|تحریر: پارس جان|
[یہ اقتباس سہ ماہی میگزین لال سلام کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”سوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“ سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔]
آج کل سیاسی حلقوں میں اور بالخصوص یونیورسٹیوں کے طلبہ میں مارکسزم کے خلاف یہ بدگمانی بھی منظم پروپیگنڈے کے تحت پھیلائی جاتی ہے کہ مارکسزم تو یورپی فلسفہ ہے اور اسے دنیا بھر کے انقلابات کے لیے ایک نسخہئ کیمیا بنا کر پیش کرنا سراسر حماقت ہے۔
تیسری دنیا یا سابقہ نو آبادیاتی ممالک کے ٹھوس معروضی حقائق، ثقافتیں، ریاستی اشکال، سیاسی انفراسٹرکچر اور طبقاتی توازن یورپ سے یکسر مختلف ہیں لہٰذا سامراجی نظام کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد کا تصور کسی یوٹوپیے سے کم نہیں۔ تیسری دنیا کے عوام زیادہ تر غیر پرولتاری ہیں یعنی کسان یا دستکار وغیرہ ہیں اور وہ طبقاتی شعور سے ابھی تک بے بہرہ ہیں، حتیٰ کہ تیسری دنیا کا پرولتاریہ بھی مغربی پرولتاریہ سے کہیں زیادہ اپنی قومی بورژوازی یا دیگر مقامی حکمران طبقات کے ساتھ ثقافتی، لسانی و سماجی بندھنوں میں بندھا ہوا ہے لہٰذا یہاں قومی یا عوامی تحریکوں کے ذریعے ریاست پر دباؤ بڑھا کر عوام کے حق میں چند قانونی یا معاشی اصلاحات تو جیتی جا سکتی ہیں مگر عالمی مزدور تحریک کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کے خاتمے کا بیانیہ سراسر غیر متعلقہ اور ناقابلِ عمل ہے۔
اس طرح کے نظریات مین سٹریم میڈیا میں بھی بہت جلد پاپولر ہو جاتے ہیں اور بالخصوص مقامی قوم پرست تو انہیں فوراً ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سستی شہرت کی ہوس میں مبتلا پیٹی بورژوا دانشوروں کے کھوکھلے دماغ بہت جلد ان خیالات کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سائنسی سوشلزم کے نظریات کا جنم یورپ میں ہوا مگر خود سائنسی سوشلزم کے بانیوں (کارل مارکس، فریڈرک اینگلز) نے ہی ان تاریخی لوازمات کی وضاحت بھی کی جن کی بنیاد پر یورپ صنعتی انقلاب کا مرکز بنا اور بعد ازاں انہوں نے پیش بینی بھی کی کہ صنعتی انقلاب سے جنم لینے والے پیداواری پوٹینشل کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے قومی منڈی کی حدود ناکافی ہو جائیں گی اور ایک عالمی منڈی کی تشکیل ناگزیر ہو گی۔
یہ تناظر درست ثابت ہوا اور یورپی سامراج کی دنیا بھر میں معاشی پیش رفت، سیاسی مداخلت اور تسلط کے باعث پسماندہ ممالک میں بھی مسخ شدہ شکل میں ہی سہی مگر سرمایہ دارانہ ملکیتی اور پیداواری تعلقات حاوی ہو گئے۔ یوں قدیم سماجی تعلقات کی باقیات بھی بہرحال موجود رہیں مگر قومی جمہوری انقلاب کے بغیر ہی سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے طول و عرض میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
یوں سوشلزم کوئی ایسا کلیہ نہیں ہے جسے زمان و مکاں کے امتیاز سے بالاتر کبھی بھی اور کہیں بھی ایک ہی شکل اور طریقے سے لاگو کر دیا جائے۔ مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھڑے ہوئے پسماندہ معاشروں میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کے راستے بھی مفقود ہو چکے ہیں۔ عالمی تقسیمِ محنت اور ٹیکنالوجی کی عالمگیریت کے باعث معاشی و ثقافتی ناہمواریت نے ترقی کی مشترکہ راہیں بھی متعین کی ہیں اور عالمی مزدور تحریک بذاتِ خود ایک معروضی حقیقت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ حتیٰ کہ شعور کی عالمگیریت سے درمیانے طبقے کی ہراول پرتیں بالخصوص نوجوان بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہے ہیں، جس کی سب سے بڑی مثال 2011ء میں ’ہم ننانوے فیصد ہیں‘ نعرے پر ’آکو پائی وال سٹریٹ‘ کے نام سے چلنے والی تحریک کی کال پر ایک ہی دن میں دنیا کے 950 سے زائد شہروں میں ایک ہی مطالبے پر ہونے والے عوامی احتجاج ہیں۔ اس تحریک نے سابقہ ورلڈ آرڈر کی نام نہاد پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی تقسیم کو عالمی شعور کی ٹھوکر سے لرزا کر رکھ دیا۔
اسی طرح کی صورت حال ہمیں لگ بھگ ایک دہائی بعد گلوبل وارمنگ کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجوں میں نظر آئی۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ آج دنیا بھر کے محنت کشوں کے مفادات مشترکہ ہیں اور ان کا دشمن یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جو قومی نہیں عالمی سطح پر منظم ہے لہٰذا اس کے خلاف مزاحمت بھی عالمگیر خواص کی حامل ہونی چاہیے۔ مگر اس جدوجہد کو مخصوص ثقافتی پسِ منظر اور طبقاتی شعور کی سطح کے مطابق مربوط اور منظم کرنے کی گنجائش اور ضرورت بہرحال موجود رہتی ہے۔
یہ کہنا کہ تیسری دنیا میں ابھی انقلابات ناممکن ہیں، نری بکواس اور جہالت ہے کیونکہ تیسری دنیا میں غربت، افلاس، لاعلاجی، خانہ جنگیاں اور قحط وغیرہ کی صورت حال مغربی دنیا سے کہیں زیادہ بھیانک اور ناقابلِ برداشت ہے اور اس کی ذمہ داری اسی سرمایہ دارانہ نظام پر عائد ہوتی ہے۔ سرمایہ داری کی ان کمزور کڑیوں میں عوامی بغاوتوں اور تحریکوں کے امکانات کہیں زیادہ ہیں مگر یہ عوامی تحریکیں حکومتی تبدیلی کا موجب تو بن سکتی ہیں مگر نظام کی تبدیلی کے لیے انہیں طبقاتی بنیادوں پر خطے کی مزدور تحریکوں سے جوڑتے ہوئے محنت کش طبقے کی قیادت میں منظم کرنا ہو گا۔
پاکستان میں بھی جہاں سوشلسٹ نظریات بہت تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں وہیں مڈل کلاس دانشوروں کی فرسٹریشن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں بھی سوشلزم پر یہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ جیسے قبائلی معاشروں میں صورت حال سندھ کے شہری علاقوں اور پنجاب سے یکسر مختلف ہے لہٰذا پورے خطے میں سوشلسٹ تحریکوں کا بیانیہ مجرد عمومیت (Generalization) ہے۔ یہاں ’ریاست مخالف عوامی تحریکیں‘ موجود ہیں اور انہی کے ذریعے سماج کی انقلابی تبدیلی ممکن ہے۔ مزدور تحریک چونکہ پورے خطے میں ہی فی الوقت موجود نہیں تو عملیت پسندانہ اور ثبوتیت کا طریقہ استدلال استعمال کرتے ہوئے مستقبل میں بھی اس کے امکانات کو رد کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرزِ استدلال کی بنیاد پر ان قبائلی علاقوں میں محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں مقداری اور معیاری طور پر محنت کش طبقے کا حجم مغربی معاشروں سے بہت کم ہے مگر معدنیات، چھوٹی اور گھریلو صنعت، تعمیرات، ذرائع ابلاغ، ٹیلی کمیونیکیشن، ریلوے، پانی و بجلی، تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں محنت کشوں کی قابلِ ذکر تعداد ضرور موجود ہے اور ان علاقوں میں مزدور طبقے کے سیاسی معیار کے جس فقدان کے باعث کہا جاتا ہے کہ ان خطوں کا انقلاب سیاسی طور پر خطے کی دیگر تحریکوں سے نامیاتی طور پر لاتعلق ہے، درحقیقت عین اسی وجہ کی بنا پر ہی ان علاقوں کا سیاسی مستقبل خطے کی سیاسی تحریکوں سے اٹوٹ تعلق میں مرتبط اور ناقابلِ علیحدگی ہے۔ مزدور طبقے کے سیاسی معیار کے اس فقدان کو درمیانے طبقے کی سیاسی قیادت کے ذریعے سے مصنوعی طور پر پورا کرنے کی کوشش مہم جوئی اور مفاد پرستی کے پل صراط کی طرف لے جاتی ہے جہاں سے کسی بھی ایک طرف لڑھکنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
درمیانے طبقے کی قیادت میں چلنے والی ریاست مخالف تحریکیں بلاشبہ قابلِ تحسین و ستائش ہوتی ہیں مگر ان کا کردار مزدور تحریک کے راستے کے کانٹے صاف کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کو کمزور کرنا ہی ہوتا ہے، اس سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کا تاریخی فریضہ صرف محنت کش طبقے کی قیادت میں ہی سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ان تحریکوں کو خطے کی مزدور تحریک سے جوڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی طرف آگے بڑھنا ہو گا اور پھر اس خطے کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن عالمی سوشلسٹ انقلاب کی تمہید بنے گی۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے اس سفر کی سمت اس کے برعکس بھی ممکن ہے، یعنی لاطینی امریکہ، مشرقِ وسطیٰ یا کسی بھی دوسرے خطے کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہمارے خطے میں سوشلسٹ انقلاب کے سفر کو مہمیز دے سکتی ہے۔