|تحریر: پارس جان|
[یہ اقتباس سہ ماہی میگزین لال سلام کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”سوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“ سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔]
یہ سوشلزم پر اٹھائے جانے والے قدیم ترین اعتراضات میں سے ایک ہے۔ ان معترضین کی دلیل یہ ہے کہ سوشلزم بورژوا خاندان کے خاتمے کا علمبردار ہے اور چونکہ سوشلزم اجتماعی ملکیت کا نظام ہے لہٰذا سوشلزم میں عورتوں کو بھی اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ اس اعتراض کے اندر ہی اس کا جواب پوشیدہ ہے۔ یہ قدامت پسند، رجعتی معترضین یہ بھول جاتے ہیں کہ خاندان کی موجودہ کیفیت جس میں سرمایہ دارانہ منافقت سب سے زیادہ مجتمع شدہ شکل میں کارفرما ہے، ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ لاکھوں سال تک بنی نوعِ انسان اس کرۂ ارض پر ایک کھلے آسمان کے نیچے ایک خاندان کے طور پر ہی موجود رہے۔ پھر معاشی تعلقات میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ خاندان کا ظہور ہوا جو اجتماعی یا گروہ وار شادیوں کے طویل دورانیوں پر مبنی رسوم و رواج سے ہوتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام میں یک زوجگی کے موجودہ مرحلے تک پہنچا اور سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے باعث اس کی پوری ریاست کی مانند خاندان کے ادارے کی بھی شکست و ریخت اب کھل کر اپنا اظہار کر رہی ہے۔
سوشلسٹ اس ادارے کی ٹوٹ پھوٹ کے ذمہ دار نہیں ہیں، وہ تو صرف نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ یکطرفہ اور منافقانہ یک زوجگی بھی اس نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو گی اور اس کو حقیقی، مخلصانہ اور انسانی شکل میں نافذالعمل بنانے کے لیے نجی ملکیت کے ”مقدس“ حق کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ جب سوشلسٹ تمام ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اس پر تنقید کرنے والے خواتین کی ’ملکیت‘ کا سوال اٹھا کر خود یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک خواتین بھی پیداوار یعنی بچوں کی پیدائش کے ذریعے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
جی ہاں ہمارے ناقدین اور معترضین خواتین کو اشیا یا بچے پیدا کرنے والی مشینیں ہی سمجھتے ہیں۔ ہم سوشلسٹ خواتین کو جیتی جاگتی انسان سمجھتے ہیں اور برملا اعلان کرتے ہیں کہ بورژوا خاندان عورت کی غلامی کا ادارہ ہے جہاں بدترین جنسی غلامی کے ساتھ ساتھ عورتوں سے بیگار کی جبری مشقت بھی کروائی جاتی ہے۔ سوشلسٹ ریاست اپنے قیام کے آغاز سے ہی اپنی تمام تر توجہ اور وسائل اس امر پر وقف کر دیتی ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مساوی معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق دے کر ان کی سماجی حیثیت جلد از جلد کیسے تبدیل کی جائے۔
سب سے پہلے تو بیگار کی گھریلو محنت یعنی صفائی، دھلائی، بچوں کی نگہداشت، کھانا پکانا جیسے وہ تمام افعال جن کو تقسیمِ محنت میں فطری طور پر عورتوں سے منسوب تصور کیا جاتا ہے، انہیں سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کرنے کے لیے جدید سہولیات سے آراستہ زچہ بچہ سنٹرز، بچوں کی نگہداشت کے مراکز، سماجی طعام خانے، اجتماعی لانڈریاں اور فرسٹ ایڈ کے مراکز ہر گلی محلے تک تعمیر کرنے کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ سوشلسٹوں کے نزدیک مامتا کی آزادی سوشلسٹ ریاست کا سب سے پہلا اور بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم ’ماں کے پاؤں تلے جنت ہے‘ یا ’ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں‘ جیسے جذباتی جملے بولنے کے باوجود ماں کی بے پناہ جسمانی مشقت کو بے دردی سے لوٹتے ہیں اور اس پر ہر قسم کی ندامت سے بچنے کے لیے ہی اس قسم کی کھوکھلی اخلاقیات کا نقاب اوڑھ لیتے ہیں۔ عورتوں کے عمومی سماجی مقام کی طرف بھی ہمارا یہی وطیرہ ہے۔
’عورتوں کا احترام کرو، یہ کسی کی عزت اور غیرت ہیں‘ وغیرہ وغیرہ یہ سب ہماری دوغلی اور کھوکھلی اخلاقیات کی ملمع کاری اور شعبدہ بازی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ عورتوں کے احترام کے ناٹک کی آڑ میں جنسی ہراسمنٹ اور بدتمیزی کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے اور پھر نجی محفلوں میں اس پر قہقہے لگا کر اپنی چالاکی اور چست دماغی پر داد و تحسین وصول کی جاتی ہے۔ سوشلزم چونکہ ان گھٹیا اخلاقی اقدار کو ختم کر دینے کے درپے ہے اس لیے اس کے خلاف محاذ کھول دیا جاتا ہے۔
اعتراض اصل میں یہ نہیں کہ سوشلزم میں عورتوں کو سماجی ملکیت بنا دیا جاتا ہے بلکہ اصل اعتراض یہ ہے کہ عورتیں جن کو اصل میں سماجی ملکیت ہی سمجھا جاتا ہے اور انہیں ہر جگہ ہراسمنٹ اور ہولناک نظروں کے نشتر جھیلنے پڑتے ہیں، انہیں ملکیت کے موجودہ دوغلے اور منافقانہ سماجی معیارات سے آزاد کرا کے با اختیار اور مضبوط بنا کر سوشلزم جبر اور استحصال کا خام مال نہیں رہنے دیتا، یوں ان شاونسٹوں کے پدرانہ ’حقوق‘ پامال ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور سوشلزم میں ساتھ ہی عورتوں کی سستی محنت کے ذریعے معاشی استحصال کی گنجائش بھی ختم کر دی جاتی ہے۔
فیمینسٹ دوسری انتہا پر جا کر عورتوں پر روا رکھے جانے والے جبر کی تمام تر ذمہ داری طبقاتی نظام پر لاگو کرنے کی بجائے مرد ذات اور اس کی نفسیات پر لگا کر مزدور تحریک میں صنفی بنیادوں پر دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ عورت کی سیاسی و معاشی آزادی کی تحریک بحیثیتِ مجموعی مزدور تحریک کی پیش رفت کے لیے صرف سود مند ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے، اس لیے مزدور تحریک کا سیاسی پروگرام اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہو سکتا جب تک اس میں عورتوں کی آزادی اور فلاح و بہبود کے واضح اور غیر مشروط مطالبات اور عملی نکات شامل نہ کیے جائیں۔
صرف اجرتوں کی مثال ہی لے لیجیے۔ خواتین محنت کشوں کی نصف یا غیر مساوی اجرتوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محنت کی منڈی میں سستی رسد کے باعث مانگ کم ہونے کی وجہ سے اجرتوں میں اضافے کی عمومی شر ح یا رجحان افراطِ زر کے مقابلے میں ہمیشہ کم ہی رہتی ہے۔ اس لیے مزدور تحریک اور خواتین کی آزادی کی تحریک میں ایک نامیاتی اشتراک موجود ہے جسے مسدود کرنے کی ہر کوشش ردِ انقلابی اور رجعتی اقدام ہی تصور کیا جائے گا۔ یوں خواتین محنت کشوں کو الگ سے اور مزدور تحریک سے یکسر کٹ کر صنفی جبر کے خلاف منظم ہونے کی بجائے طبقاتی جنگ کے سرخ بینر کے ساتھ ہی اس لڑائی کو لڑنا ہو گا۔
سوشلسٹوں کو خواتین محنت کشوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ ایک مزدور ریاست کس طرح ان کی آزادی کو عملی جامہ پہنائے گی۔ مثال کے طور پر ایک سوشلسٹ ریاست میں خواتین محنت کشوں کی اجرتیں مرد محنت کشوں کے مساوی کر دی جاتی ہیں، عورتوں کو طلاق اور اسقاطِ حمل کا حق دیا جاتا ہے اور جسم فروشی کی لعنت اور تمام کالے قوانین کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے عورت کی نجی ملکیت کی حیثیت ضرور ختم ہوتی ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اجتماعی ملکیت بن جاتی ہیں بلکہ وہ ملکیت کے تسلط سے آزاد ہو کر انسان کے رتبے پر فائز ہو جاتی ہیں۔
نجی ملکیت اور طبقاتی سماج کے خاتمے کے باعث شادی، بیاہ اور جنسی تعلقات میں ذاتی سٹیٹس، سماجی رتبے، ذات پات، برادری اور جہیز جیسی ہر طرح کی لعنت ختم کر کے مرد اور عورت کے مابین خالص انسانی رومانی و جنسی تعلقات کا آغاز ہو پاتا ہے، جہاں واقعی ایک انسان دوسرے انسان سے اس کی سوچ، فطری کشش، بصیرت، اقدار اور فکری ہم آہنگی کی بنیاد پر ہی تعلق استوار کرتا ہے اور عورت کو میسر طلاق کے حق اور بچوں کی نگہداشت کی سماجی ذمہ داری کی شکل میں اس تعلق میں جبر کی رتی بھر گنجائش بھی باقی نہیں بچتی۔ یک زوجگی کی اگر کوئی شکل (Form) واقعی قابلِ عمل ہو سکتی ہے تو وہ یہی ہے جو صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔