یہ فلم پاکستانی ڈائیریکٹر صبیحہ ثمر نے بنائی ہے جو 2003ء میں ریلیز کی گئی۔ اس میں 1970ء کی دہائی کے اواخر میں ضیاء آمریت کے تحت پاکستانی سماج پر مسلط کی جانے والی بنیاد پرستی کی بہت خوبصورت انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ اس کی کہانی پنجاب کے ایک گاؤں چرخی میں مقیم افراد کے گرد گھومتی ہے، جو حکمران طبقے کی جانب سے شعوری طور پر پھیلائی گئی بنیاد پرستی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ اس فلم میں بھارت اور پاکستان، دونوں کے فنکاروں نے کام کیا ہے، جبکہ کہانی کے مرکزی کردار بھارتی اداکاروں نے ادا کیا ہے جن میں کرن کھیر، عامر علی اور شلپا شکلا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد تھیٹر کے معروف اداکار اور ملک میں سٹریٹ تھیٹر کو معروف کروانے والے سرفراز انصاری نے بھی بہترین اداکاری کی ہے۔
فلم میں فلیش بیک (flash back) تکنیک سے کہانی کا پسِ منظر بھی چلتا رہتا ہے، جس میں تقسیمِ ہند کے وقت گاؤں سے سکھوں کی ہجرت اور مذہب کی بنیاد پر ہونے والے فسادات کو دکھایا جاتا ہے۔ فلم کا زیادہ تر حصّہ 1978ء میں ضیاء کی آمریت کے بعد ہونے والی سماجی تبدیلیوں کو دکھاتا ہے، جب حکمران مذہب کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ نوجوانوں اور عوام کے بیچ تنگ نظری پھیلا کر مذہبی منافرت کو شدید کر دیا جاتا ہے اور انہیں سوویت یونین کے خلاف ڈالرجہاد کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اس کے لیے ہر گاؤں اور شہر میں سرکاری پشت پناہی سے مذہبی منافرت پر مبنی غلیظ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جس میں با اثر مقامی افراد کی مدد بھی لی جاتی ہے۔ اس ساری صورتحال میں تقسیم کے وقت پیچھے رہ جانے والی ایک سکھ خاتون کی کہانی بھی چلتی رہتی ہے، جسے اغواء کر کے زبردستی مسلمان بنایا گیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو بنیاد پرست خیالات کے سراب میں جاتا دیکھ تشویش کا شکار ہوتی ہے اور اسے سمجھانا چاہتی ہے۔
فلم کے اختتامی مناظر میں مشرف کے دور کو دکھایا گیا ہے، جب اپنے سامراجی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے حکمران سیکولرزم کی چادر اوڑھ لیتے ہیں جبکہ بنیاد پرستی کی پشت پناہی بھی جاری رہتی ہے۔ البتہ فلم میں محض ایک رُخ دکھایا گیا ہے۔ پاکستان کے سماج میں دوسری جانب حکمرانوں کے حربوں کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد تب بھی جاری تھی اور آج بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج عوام کی اکثریت کے سامنے حکمرانوں کی تدبیریں بڑے پیمانے پر واضح ہو چکی ہیں، اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریک متبادل کی تلاش میں مستحکم ہونے کی طرف گئی ہے۔