فلم ری ویو: کالکا (Kalka)

1983ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں شترو گھن سنہا نے کالکا نامی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس فلم کو 80ء کی دہائی کے مخصوص ڈرامائی انداز میں فلمایا گیا ہے۔ یہ کوئلے کے کان میں کام کرنے والے محنت کشوں کی کہانی ہے جو شدید استحصال کا شکار ہوتے ہیں اور خوراک، علاج جیسی بنیادی ضروریات تک پورا نہیں کر پاتے۔ اس کے علاوہ حفاظتی اقدامات کے فقدان اور افسران کی لاپرواہی کے باعث حادثات میں جان کھو دینا بھی ایک معمول ہوتا ہے۔ مگر عیاشانہ زندگی گزارنے والے مالکان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، جنہیں اپنے منافعوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ افسران کے دماغ میں شروع سے ہی یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ کوئلہ مزدوروں کی جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر کوئی صحافی مالکان کے خلاف کوئی خبر چھاپتا ہے تو اس کے خلاف بھی انتقامی کارروائی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب مزدوروں کے خاندان فاقوں کا شکار ہو کر قرضوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ جب انتہائی مجبوری کی حالت میں محنت کشوں کی بیویاں دکاندار سے قرض پر سودا سلف لانے جاتی ہیں تو وہ انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ ان حالات سے تنگ آ کر کالکا مالکان کے خلاف جدوجہد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور مزدوروں کو منظم کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کو ہڑتال کرنے کا کہتا ہے۔ اس دوران اسے پتہ چلتا ہے کہ گاؤں کے کسان بھی سرمایہ داروں سے محفوظ نہیں، جو زمینوں پر قبضہ کر کے ادھر کارخانے کھولنا چاہتے ہیں۔ کالکا اپنے کسان ساتھیوں سے کہتا ہے کہ کھیتوں سے لے کر کوئلہ کے کانوں تک ہمارا دشمن ایک ہے، ہماری لڑائی ایک ہے۔ اس لیے ہمیں مل کر لڑنا ہوگا۔ وہ اپنی تحریک کو منظم کرنے اور دشمنوں سے اسے محفوظ رکھنے کے حوالے سے کہتا ہے کہ ہمیں ایسے کام کرنا ہوگا جیسے رات کے اندھیرے میں جھینگر کی آواز ہوتی ہے۔ ”یہ دکھائی تو نہیں دیتا لیکن اس کی آواز اندھیرے کو چیر دیتی ہے“۔
ہڑتال کے آغاز میں مالکان کا خیال ہوتا ہے کہ مزدور کچھ عرصہ بعد فاقوں سے تنگ آ کر واپس کام پر آ جائیں گے مگر جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ کچھ شرابیوں کو معاوضے میں شراب دینے کا کہہ کر کام پر لے آتے ہیں۔ جب زہریلی شراب پینے کے باعث ایک شخص کی موت واقع ہو جاتی ہے تو گاؤں کے لوگ نکل کر شراب کی دکان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد مزدور کوئلہ کان کو اپنے قبضے میں لیتے ہیں اور گاؤں کی عورتیں بھی دکاندار سے اپنا بدلہ لینے کے لیے مل کر اس پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
فلم کے گانے اور موسیقی بھی انقلابی حرارت سے بھرپور ہیں جو جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ نے کمپوز کیے اور گائے ہیں۔ خاص طور پر فلم کا گانا ”کالی تیری جے“ میں انتہائی ڈرامائی مناظر فلمبند کیے گئے ہیں جب کالی ماتا کی مذہبی تقریب کے دوران سرمایہ دار اور مزدور آمنے سامنے ہو جاتے ہیں اور گانے کے دوران کالکا کدال لے کر خود گانے لگتا ہے،”ہم مائی کے ہاتھ ہزاروں، ہم مائی کے ساتھ ہزاروں“، ”ہمری چلتی رہے لڑائی، آگ نہ بجھنے پائے بھائی“، اور پھر سب مزدور مل کر گاتے ہیں ”ہمری پوجا ہمری لڑائی رے“۔ مزدوروں کا جوش و خروش اور جذبہ دیکھ کر سرمایہ دار وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
فلم کے ڈائریکٹر لوکسن للوانی ہیں جبکہ راج ببر، امجد خان، ساریکا، رنجیت بیدی اور شتروگھن سنہا سمیت تمام اداکاروں نے انتہائی عمدگی سے اپنے کردار نبھائے ہیں۔ بلکہ اس فلم کو ان تمام اداکاروں کی سب سے بہترین فلم قرار دیا جائے تو بالکل بھی غلط نہیں ہوگا۔
فلم میں کہانی کے ذریعے واضح ہوتا ہے کہ جب ظلم اور استحصال حد سے بڑھ جاتا ہے تو بغاوت کا ابھرنا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ آج پاکستان کے کوئلہ کانوں میں بھی حادثات کا رونما ہونا ایک معمول بن گیا ہے اور محنت کشوں کی دیگر پرتیں بھی شدید استحصال اور محرومی کا شکار ہیں۔ اگر وہ اپنے ہاتھ روک لیں تو معیشت کا کوئی بھی شعبہ نہیں چل سکتا۔ جیسا کہ کالکا ہڑتال کے دوران مالک سے کہتا ہے کہ کلہاڑی پر اپنے نوٹوں کی گڈیاں باندھ کر بھی کان میں اتار دو تو مزدور کے ہاتھ کے بغیر تمہارا کوئلہ نہیں کٹے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.