|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: عرفان منصور|
15 مئی کو برازیل میں تعلیمی کٹوتیوں اور پنشن کے متعلق ہونے والے رد اصلاحی اقدامات کے نتیجے میں مظاہرین کا سونامی امڈ آیا۔ بولسونارو حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں کیے گئے اقدامات، جس میں یونیورسٹیوں کے بجٹ میں 30 فی صد کٹوتی کا اعلان کیا گیا، کے خلاف ہونے والی ملک گیر تعلیمی ہڑتال میں 200 شہروں کے 15 لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل آئے۔ اپنی گیدڑ بھبکیوں کے باوجود، حکومت خوفزدہ اور منقسم ہے۔ ’بولسونارو کو (حکومت سے) باہر نکالو‘ کے نعرہ کی گونج ہر طرف سنائی دی۔ یقیناً برازیل میں فسطائیت (fascism) کا جنم نہیں ہو رہا بلکہ اس سے بہت دور ہے۔ اب وہ وقت ہے کہ ایک عام ہڑتال کی تیاری کی جائے تاکہ حکومت کو گھٹنوں پر جھکایا جا سکے۔
وزیر تعلیم ابراہام وین تراب (Abraham Weintraub) کے یونیورسٹیوں کے بجٹ میں کٹوتی اور گریجوایشن کے طلبہ کو تحقیق کے لیے ملنے والی امداد کے مکمل خاتمے جیسے طیش آور اعلانات کے نتیجے میں نیشنل کنفیڈریشن آف ایجوکیشن(CNTE)، نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس، طلبہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی دیگر کئی تنظیموں نے ملک گیر تعلیمی ہڑتال کی کال دی۔ تعلیمی کٹوتیوں کا معاملہ صرف ایک رجعتی حکومت کے اقدام تک محدود نہیں ہے، جو کہ تب بھی برا ہی ہوتا۔ وین تراب، بولسونارو حکومت کے اولاوستا (olavista) دھڑے کا نمائندہ ہے جو کہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو سابقہ بدنام زمانہ ماہر فلکیات جو بعد میں یوٹیوب کی اثرانگیز شخصیت بنا الیوا ڈی کیرویلہو (Olava de Carvalho) کی حمایت کرتے ہیں۔
وین تراب جسے ابھی اپریل کے آغاز ہی میں وزارت سونپی گئی تھی نے ریاستی تعلیم پر اپنے ان حملوں کو یونیورسٹیوں میں ثقافتی مارکسزم کے خلاف جنگی تدابیر کے طور پر پیش کیا ہے اور اساتذہ، طلبہ اور عمومی طور پر ریاستی تعلیمی نظام کے خلاف بے شمار طیش آور بیان بازی کی۔ اس نے اس اعلان سے آغاز کیا کہ وہ تین یونیورسٹیوں، جن میں یونیورسٹی آف برازیلیا (UnB)، فیڈرل فلومیننس یونیورسٹی (UFF) اور باہیا فیڈرل یونیورسٹی (UFBA) شامل ہیں، کے بجٹ میں کٹوتی کرے گا کیونکہ یہ تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتیں اور وسائل کو فضول تقریبات اور افراتفری پیدا کرنے میں ضائع کر رہی ہیں۔ چند دنوں میں ہی یہ واضح ہوگیا کہ 30 فی صد کٹوتیوں نے پورے تعلیم نظام پر اثر ڈالا ہے۔
غصے کی ایک لہر
اس قدم سے طلبہ، لیکچرار، محققین اور دیگر افراد میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی اجتماعات دیکھنے میں آئے اور اس سے قبل 8 مئی کو متاثرہ یونیورسٹیوں میں بڑے مظاہرے ہوچکے ہیں۔ ریو ڈی جینیریو (Rio de Janerio) کی یونیورسٹی UFF میں 15000 طلبہ اور لیکچرار نے مارچ کیا۔ مزاج غصے سے بھرپور تھا اور وسیع تر پرتوں میں پھیلتا جارہا تھا۔ اس سب نے 15 مئی کے مظاہروں کا سامان مہیا کیا۔
نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس کے مطابق مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد 15 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔برازیلیا (50,000)، فورٹالیزا (100,000)، میناس گیریس کی جنوب مشرقی ریاست بیلو ہوریزانٹو (جہاں بورژوا میڈیا کے مطابق تعداد دو لاکھ پچاس ہزار تھی) میں بڑے مظاہرے ہوئے، اسکے علاوہ ساؤ پاؤلو (250,000) اور ریو ڈی جینیریو (دو لاکھ سے زائد مظاہرین) میں بھی مظاہرے ہوئے۔ تحریک ایک حقیقی ملک گیر وسعت رکھتی تھی، جو برازیل کی 26 ریاستوں کو دائرہ اثر میں لائی۔
بولسونارو حکومت کو اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے میں پیش آنے والی مشکلات کے سبب، وین تراب کو پارلیمنٹ کے محدود باضابطہ سیشن کے سامنے پیش ہونا پڑا۔باضابطہ سیشن کے حمایتیوں میں کچھ حکومت کی حمایتی پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ سیشن میں جو ہڑتال کے دن ہی ہوا، وین تراب نے کٹوتیوں کے حجم کو انتہائی معمولی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ درحقیقت وہ کل بجٹ کی بات کر رہا تھا نہ کہ اس بجٹ کی جو اسکی وزارت کی صوابدید میں تھا اور جس پر 30 فی صد کٹوتیاں کرنے کا اعلان ہوا تھا۔ پورا دن اسی شش و پنج میں گزرا کہ کیا حکومت رعایتیں دینے پر مجبور کر دی گئی ہے یا نہیں، کیونکہ کچھ ممبران نے خبر دی کہ وزیر کٹوتیوں کا اعلان واپس لے چکا ہے۔ آخرکار، وین تراب نے کہا کہ وہ کٹوتیوں کے حق میں بولسونارو کو راضی کرچکا ہے۔ اسی اثنا میں، نائب صدر موراؤ (Mourao) جوبولسونارو کے امریکی دورے کے سبب صدر کی خدمات سرانجام دے رہا ہے، نے کہا کہ حکومت تعلیم پر کٹوتیوں کو واضح کرنے میں ناکام ہوئی ہے، یہ ایک بار پھر سے حکومت کے اندر موجود تضادات اور دراڑوں کا اظہار ہے، جوکہ اولاوسٹاز (olavistas) اور جرنیلوں کے درمیان ہیں، جن میں موراؤ بھی شامل ہے۔
اپنے روایتی انداز میں، بولسونارو نے امریکہ سے مظاہرین کو ’کارآمد بیوقوف‘ قرار دے کر جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔
”یہ فطری بات ہے (وہاں احتجاج ہیں)کہ انکی اکثریت مسلح ہے۔انکے دماغوں میں بھوسہ ہے۔ اگر ان سے آپ سات ضرب آٹھ کا جواب پوچھیں تو وہ لاعلم ہیں۔ اگر ان سے پانی کا فارمولا پوچھا جائے تو وہ چپ سادھ لیں گے، وہ کچھ نہیں جانتے ہیں۔ وہ سب ضعیف العقل کارآمد بے وقوف ہیں جوکہ برازیل کی وفاقی یونیورسٹیوں میں موجود معمولی سی شاطر اقلیت کے ہاتھوں غلط استعمال ہورہے ہیں۔“
دی فولہا ڈی ساؤ پاؤلو نے ایک مضمون لکھا جس میں اس نے فوجی ذرائع سے یہ بات نقل کی کہ بولسونارو کی حکمت عملی انتہائی غافلانہ تھی۔ فولہا میں ایک اور مضمون میں شکایت کی گئی کہ ”بجائے اسکے کہ کٹوتیوں کو معاشی مجبوری کے طور پر پیش کیا جاتا، بولسونارو نے اس بات کو ترجیح دی کہ کٹوتیوں کو تعلیمی دنیا کے اندر موجود نظریاتی غلبے کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے“ اور اس بات کا اظہار کیا کہ تحریک بالواسطہ طور پر شامل یونینوں اور بائیں بازو کی پرتوں سے آگے بڑھ کر درمیانے طبقے کے طلبہ کو ساتھ شامل کرچکی ہے جن میں سے اکثریت کے والدین نے بولسونارو کو ووٹ دیا تھا۔
برازیل کے سرمایہ دار طبقے کے زیرک گروہ اس بات کا خطرہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بولسونارو حکومت کے اقدامات سے احتجاجوں اور مظاہروں کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے۔ وزارت دفاع کے ذرائع نے فولہا سے ان الفاظ میں شکایت کی کہ:
”یہ سب اس وقت پر ہورہا ہے کہ جب توجہ کا مرکز پنشن اصلاحات ہونی چاہئیں۔“
ایک اور بورژوا نقاد، ہیلیو گورووٹز(Helio Gorovitz) نے بولسونارو کے ان حملوں کو بہت بڑی غلطی قرار دیا اور دائیں بازو کی گلوبو میڈیا گروپ کی ویب سائٹ (ویب سائٹ کا لنک) پر تنبیہ کی کہ:
”مسئلے کو نظریاتی لڑائی کا رنگ دینا جیسا کہ حکومت نے آغاز ہی سے کیا، صرف جہالت کا اظہار ہے۔ بولسونارو اپنی سیاسی ناقابلیت کے سبب اپنی حکومت کے لیے بھی مہلک ترین قدم اٹھا سکتا ہے۔“
برازیلین ’بائیں بازو‘ کی ناکامیاں
15 مئی کی تحریک کی وسعت نے تمام بورژوا ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا۔ دی فولہا ڈی ساؤ پاؤلو، جو سرمایہ دارطبقے کا نمائندہ ہے نے یہ سرخی چھاپی کہ”گلیوں نے دوبارہ عالمی سیاست کو حیرت زدہ کردیا۔“ اس طرح کا سکتہ اس بائیں بازو پر بھی تھا کہ جس نے بولسونارو کی جیت کو فاشزم کے قیام سے تعبیر کیا تھا۔ انہوں نے بولسونارو کو ملنے والے ووٹ کے سبب معاشرے کے دائیں جانب جھکاؤ کی غلط تعبیر کی جبکہ لاکھوں لوگ اسکو ایک رجعتی شخصیت قرار دے رہے تھے۔ وہ اس الیکشن کی حرکیات سمجھنے میں مکمل ناکام ہوئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بولسونارو ایک قابل نفرت رجعتی شخصیت کا حامل ہے اور اسکے بیان کردہ نظریات بھی قابل نفرت ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اسکی جیت فاشسٹ گروہوں اور ریاست کے لیے یہ نوید تھی کہ وہ اب مزید متشدد ہوکر کام کرسکیں گے مگر اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ برازیل کے عوام کی بڑی اکثریت اسکو یا اسکے نظریات کی حمایت کرتی ہے۔ خاص طور پر وہ کسی بھی قسم کی عوامی تحریک کو ابھارنے میں مکمل ناکام رہا ہے جس کو وہ برازیل کے محنت کشوں اور بائیں بازو کے خلاف استعمال کرسکتا۔
سب سے پہلی بات یہ کہ اسکو پڑنے والے ووٹوں کا بڑا حصہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی بنیاد پر مشتمل تھا۔ یہ ووٹ کرپشن کے خلاف، عدم تحفظ کے خلاف، جرائم کے خلاف اور ’نام نہاد جمہوری نظام‘ کے خلاف (جس نے محنت کشوں کی زندگیوں میں کسی بھی قسم کی بہتری کرنے کے بجائے ذلت میں اضافہ ہی کیا ہے) جس میں لاکھوں برازیلیوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یقیناً اس اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ کو رجعتی شخصیت نے جیتا اور اسکی ذمہ داری مسلسل اقتدار میں رہنے والی پی ٹی کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جس نے بڑی سرمایہ درانہ پارٹی کے ساتھ ملکر انہی پالیسیوں کو لاگو کیا جو حکمران طبقے کے مفاد میں تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف رجحان کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پی ٹی پارٹی نے ”تمام ڈیموکریٹس کے اتحاد“ (جوکہ سرمایہ درانہ پارٹیوں کا اتحاد ہے) اور ”جمہوریت کے دفاع“ (جو کہ سٹیٹس کو کے دفاع کا نام ہے جسکو عوام پہلے ہی رد کر چکے ہیں) کے کھوکھلے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔
دوسری یہ کہ بولسونارو نے دوسرے راؤنڈ میں 5 کروڑ 70 لاکھ ووٹ حاصل کیے جوکہ کل ووٹوں کا 39 فی صد بنتا ہے۔ جبکہ پی ٹی کے امیدوار حداد (Haddad) نے 4 کروڑ 70 لاکھ ووٹ حاصل کیے جوکہ کل ووٹوں کا 31 فی صد بنتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ 4 کروڑ 30 لاکھ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ووٹ ہی نہیں دیا یا بیلٹ پیپر خالی جانے دیا جو کل ووٹوں کا 29 فی صد بنتے ہیں وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں ووٹ لازمی ہے، بہت بڑی تعداد ہے۔ الیکشن کے دوران سب سے اہم مظہر لوگوں کا سیاسی نظام کو رد کرنا تھا۔
ہم نے تب یہ وضاحت کی تھی کہ برازیلین محنت کش طبقے کو شکست نہیں ہوئی (بولسونارو کی جیت کے بعد) بلکہ اسکی طاقت محفوظ اور مجتمع ہے اور جیسے ہی حکومت اپنے معاشی پروگرام جوکہ شکاگو کی تعلیم یافتہ وزیر خزانہ پاؤلو گوئیڈیز کا پیش کردہ ہے، پر عمل پیرا ہوگی اسکو بہت طاقتور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب اس عمل کا آغاز ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ حکومت ابھی پانچ مہینے ہی پرانی ہے کہ اپنے دونوں دھڑوں (بولسونارو اور اولاوسٹاز، گوئیڈیز اور جرنیل) کے اندرونی تضادات اور لڑائیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پارہی اور پوری پارٹی کرپشن سے لتھڑی پڑی ہے اور اب ایک عوامی تحریک پر لوگوں کو مجبور کر چکی ہے۔ ویسے یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔
حالیہ رائے شماری ظاہر کرتی ہے کہ 1990 کی دہائی کی کولر حکومت جسے عوامی تحریک نے اقتدار سے ہٹایا کے بعد یہ واحد حکومت ہے جس کی مقبولیت بہت تیزی سے گری ہے۔ جنوری میں جب پارٹی نے دفتر سنبھالا تو 40 فی صد افراد اسکو بہتر یا بہترین قرار دے رہے تھے جبکہ 20 فی صد افراد اسکو برا یا قابل نفرت قرار دے رہے تھے۔ مئی کے آغاز میں تحریک سے قبل کی گئی رائے شماری ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی حمایت کرنے والوں میں 35 فی صد کمی ہوئی جبکہ حکومت کو نامنظور کرنے والوں کی تعداد میں 31 فی صد اضافہ ہوچکا تھا۔ مزید دلچسب بات یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت (44 فی صد سے 51 فی صد تک) پنشن کے متعلق کی جانے والی رد اصلاحات کے خلاف ہے جوکہ حکمران طبقے کی سب سے اہم پالیسی ہے اور جس کا ذکر انتخابات میں بھی نہیں کیا گیا تھا۔
15 مئی کو ہونے والی تعلیمی عام ہڑتال نے اپنے مطالبات میں پنشن میں ہونے والے رد اصلاحی اقدامات کی بھی مخالفت کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ’پہلے جتنی پنشن کے حصول کے لیے‘ محنت کشوں کو ’زیادہ خدمات مہیا کرنی پڑیں گی‘، اور اسکے ساتھ پہلے سے زیادہ گھنٹوں کے لیے کام کرنا پڑ ے گا جس کا سب سے زیادہ اثر سرکاری شعبہ کے محنت کشوں پر پڑے گا۔ یہ مسئلہ اس حکومت کے لیے ایک ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس کو نگل پائے گی۔
بولسونارو کے منتخب ہونے سے یاسیت اور ناامیدی کا نتیجہ اخذ کرنے والوں کا المیہ یہ تھا کہ انکے غلط تجزیئے نے انکو درست عوامی رویوں کی سمجھ سے دور رکھا جو کہ وہاں پنپ رہے تھے۔ جب اپریل میں، میں نے عالمی مارکسی رجحان کے برازیلین سیکشن کی کانگریس میں شرکت کی تو وہاں ہونے والی اہم بحثوں میں ایک ”بولسونارو کو باہر نکالو“ کا نعرہ بھی تھا۔ کامریڈ نے کہا تھا کہ:
”مارکس وادی سیاسی ماحول میں ایک معیاری تبدیلی دیکھ رہے ہیں جہاں طبقاتی جدوجہد بڑھتی جارہی ہے اور سماجی دھماکے افق پر نظر آرہے ہیں۔ حکومتی حمایت کی بنیادیں یکم جنوری ہی سے پگھل رہی ہیں اور محنت کش مسلسل اس کے رجعتی کردار کو پہچان رہے ہیں۔“
کامریڈوں نے بتایا کہ کس طرح مزدور تحریک میں موجود بڑے رجحانات اور بائیں بازو نے اس نعرہ (بولسونارو کو نکالو) کی مخالفت کی۔ پی ٹی پارٹی نے دلیل دی کہ کیونکہ بولسونارو جمہوری طریقے سے منتخب ہوا ہے اس لیے اسکو دورانیہ پورا کرنے کا حق دیا جائے۔ ساؤ پاؤلو میں ہونے والی یوم مئی کی ریلی میں خاص طور پر پی ٹی راہنما حداد نے آئینی بنیادوں پر کھل کر اس نعرے کی مخالفت کی اور جب لوگ ”بولسونارو کو نکالو“ کا نعرہ لگا رہے تھے تو اس نے کہا کہ: ”ہمیں اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ آئین کے مطابق عہدے سے ہٹانے کے لیے عائد ذمہ داری پوری نہ کرنے کا جرم ضروری ہے۔ یہ ایک نعرہ نہیں ہوسکتا ہے۔ ذمہ داری پوری نہ کرنے کا جرم ایک الگ چیز ہے اور ہمیں آئین سے وفادار رہنا چاہیے۔“ جبکہ دوسری طرف الٹرا لیفٹوں نے اس نعرے کو اس بنا پر رد کیا کہ اس کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں اور بولسونارو واضح عوامی اکثریت رکھتا ہے اور ہم نیوفاشزم کے حملے کا سامنا کررہے ہیں وغیرہ۔ اہانت آمیز طریقے سے ان میں کچھ وہی پارٹیاں تھیں کہ جنہوں نے ڈلما (Dilma Rousseff) کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ”ان سب کو باہر نکالو“ کا نعرہ لگایا اور دائیں بازو کی حمایت کی اور ایک سامراجی بغاوت (coup) کے عین درمیان میں وینزویلا کے لیے ”ماڈورو کو باہر نکالو“ کا نعرہ بلند کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔
بولسونارو کو باہر نکالو!
عالمی مارکسی رجحان کے برازیلین سیکشن کی کانگریس میں ساؤ پاؤلو سے آئے ہوئے کامریڈ نے ایک اساتذہ یونین جس میں بذات خود بھی سرگرم ہے، میں اپنے تجربات کا اظہار کیا۔ تعلیمی شعبوں میں تحریک کے ضمن میں بات کرتے ہوئے اسکا کہنا تھا کہ جب میں نے ”بولسونارو کو باہر نکالو“ کے نعرہ کی ضرورت کی بات کی تو اسمبلی میں موجود پی ٹی اور بائیں بازو کے نمائندوں نے مخالفت کی مگر جب بات ووٹ دینے کی آئی تو یونین کے آدھے ممبران نے اس بات کے حق میں ووٹ دیا۔
فلورین پولس (Florianpolis) میں ایک کامریڈ جو ایک اساتذہ یونین کا ممبر ہے نے اپنے سکول کے بارے میں بتایا جہاں وہ کام کرتا ہے۔ اس نے محنت کشوں کو پنشن میں اصلاحات کے خلاف جدوجہد کیلئے تیار کرنا شروع کیا۔ فلورین پولس ریاست سینٹا کیٹارینا (Santa Catarina) کا حصہ ہے جہاں بولسونارو نے دوسرے مرحلے میں 75 فی صد ووٹ حاصل کیے۔ کامریڈ یہ جانتا تھا کہ اس کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد نے اسکو ہی ووٹ دیا ہے۔ اس نے انکو آن لائن کیلکولیٹر استعمال کرنے کا کہا تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ پنشن کے متعلق اصلاحات کا ہر ایک کی انفرادی زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔ انہوں نے کچھ بنیادی حقائق دئیے اور نتائج نکالے۔ ہر صورت میں انکو ادائیگیاں زیادہ کرنی پڑیں گی اور ریٹائرمنٹ بھی دیر سے ملے گی۔ جیسے ہی انہوں نے اسکو محسوس کیا ان سب نے ہڑتال کا مطالبہ کر دیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ بجائے اسکے کہ آگے بڑھ کر لوگوں کو ان رد اصلاحی اقدامات کا اصل چہرہ دکھایا جائے اور لوگوں کو جدوجہد کیلئے تیار کیا جائے ٹریڈ یونینیں بھی اپنے قدم مزید پیچھے لے جارہی ہیں۔ الیکشن کے وقت سی یو ٹی نے بڑھک ماری کہ وہ بولسونارو کی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ یہ ناجائز ہے۔ جلد ہی انہوں نے پانسہ پلٹ لیا۔ اب وہ پنشن کی رد اصلاحات سے لڑنے کے لیے پارلیمانی لوگوں سے گزارشات کرنے کے لائحہ عمل کی تجویز دے رہے ہیں۔
پنشن میں اصلاحات کا قانون پارلیمنٹ میں بحث کے لیے 14 اپریل کو منظور ہوا۔ یونینوں نے یوم مئی کو عام ہڑتال کی تیاریوں کے لیے استعمال کیا جوکہ 14جون کو ہونی ہے۔ اس سے زیادہ خراب تاریخ نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ یہ 45 دنوں بعد ہونی ہے جب پارلیمنٹ اپنے کام دھندوں کو دوبارہ رواں کرا چکی ہوگی۔ ٹریڈ یونین راہنما عام ہڑتال کو ایک ایسے قدم کے طور پر نہیں دیکھ رہے جس کو بنیاد بناتے ہوئے عوامی مظاہروں کے نتیجے میں حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے جو کہ موجودہ ’طاقتوں کے توازن‘ میں عین ممکن ہے بلکہ وہ اسے صرف پارلیمانی ممبران پر دباو بڑھانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
تعلیمی کٹوتیوں کے خلاف ہونے والی اس تحریک کی طاقت کا 2013 میں ہونے والے مظاہروں سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس وقت عوامی تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے حالات مکمل سازگار ہیں۔ ہر شعبے کے (نجکاری مخالف، عورتوں کے استحصال کے خلاف، تعلیمی کٹوتیوں کے خلاف، پولیس اور جبر کے خلاف وغیرہ) ٹھوس مطالبات کو ایک اجتماعی جدوجہد میں اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ ’بولسونارو کو نکالو‘ وہ نعرہ ہے جو اس سب کو عملی شکل دیتا ہے اور اسی وجہ سے یہ 15 مئی کے مظاہروں میں بہت مقبول رہا اور ایسکوئیرڈا مارکسسٹا (آء ایم ٹی کا برازیلین سیکشن) اور Liberdade e Luta youth organizationنے پلے کارڈ، لیف لیٹ اور سٹیجوں پر تقاریر کر کے اس نعرے کو ہر جگہ پھیلایا۔
یو این ائی (UNE) 30 مئی کو ایک اور ملک گیر جدوجہد کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کر چکی ہے اور پھر 14 جون کو پنشن پر ہونے والی رد اصلاحی اقدامات کے خلاف عام ہڑتال ہونی ہے۔ سیاسی پولارائزیشن (دائیں اور بائیں بازو کی) اور طبقاتی جدوجہد کے نئے دھماکوں کے لیے وقت تیار ہوچکا ہے۔ اگر ٹریڈ یونین راہنماؤں کی واضح حکمت عملی ہوتی تو بولسونارو کی رجعتی حکومت کو سڑکوں پر عوام کے مظاہروں اور حکمت عملیوں کے ذریعے شکست دی جاسکتی تھی جو ایک سوال کو جنم دے گی کہ ملک پر کون حکومت کرتا ہے؟