موجودہ نظام تعلیم غلام پیدا کرتا ہے!

|تحریر: سنگر خان|

ہر دور میں حکمران طبقہ انقلابی نظریات کی روک تھام کیلئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتا آیا ہے۔ بہر حال، خواہ حکمران طبقے کی جانب سے کتنی ہی جکڑ بندیاں کیوں نہ ہوں، وقت کا سچ، یعنی رائج الوقت نظام سے بغاوت، سامنے ضرور آتا ہے۔ جو لوگ اس سچ کو سامنے لاتے ہیں وہ انقلابی ہوتے ہیں اور اس وقت کے حکمرانوں کے غیض و غضب کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ سماج کو آگے لے جانے والے نظریات ہی ترقی پسند نظریات ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح جہاں ایک طرف حکمران طبقے کا جھوٹا اور عوام کو مطیع بنانے کا فلسفہ اور نظریات موجود ہوتے ہیں تو وہیں دوسری طرف ترقی پسند فلسفہ اور نظریات بھی سماج میں موجود ہوتے ہیں۔ البتہ ترقی پسند نظریات و فلسفہ معمول کے دنوں میں محدود وسائل اور طاقتور حکمران طبقے، جو پوری ریاستی مشینری کا مالک ہوتا ہے اور اسے اپنے نظریات کے پرچار اور ترقی پسند نظریات کی روک تھام کیلئے بھرپور انداز میں استعمال کرتا ہے، کا سامنا ہونے کی وجہ سے زیادہ پذ یرائی حاصل نہیں کر پاتا۔

سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیمی ادارے بھی اسی مشینری کا حصہ ہوتے ہیں، حکمران طبقہ ان تعلیمی اداروں کو اپنی حکمرانی اور استحصال جاری رکھنے کے لیے بطورِ اوزار استعمال کرتا ہے۔ تعلیمی درجہ بندیوں سے لے کر نصاب اور امتحانی سسٹم کو اس طرح سے ترتیب دیا جاتا ہے کہ جس سے نظام کے خلاف جنم لینے والی تمام سوچوں کو دفن کیا جا سکے، اور رائج الوقت نظام کی بقا کے لیے ایندھن تیار کیا جا سکے۔ لہٰذا تعلیمی اداروں کے ذریعے مزدور دشمن نظریات اور فلسفے کی ترویج کی جاتی ہے۔

حکمران طبقے کی جانب سے نظام تدریس کے استعمال کے حوالے سے مشہور لکھاری پاؤلو فریرے کا کہنا ہے کہ؛ علم و تدریس کے نظاموں کی دو اقسام ہیں؛ ایک ترقی پسند نظام تعلیم اور دوسرا بینکاری نظام تعلیم۔ فریرے کے مطابق ترقی پسند نظام تعلیم طلبہ کے سامنے حقیقی مادی دنیا کے راز آشکار کرتا ہے اور انہیں اپنے ارد گرد موجود مظاہر کا علم دیتا ہے۔ طلبہ اس طرح کے نظام تدریس کے ذریعے سماج کے اندر جاری نا انصافی اور عدم مساوات کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں، جس سے ان کے اندر سماج کو تبدیل کرنے کی جستجو جنم لیتی ہے۔ یہ نظام طلبہ کے اندر تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ اس نظام میں تدریسی عمل دو طرفہ ہوتا ہے، جہاں طالب علم اور استاد دونوں بیک وقت طالب علم بھی ہوتے ہیں اور استاد بھی، جس میں دورانِ تدریس استاد اور طالب علم دونوں سیکھ بھی رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو سکھا بھی رہے ہوتے ہیں۔

دوسرے نظامِ تدریس کو وہ بینکاری نظامِ تعلیم کا نام دیتا ہے، جو آج کل پوری دنیا کے تعلیمی اداروں میں رائج ہے۔ ترقی پسند نظامِ تدریس کے برعکس بینکاری نظامِ تدریس میں تدریسی عمل یک طرفہ ہوتا ہے۔ اس نظام میں استاد نے جو کچھ اپنے زمانہ شاگردی میں یاد کیا ہوتا ہے، وہ طلبہ کوہُو بہو منتقل کردیتا ہے۔ اس نظام میں طلبہ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں جس میں استاد اپنا ذخیرہ شدہ علم منتقل کرتا ہے۔ اس نظام میں طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ استاد عقلِ کُل ہے اور طالب علم کم عقل۔ اب طالب علم چونکہ کچھ نہیں جانتا، لہٰذا اسے ہمیشہ استاد کے صادر کردہ احکامات کی پیروی کرنا ہوتی ہے۔ پرائمری سکول سے لے کر گریجوایشن تک ڈسپلن کے نام پر طلبہ کو اطاعت کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ طلبہ سے ان کی مرضی چھین لی جاتی ہے، انہیں بیٹھ جاؤ، کتاب کھولو، فلاں صفحہ پر فلاں سوال کا جواب دیکھو اور اسے یاد کرو جیسے احکامات دیے جاتے ہیں۔ طلبہ کو ان احکامات کے اوپر سوالات اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

بینکاری نظام تعلیم میں نصاب کی ترتیب میں نہ تو طلبہ کی رائے شامل ہوتی ہے اور نہ ہی اس نصاب میں شامل نظریات اور معلومات پر سوال اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ نصاب ہمیشہ بالادست طبقے کے طرف سے اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے جو طلبہ کو سماج سے کاٹے۔ انہیں اپنے ارد گرد جاری نا انصافی اور استحصال کے بارے میں سوچنے اور اس پر سوال اٹھانے سے روکا جائے۔ طلبہ کو سماج کے بارے میں نہیں پڑھایا جاتا۔ انہیں یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ جس سماج میں وہ زندگی گزار رہے ہیں، اس کا معاشی نظام کیسے چلتا ہے۔ انہیں سیاست نہیں سکھائی جاتی بلکہ انہیں سیاست سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاسی جدوجہد سے دور رہیں۔ یوں اس طرح کے طریقہ تدریس سے معاشرے میں تبدیلی آنے کی بجائے سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی اور استحصال کو مزید تقویت ملتی رہتی ہے۔

یہ نظام تدریس کسی قسم کی تخلیقی اور تنقیدی سوچ کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتا، اور قابلیت کا معیار پہلے سے موجود معلومات کو بہتر طریقے سے رٹہ لگا کر امتحان میں لکھنا ہوتا ہے۔ اس طرح صرف بہتر یادداشت کے مالک طلبہ ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔ طلبہ کو مشین بنا دیا جاتا ہے اور انہیں نوکری کرنے اور سرمایہ داروں کی طرف سے دی جانے والی اجرتوں میں سے زیادہ حصہ اپنے نام کرنے کی دوڑ میں لگا دیا جاتا ہے۔ اچھی نوکری کے حصول کے لیے طلبہ نمبروں کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں، جس سے اکثریت نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور کئی ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کشیاں کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔

سرمایہ دار طبقے کو نسل در نسل ہنر مند مزدورں کی ضرورت ہوتی ہے جو کارخانوں، ملوں اور فیکٹریوں میں پیداواری عمل کو جاری رکھتے ہوے سرمایہ داروں کے لیے قدرِ زائد پیدا کر سکیں، جس سے پھر وہ منافعے کمائیں۔ پھر خواہ وہ انجینئرز ہوں، پائلٹ ہوں، سائنسدان ہوں، فنکار ہوں یا ڈاکٹر، سب اس نظام تدریس سے پاس ہونے کے بعد ملکی و ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازم بھرتی ہوتے ہیں اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔

ایک انسان دوست ترقی یافتہ سماج کے قیام کے لیے تعلیم کو ترقی پسند تعلیمی نظام کے تحت استوار کرنا ہوگا۔ جس میں استاد اور طالب علم کے درمیان دو طرفہ تدریسی گفتگو ہو۔ رجعتی نظریات کی نظام تدریس میں رتی برابر بھی گنجائش موجود نہ ہو۔ رٹہ سسٹم کی جگہ تنقیدی و تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔ مقابلہ بازی کی جگہ باہمی اشتراک سے سیکھنے کو فروغ دیا جائے۔ مگر یہ سب موجودہ سرمایہ دارانہ نظام، جس میں منافع کو انسانی ضروریات پر ترجیح دی جاتی ہے، میں ممکن نہیں۔ یہ نظام اب سماج کو ترقی دینے کے رستے میں رکاوٹ بن چکا ہے، اب اسے اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور اس کی جگہ ایک ایسا نظام لانا ہوگا جو انسانوں کو منافع پر ترجیح دے۔ کارل مارکس نامی انقلابی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ذاتی ملکیت کا خاتمہ کر کے سماج کی تمام دولت اور دولت پیدا کرنے کے ذرائع مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے چھین کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیے جائیں اور تمام وسائل کو انسانوں کی اکثریت کے لیے استعمال کیا جائے۔ یقینا آج ایک سوشلسٹ نظام میں ہی ایسے نظام تدریس کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور اربوں انسانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو موثر انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.