرنج کے کھیل میں مگن تھے جبکہ ان کے ارد گرد کی دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو رہی تھی۔
نوابوں کی محفلوں کو انتہائی مہارت کے ساتھ سکرین پر پیش کیا گیا ہے اور رقص و سرود سے لے کر لباس اور سیٹ پر اتنی محنت کی گئی ہے کہ فلم دیکھنے والا خود کو اسی دور میں محسوس کرتا ہے۔ ڈائیلاگ اور فلم میں دکھائے گئے اہم واقعات کسی بھی جگہ دیکھنے والے کو نظریں نہیں ہٹانے دیتے۔ یقینا دیکھنے والے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور اسے بار بار دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔
اس فلم کا تعلق موجودہ دور سے بھی بنتا ہے کیونکہ آج پھر پوری دنیا اور ہمارا خطہ بھی تاریخ کی اہم ترین تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور تاریخی واقعات رونما ہو رہے ہیں جبکہ بہت سے لوگ انتہائی معمولی بحثوں، غیر ضروری مشاغل میں الجھے ہوئے ہیں اور زوال پذیر سماج کی زوال پذیر ثقافت کا شکار ہیں۔
آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو ماضی کی کسی خود ساختہ عظمت اور تاریخی اہمیت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اور دیو مالائی قصوں کی گردان میں زندگی گزار دیتے ہیں جبکہ ان کا اپنا عمل انتہائی غلاظت اور منافقت سے اٹا ہوتا ہے۔ یہ فلم یقیناً ایسے ہی افراد پر تنقید ہے جو سماج میں موجود ان تضادات کو فنکارانہ مہارت سے واضح کرتی ہے۔