صلاح الدین کا جرم، چوری یا غربت؟

|تحریر: آصف لاشاری|

رحیم یار خان میں پولیس کے ہاتھوں جبر و تشدد کا شکار ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہارنے والے صلاح الدین کی موت نے معاشرے میں پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کے کردار کے متعلق بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ جہاں لوگوں نے ریاستی اداروں کے متعلق سوالات پر سوچنا شروع کیا ہے، وہیں طبقاتی نظام کے متعلق سوالات کے گرد بھی بحث جاری ہے۔ صلاح الدین کے بہیمانہ قتل نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر مجرم کا تعلق نچلے طبقے سے ہو تو امیر طبقے کا یہ نظام اور ادارے اسے نشانِ عبرت بنانے میں ذرا دیر نہیں کرتے اور طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے اربوں روپے لوٹنے والوں کا بال بھی بیکھا نہیں ہوتا اور یہ نظام ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اگر نظام کے بحران اور طبقہ اشرافیہ کی آپسی لڑائی میں کبھی امیر طبقے کے کسی ڈکیت پر قانون کی عملداری کا کوئی ڈرامہ رچایا بھی جاتا ہے تو اس ڈرامے میں بھی ان کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے اور وکلا اور صحافیوں کی فوج ہمیشہ ان کے آگے پیچھے رہتی ہے۔ ان کی عدالتوں کی پیشیاں بھی اخباروں کی شہ سرخیاں بنتی ہیں۔

مشال خان کا انسانیت سوز قتل ہو، سانحہ ساہیوال میں بے قصوروں کا قتل یا صلاح الدین کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہو، یہ تمام واقعات عوامی ردِ عمل کا باعث بنے کیونکہ یہ واقعات سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کے کئی واقعات ہر روز جنم لیتے ہیں جو لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے اور ہر روز ہزاروں لوگ جن میں اکثریت نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہے تھانوں کے اندر اس طرح کے بہیمانہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ہر روز تھانوں میں تشدد برداشت کرنے والوں کا اصل جرم یہ ہوتا ہے کہ وہ ان تھانوں میں بیٹھے لٹیروں کو جاں خلاصی کے لیے مطلوبہ رقم ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس کا زندگی میں کبھی ان ریاستی اداروں سے واسطہ پڑا ہو، ان اداروں کے طبقاتی کردار کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔ پراڈو سے اتر کر تھانے میں داخل ہونے والے شخص کی خوشامد و چاپلوسی کی جاتی ہے اور ایک غریب کو سوائے گالیوں اور دھتکار کے کچھ نہیں ملتا۔

اس ریاست کے تمام ادارے غریب طبقے کی پہنچ سے کوسوں دور ہیں اور لوگ اپنے تجربے سے ان اداروں کے کردار سے واقف ہوتے جا رہے ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں کے اندر ان اداروں کے خلاف غصہ بھی جمع ہوتا جا رہا ہے جو کسی بھی وقت عوامی تحریک کی صورت میں ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔

یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ سماجی حالات سماجی شعور کا تعین کرتے ہیں اور لوگ اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں۔ واقعات کا سلسلہ لوگوں کے شعور میں تبدیلیوں کو جنم دیتا ہے اور لوگ ان تصورات کے متعلق سوچنا شروع کرتے ہیں جنہیں وہ اٹل حقیقت مان چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہم کسی بھی واقعے پر ظاہر ہونے والے عوامی ردِ عمل سے لوگوں کے شعور کے متعلق بھی جان سکتے ہیں۔

چند سال پہلے تک ہمیں ہر طرف سماجی بے حسی چھائی نظر آتی تھی، ایسے لگتا تھا کہ کسی کو کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اے پی ایس کے واقعے کو ہم ٹرننگ پوائنٹ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہمیں ایک بڑا سماجی ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ اے پی ایس کے واقعے کے بعد مشال خان کے بہیمانہ قتل کیے جانے کے خلاف بھی ہمیں شدید ردِ عمل دیکھنے کو ملا۔ اسی طرح زینب کے ریپ اور قتل کے واقعے سے لے کر سانحہ ء ساہیوال تک ہمیں شدید عوامی ردِ عمل نظر آیا۔ ان تمام واقعات نے اس سماج، اس کے اداروں اور اس کی ثقافت کی پراگندگی کو سب پہ عیاں کر دیا ہے۔

ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ ریاست اور اس کے ادارے عوام پر جبر کرنے کے وہ آلے ہیں جو عوام کو محکوم بنائے رکھنے اور حکمران طبقے کی حکمرانی کو جوں کا توں قائم رکھنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اداروں کے عوام کی جانب تشدد آمیز اور ہتک آویز رویے کی وجہ ان اداروں میں بیٹھے چند غلط لوگ نہیں بلکہ بطور کل ان اداروں کا کردار ہی یہی ہے۔ یہ نظام جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں ایک عالمگیر نظام ہے اور دنیا بھر میں زوال پذیر ہے اور ہر جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے خصی حکمران طبقے سے کسی قسم کی سماجی بہتری کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بار بار کی چہروں کی تبدیلی سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ محض حکمرانوں کے چہروں کو بدلنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، عوام کو اپنے مقدر بدلنے کے لیے خود سیاست کے میدان میں اتر کر سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی اور اس نظام کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

اس لیے سماج کی تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کرنے والے باشعور لوگوں کو سماج کی حقیقی تبدیلی کے لیے ایک محنت کش عوام کی نمائندہ انقلابی پارٹی کی تعمیر کرنی ہو گی۔ ایک ایسی پارٹی کی تعمیر کرنی ہو گی جو اس ملک کی محنت کش مظلوم کو متحد کرتے ہوئے اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے اس نظام کو اکھاڑ پھینکے اور ایک نئے منصفانہ سماجی نظام کی تعمیر کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.