کرونا وائرس اور گلگت بلتستان کے طلبہ کے مسائل

|تحریر: اظہر علی|

Corona virus and Problems of Gilgit Baltistan Students

پاکستان کے باقی علاقوں کی طرح گلگت بلتستان بھی کرونا وائرس سے متاثر ہے، اب تک یہاں 330 افراد میں اس مہلک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جن میں سے دوسو پچیس افراد صحت یاب ہوئے جبکہ تین افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں دو کا تعلق میڈیکل کے شعبے سے ہے (ڈاکٹر اسامہ ریاض اور مالک اشدر)، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کرونا کے مسئلے کو لے کر کس قدر سنجیدہ ہے۔ وائرس کی وجہ سے جہاں زندگی کے باقی تمام شعبہ جات متاثر ہوئے ہیں وہیں طلبہ بھی بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

گلگت بلتستان کے زیادہ تر طلبہ محنت کش یا پھر لوئر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں محنت کش طبقے اور مڈل کلاس طبقے میں فرق واضح نہیں تھا لیکن اب سیاحتی انڈسٹری کے پھیلاؤ سے ان طبقوں میں فرق کافی واضح ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود یہاں کی مڈل کلاس بھی محنت کش طبقے کی طرح ہی اپنے بچوں کی تعلیم پر بہت زور دیتی ہے، کیونکہ کاروبار یا زراعت سے اِن کا گزارہ نہیں ہوسکتا۔ والدین اپنی زمینیں بیچ کر بچوں کی تعلیم خرید پاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے زیادہ تر نوجوان طلبہ ہیں اور ان کے ماں باپ کی آمدنی بھی بہت محدود ہے۔ اب کرونا کی وجہ سے بیشتر افراد بچت کررہے ہیں کیونکہ پتہ نہیں آگے کیا ہوگا۔ بہت سے افراد سیاحتی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں جو کرونا کی وجہ سے بند ہے اور دن بہ دن لوگ بے روزگار ہوتے جارہے ہیں۔ جو طلبہ نوکری کرکے اپنی فیسیں ادا کرتے تھے وہ اب بے یار و مددگار فاقہ کشی کی حالت میں ہیں۔ زیادہ تر طلبہ کا انحصار اسی بات پر تھا کہ وہ سکالر شپس کے ذریعے گریجویٹ ہوکر پاکستان یا کسی اور ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے لیکن اب نہ اس بات کا پتہ ہے کہ وقت پر داخلہ مل پائے گا اور نہ اس بات کا کہ سکالرشپس بھی دستیاب ہوں گی کہ نہیں۔ لہٰذا اب طالب علم پرائیویٹ یا گورنمنٹ یونیورسٹیز کے پیسے ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں، ایسے میں ان کے سامنے کوئی روشن مستقبل نہیں ہے۔

گلگت بلتستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آج تک ریاست یہاں پر نہ انجینئرنگ کالج بنا سکی نہ میڈیکل کالج۔ 72 سالوں میں ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا لیکن اس یونیورسٹی میں نہ تدریسی نظام کا کوئی پختہ انتظام موجود ہے اور نہ امتحانات کا۔ بہت سے طلبہ اس یونیورسٹی سے ڈگریاں لے کر بے روز گار بیٹھے ہوئے ہیں کیوں کہ پاکستان میں کوئی بھی شعبہ اس یونیورسٹی کی ڈگری کی قدر نہیں کرتا (یہی اس طبقاتی نظام کا خاصہ ہے کہ غریبوں کے بچوں کے لیے تعلیم تو ہو مگر ناقص جس سے ان کا دل تو بہل جائے کہ ان کے بچے تعلیم یافتہ ہیں لیکن عمل میں اس تعلیم کی کوئی اوقات نہیں ہوتی)۔ اسی وجہ سے بیشترطلبہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں اور وہاں پر بھی وہ بمشکل ایسی ہی ناقص تعلیم خریدنے کی سکت رکھتے ہیں جو ان کے تعلیمی معیار میں زیادہ بہتری کا باعث تو نہیں بنتی مگر شہروں میں رہنے کی وجہ سے اضافی معاشی مسائل کا باعث ضرور بنتی ہے۔ پہلے سے ہی جہاں طلبہ کو بے شمارمعاشی مسائل کا سامنا تھا وہاں اس مہلک وباء کے آنے سے ان میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اور حکومت ان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کیلئے نہ صرف معالی معاونت کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے بلکہ پسماندہ انفراسڑکچر کی موجودگی میں آن لائن کلاسوں کا اجراء کر کے ان مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

وباء کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے آغاز پر ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی قلت کی وجہ سے کراچی اور دیگر دور دراز کے شہروں سے گھروں کو لوٹنے والے طلبہ کو بیشمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا، حکومت نے اس مشکل وقت میں سفری سہولیات فراہم نہ کر کے تمام طلبہ کو بے سروسامان چھوڑ دیا جس کی وجہ سے طلبہ کو بہت زیادہ ذلت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں طلبہ نے جب خود رو طریقے سے بسوں کا انتظام کر کے سفر کرنا شروع کیا تو راستے میں ان غریب محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو بیچ راستے میں روک کر کے پی کے پولیس تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بناتی رہی، لیکن اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد جو پرائیویٹ گاڑیوں میں آتے ہیں، انہیں بغیر قرنطینہ کیے اپنے گھروں میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ سراسر نا انصافی اور طبقاتی سماج کا المیہ ہے۔

پاکستان کی تقریبا تمام یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا، لیکن دیگر پسماندہ علاقوں کی طرح گلگت بلتستان جیسے دورافتادہ خطے میں انٹرنیٹ کا کوئی مربوط نظام سرے سے موجود ہی نہیں اور جن تھوڑے سے علاقوں میں یہ دستیاب ہے وہاں اس کی رفتار انتہائی کم ہے اور سونے پر سہاگہ بجلی کا نظام بھی زیادہ تر علاقوں میں بہت ناقص ہے اور تقریباً پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، اس صورتحال میں آنلائن کلاسز کا اجراء کرنا طالب علموں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اگر آنلائن کلاسز شروع کرنی ہیں تو طلبہ کو مفت انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپس فراہم کرنے ہوں گے ورنہ آنلائن کلاسز کے نام پر ہونے والا یہ بھونڈا مذاق طلبہ کے تعلیمی کیریئر پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کرے گا۔ باقی ملک کے طلبہ کی طرح گلگت بلتستان کے طلبہ نے بھی آنلائن کلاسز کے خلاف سوشل میڈیا پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ فوری طور پر آنلائن کلاسز کے اجراء کو بند کیا جائے، لیکن ابھی تک بہت سی یونیورسٹیوں نے آنلائن کلاسز کا بھونڈا مذاق جاری رکھا ہوا ہے۔ طلبہ کو اپنے مسائل کے حل کے لئے یک مشت ہوکر اس کے خلاف تحریک چلانا ہو گی ورنہ یہ فرسودہ تعلیمی نظام اور اسکو چلانے والے حکمران ان سے فیسیں نچوڑنے کیلئے اس قسم کے بے فائدہ ہتھکنڈے جاری رکھیں گے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے جی بی کے طلبہ ایک ہنگامی کیفیت سے دوچار ہیں۔ حکومت طلبہ اور محنت کش طبقے کو کچھ نہیں دینے والی، وہ صرف بڑے بڑے ارب پتیوں کو بیل آؤٹ پیکیجز دے سکتی ہے جن کی وہ نمائندگی کرتی ہے۔ گلگت بلتستان کے محکوم محنت کشوں اور طلبہ کو پاکستان کے دیگر محکوم اقوام کے محنت کشوں اور طلبہ کے ساتھ جڑت بنا کر اپنے مسائل کی جہدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا اور اس جہدوجہد کیلئے لازمی ہے کہ ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل کو تیز کیا جائے جو سائنسی نظریات سے لیس ہو اور طبقاتی بنیادوں پر، بغیر کسی رنگ، نسل، قوم، ذات وغیرہ کے تمام مظلوموں کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف یکجان اور منظم کرے اور اس خطے میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرے۔ تاکہ ایک مزدور ریاست کے قیام کے ذریعے ہر جگہ یکساں نظام تعلیم، روزگار، علاج اور زندگی کی تمام سہولیات کو بلا تفریق رنگ، نسل، ذات پات،مذہب اور قومیت مہیا کیا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.