|تحریر: فرحان رشید|
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
21 ویں صدی عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے مرگ کا پیام لیے اُبھری۔ سرمایہ داروں کے پالتو دانشوروں کے مطابق سیدھی ڈگر پہ چلتا سرمایہ دارانہ نظام پہلے 2008 اور پھر کرونا وباء کے دوران نہ ختم ہونے والے بحرانوں کے گرداب میں پھنس گیا ہے۔ تاریخ کا خاتمہ کردینے والے سبھی دانشور انگشت بہ دنداں ہیں کہ کیوں کر وہ طبقاتی کشمکش کی لاش جسے وہ منوں مٹی تلے دفنا بیٹھے تھے آج ان کے سامنے دیو قامت پیکر کی صورت میں جاوید کھڑی ہے۔ گزشتہ دہائی نے پوری دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی خدوخال کو مکمل تبدیل کر دیا ہے۔ شاید ہی کوئی ملک بچا ہو جو تحریکوں کی لپیٹ میں نہ آیا ہو، خواہ وہ ترقی یافتہ دنیا کے امریکہ و فرانس ہوں یا پسماندہ دنیا کے الجزائر و ہیٹی، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ان تمام تحریکوں نے حکمران طبقے کی دہائیوں کی اُڑائی خاک کو ایک جھٹ میں غائب کردیا ہے۔ سکولوں، کالجوں، کتابوں، میڈیا، دانشوروں غرض ہر ایک ذرائع سے عوام کے شعور کو پراگندہ کیا گیا تھا، ایک جھوٹا نصاب اور تاریخ پڑھائی گئی تھی، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جو جیسا ہے ویسا ہی رہے گا، نہ کبھی کچھ بدلا ہے نہ بدلے گا، لہٰذا بس خاموشی کے ساتھ اور سر جھکا کر اپنی زندگی گزارو اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا سوچنا بے وقوفی ہے۔ مگر مانو یہ دہائیوں کی محنت بیکار ثابت ہوئی اور تقریباً تمام خطوں میں آج مزدور، کسان، طلبہ اور سماج کی دیگر مظلوم پرتیں علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال ہندوستان کی محنت کشوں و طلبہ کی تحریکوں میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ خواہ وہ NRC اور CAA کے خلاف تحریک ہو یا جامعہ ملیہ اسلامیہ و علی گڑھ کے طلبہ کی تحریک یا پھر کسان مارچ ہو، یہ نعرے سنے جاسکتے ہیں۔
”انقلاب زندہ باد، سامراجِ واد مردہ باد“
یا پھر جیسے یہ نعرہ ”بھگت سنگھ تیری سوچ تے، پہرہ دیاں گے ٹھوک کے“
اسی طرح ایک اور نعرہ جو کسانوں کی حالیہ تحریک میں سامنے آیا ”رو رو آکھے دھرت دو آبے دی، آج لوڑ دیش نوں بھگت سنگھ تے ویر سرابھے دی“
ان احتجاجوں کو اگر دیکھیں تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں بھگت سنگھ کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ یہاں اب ضروری ہے کہ ہم جانیں آخر یہ بھگت سنگھ تھا کون اور اس سے بھی اہم کہ وہ کیا وجہ ہے کہ تحریکوں میں بھگت سنگھ آج بھی زندہ ہے؟
بھگت سنگھ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے حریت پسند گھرانے میں 1907ء میں پیدا ہوا، اور محض 23 سال کی عمر میں برطانوی سامراج کے ہاتھوں 23مارچ 1931ء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا گیا۔ بھگت سنگھ کا نام یا تو تاریخ کی کتابوں سے بالکل غائب کردیا گیا جیسے کہ پاکستان کا سرکاری نصاب ہو یا ریاستی ایما پر بننے والی بیہودہ ڈاکیومنٹریاں اور فلمیں۔ یا پھر جہاں کہیں ریاستی گماشتے لکھاریوں کی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے وہ ایک کٹر سکھ مذہبی کے طور پر ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی حکمرانوں نے خوب دھول اُڑائی اور بھگت کا تعارف ایک پگڑی باندھے سکھ قوم پرست کے طور پر کروایا، جس نے اپنی جان موجودہ ہندوستان بنانے کیلئے وار دی اور گاندھی کے پیروکار اسے آج بھی گاندھی کا ساتھی ثابت کرنے پر تلے ہیں۔
اگر ہم ریاستی نصابوں کے تحت دیکھیں تو یقیناً عوامی تحریکوں میں بھگت سنگھ کی کوئی گنجائش بنتی ہی نہیں کہ اگر امیت شاہ اور مودی جیسے غلیظ شدت پسند لوگ جو بھگت سنگھ کو سلامیاں پیش کررہے ہیں تو پھر اسی سرکار کے خلاف عوامی تحریکوں میں بھگت کی گنجائش کیوں کر پیدا ہو؟ درحقیقت یہ تمام دروغ گوئی صرف بھگت کے حقیقی تشخص اور اس کے کردار کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل کرنے کی ایک حکمرانوں کی عیاری پر مبنی کوشش ہے۔ تاکہ وہ جرم جو بھگت نے کیا آنے والی نسلوں کو اس سے دور رکھا جائے۔ اس پر لینن کا یہ مقولہ صادق آتا ہے کہ:
”سبھی انقلابیوں کی زندگیوں میں استحصالی طبقات وحشی کتوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑنے کو دوڑتے ہیں، ان کے نظریات کو انتہائی غلاظت اور گندگی میں لتھاڑکر پیش کیا جاتا ہے، بدترین بہتانوں اورذلت آمیز دشنام طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاجاتاہے۔ اور جب یہ مرجاتے ہیں تو کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں کہ ان کو ایک بے ضررقسم کا انسان بنا کر پیش کیاجائے، اور ان کے حوالے سے ایسی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں کہ جیسے وہ انسان نہیں کچھ اور ہی شے تھے، اور یوں اس طریقے سے ایسے لوگ سب کچھ قرار پاجاتے ہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی زندگیاں محروم اور درماندہ انسانوں کی زندگیاں بدلنے کیلئے وقف کر دی تھیں۔ ایسی داستانوں کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ استحصال زدگان کو دھوکے، فریب اور سحر میں مبتلا کر دیا جائے، اور ان عظیم انسانوں کے انقلابی آدرشوں اور نظریات پر مٹی ڈال دی جائے، ان کے انقلابی تشخص کو بے ہودہ طریقے سے بگاڑ دیاجائے۔“
تو سوال یہ اُبھرتا ہے کہ بھگت سنگھ تھا کون؟ اور ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ ان تمام آدرشوں کو کھوج نکالیں جن کی بنیاد پر بھگت اتنی ممتاز شخصیت بنا۔
بھگت سنگھ کو سامراج مخالفت گھُٹی میں ہی ملی تھی مگر اس نفرت کو تقویت 1919ء کے جلیانوالہ باغ کے انسانیت سوز سانحہ نے دی جب جنرل ڈائر کے ایک اشارے پر سینکڑوں نہتے شہریوں کو باغ کی فصیلوں کے بیچ گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ بھگت سنگھ کو کم عمری میں ہی گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک میں نجات کی راہ دِکھی مگر پولیس تشدد کے جواب میں عوامی متشدد ردِعمل کو بنیاد بناتے ہوئے گاندھی نے اس تحریک کے خاتمے کا اعلان کیا، اس واقعے نے بھگت سنگھ اور کئی کانگریسیوں کے شعور پر گہری چوٹ لگائی۔
گاندھی کی اس غداری کے بعد بھگت سنگھ نے کالج پہنچ کر ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن (HRA) کے سیاسی مورچے میں پناہ حاصل کی جو چندر شیکھر آزاد، رام پرساد بسمل ا ور دیگر آزادی پسند رہنماؤں کی قیادت میں انفرادی دہشتگردی کے طریقہ کار پر گامزن جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے جو بنیادی طور پر غدر پارٹی سے متاثرہ اور اسی کا تسلسل ہی تھی۔ نیز 1926 میں بھارت نوجوان سبھا کے تحت بھگت سنگھ نے نوجوانوں کو منظم کیا اور غدر پارٹی کی ہی میراث پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لالہ لاجپت رائے کے قتل کا بدلہ برطانوی پولیس آفیسر سانڈرس کو قتل کرکے لیا۔ اسی عرصے میں روس کا 1917ء کا انقلاب بھی دنیا بھر کے محنت کشوں پر اپنی چھاپ چھوڑنا شروع کرچکا تھا جس کے اثرات سے بھگت سنگھ بھی نہیں بچ پایا اور 1928ء میں (HRA) کے نام میں سوشلسٹ کا اضافہ کرتے ہوئے اس کا نام ہندوستان سوشلسٹ رپبلکن ایسوسی ایشن کردیا گیا۔
اب بھگت سنگھ آزادی کی جدوجہد کو سوشلسٹ بنیادوں پر منظم کرنا شروع کرتا ہے مگر کم وقت میں محنت کش طبقے کی زیادہ پرتوں تک اپنی آواز پہنچانے کی غرض سے 18 اپریل 1929ء کو جب پبلک سیفٹی بل اور ٹریڈ ڈسپیوٹ بل جیسے مزدور دشمن قوانین پاس ہونے تھے تو ہندوستانی پارلیمنٹ میں اپنے ساتھی سمیت بم پھوڑتا ہے اور ”انقلاب زندہ باد! سامراج واد مردہ باد!“ کے نعرے بُلند کرتے ہوئے خود گرفتاری دیتے ہیں۔ گرفتاری کے بعد جونہی قانونی کاروائی کا آغاز ہوتا ہے تو سرکاری میڈیا کے ذریعے بھگت سنگھ کا پیغام محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں تک پہنچنا شروع ہوتا ہے جس کے تحت سطح کے نیچے پنپتا عوامی غصہ سطح پر آنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ خود برطانوی سامراج اور ان کے گماشتہ گاندھی و دیگر قائدین کیلئے موت ثابت ہوسکتا تھا، سو بھگت سنگھ کی آواز بند کرنے کو انگریز گماشتہ پارلیمان سے لاہور کانسپیریسی آرڈیننس کے ذریعے بھگت سنگھ ا ور دیگر ساتھیوں کو عدالت میں پیش کیے بنا ہی کاروائی کی جاتی ہے اور 24 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی موت طے پاتی ہے مگر عوامی تحریک کے خوف سے ایک رات قبل ہی 23 مارچ کو ہندوستان کے سوشلسٹ انقلاب کے ان تین عظیم سپوتوں کو سزائے موت دے دی جاتی ہے۔
بھگت سنگھ کیسی آزادی چاہتا تھا؟ کیا یہ وہی آزادی ہے جس کا آج ہندوستان کا حکمران دعویٰ کرتے ہیں، نہیں ایسا نہیں ہے۔ بھگت کے الفاظ میں:
”ہمیں آزادی نہیں چاہیئے! ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیئے جس میں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لے۔ ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہئیے جس میں استحصال اور غلامی کا یہ ذلت آمیز نظام قائم رہے۔ ہم ایسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو سارے نظام کو ایک انقلابی تبدیلی کے ذریعے بدل کر رکھ دے۔“
بھگت کے مطابق انقلاب کے نعرے کا مطلب گورے حکمرانوں کی جگہ ہندوستانی حکمرانوں کا راج نہیں، بلکہ مزدور راج ہے۔ بھگت کے الفاظ میں:
”آپ لوگ ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس نعرے کا مطلب کیا ہے۔ ہماری تعریف کے مطابق انقلاب کا مطلب اس سماجی نظام کو اُکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہے۔ اگر آپ کسانوں اور مزدوروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ جان لیجیے کہ وہ جذباتی باتوں سے بے وقوف بننے والے نہیں۔ وہ آپ سے پوچھیں گے کہ؛ جس انقلاب کیلئے آپ ان سے قربانی مانگ رہے ہیں وہ انہیں کیا دے سکتا ہے؟ آپ کو انہیں یقین دلانا پڑے گا کہ انقلاب ان کا ہے اور انہی کے فائدے کیلئے ہے۔۔پرولتاریہ کیلئے پولتاری انقلاب۔ اگر لارڈ ریڈنگ کی جگہ سر پرشوتم داس ٹھاکر حکومت کا نمائندہ بن جائے تو عوام کی زندگیوں میں کیا فرق پڑے گا؟ اگر لارڈ ارون کی جگہ سر تیج بہادر سپارو لے لے تو ایک کسان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی؟ قوم پرست ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ آپ کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔“ (نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام)
اوپر بیان کیے گئے بھگت سنگھ کے اپنے الفاظ یہ واضح کرنے کیلئے کافی ہیں کہ بھگت سنگھ کسی ’قومی آزادی‘ کی جدوجہد کا سپاہی نہیں تھا بلکہ وہ پرولتاریہ کی آمریت کو ہی آزادی کی واحد صورت سمجھتا تھا۔ وہیں بھگت سنگھ واضح کرتا ہے کہ اس آزادی کی جدوجہد کو مزدوروں اور کسانوں کے بلبوتے پر ہی جیتا جاسکتا ہے، جبکہ اس کا مخالف گاندھی کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا تھا کہ:
”سیاسی مقاصد کیلئے پرولتاریہ کا استعمال بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔“
یہ گاندھی کا خوف دراصل درست تھا، چونکہ گاندھی کی تمام تر جدوجہد نجی ملکیت اور سرمایہ دار طبقے کی گماشتگی تک محدود تھی اور مزدوروں کی تحریک میں شمولیت خود گاندھی اور کانگریس کی سیاست کو خطرے میں ڈال دیتی۔
بھگت سنگھ کی ساری زندگی اور جدوجہد کسی ایک ہی نقطے پر نہیں رہی بلکہ وہ ایک پورا سفر تھا جس کا آغاز انفرادی دہشتگردی سے ضرور ہوتا ہے مگر اختتام ایک بالشویک طرز کی پارٹی کے قیام اور اس کی ضرورت کے ادراک پر ہوتا ہے۔ بھگت سنگھ اس حقیقت کو اپنے تجربات سے اور نظریاتی سمجھ بوجھ سے بھانپ لیتا ہے کہ انقلاب کوئی بموں اور بندوقوں کا کھیل نہیں جیسا کہ اکثر بھگت سنگھ کے ساتھ حکمران طبقہ جوڑتا ہے بلکہ سائنسی نظریات سے لیس ایک سخت گیر انقلابی پارٹی کی تعمیر کے ذریعے ہی اس کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ بھگت سنگھ کے اپنے الفاظ میں:
”انقلاب ایک مشکل کام ہے۔ یہ کسی (اکیلے) آدمی کے بس کی بات نہیں۔ نہ ہی اس کے لئے کوئی مقررہ تاریخ دی جا سکتی ہے۔ بلکہ انقلاب مخصوص معاشی و سماجی حالات میں برپا ہوتے ہیں۔ انقلابی پارٹی کا اصل کام ایسے حالات سے فائدہ اٹھانا ہے۔ انقلاب کے لئے عوام کو تیار کرنا مشکل کام ہے، اور یہ کام انقلابیوں سے قربانی کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہاں ایک بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کاروبار سے وابستہ ہیں یاپھر روز مرہ کاموں اور خاندان میں مصروف رہنے والے آدمی ہیں تو مہربانی کر کے اس آگ سے مت کھیلئے۔ ایک لیڈر کے طور پر آپ پارٹی کے کسی کام کے نہیں ہیں۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی شام کو وقت گزاری کے لیے تقریر کرنے والے لیڈروں کی بہتات ہے، جو بیکار ہیں۔ ہمیں لینن کے الفاظ میں ”پروفیشنل انقلابی“ درکار ہیں، تمام تر وقت کام کرنے والے ایسے کارکن جن کی زندگی کا مقصد انقلاب کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ ایسے انقلابی کارکن جتنی زیادہ تعداد میں پارٹی کے اندر منظم ہوں گے کامیابی کے امکان اتنے ہی زیادہ ہیں۔“
یقیناً بھگت سنگھ کے یہ الفاظ جتنے اس وقت درست تھے آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ آج جب سرمایہ دارانہ نظام عوام کی زندگیوں کی جہنم بنا رہا ہے۔ تقسیمِ برصغیر کے نقوش خون کی نہ رُکنے والی لکیریں ثابت ہوئیں اور آج بھگت کی 90 ویں برسی پر بھی بھگت زندہ ہے تو اس کی وجہ اس کے درست نظریات اور ان پر عمل تھا اور یہی بھگت سنگھ کے نظریات ہیں جو آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔ جہاں بھگت سنگھ کے نعرے آج خطے میں جاویداں ہیں وہیں بھگت کے نظریات بھی بالکل صداقت پر مبنی ہیں اور وہ منزل جس کی خاطر بھگت سنگھ نے جدوجہد کی وہ ہمارے اوپر قرض ہے۔ بھگت سنگھ 2 فروری 1931ء کو لکھے گئے ایک خط میں اس منزل کا ذکر کرتا ہے کہ:
”میں نے اپنے سابقہ نظریات اور عقائد کا ازسرِنو جائزہ لے کر کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ پرتشدد طریقوں کے رومانس کی جگہ اب سنجیدہ نظریات نے لے لی ہے۔ تصوف اور اندھے یقین کو ختم کرنا ہوگا۔ انقلابی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوشلسٹ سماج انسانی نجات کی واحد ضمانت ہے۔“
آج نوجوانوں پر فرض ہے بھگت کا نام اور پیغام نعروں اور پوسٹروں سے آگے بڑھاتے ہوئے عمل کے اندر لائیں اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا حصہ بنتے ہوئے اس جدوجہد کو انقلاب کی کامیابی تک جاری رکھیں۔