بلوچستان کے نوجوانوں کی سیاسی متبادل کی جستجو!

|تحریر: بلاول بلوچ|

فوٹو – ڈان

نوجوان سماج کی وہ حساس پرت ہے جو سماج میں چلنے والی گرم ہواؤں کو سب سے پہلے محسوس کرتی ہے۔آج سرمایہ داری کے بحران نے ایک گھناؤنی شکل اختیار کر لی ہے جہاں مستقبل میں صرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’ سرمایہ د اری بغیر اختتام کے ایک وحشت ہے‘‘ اور آج اُس وحشت کی آگ میں نوجوان بری طرح جُھلس رہے ہیں۔ سرمایہ داری نے اپنے آغاز اور عروج میں جہاں ایک ترقی پسندانہ کردار ادا کیا تھا لیکن ساتھ ہی منافع اور شرح منافع پر مبنی سرمایہ داری کی خصلت اس کے ترقی پسندانہ کردار کو بھی آہستہ آہستہ معدوم کرتی چلی گئی۔اور آج سرمایہ دارانہ نظام کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ سرمایہ داری نے جہاں ترقی یافتہ ممالک کے اندر نوجوانوں اور عوام کو کچھ رعایتیں دیں تھیں لیکن آج سرمایہ داری اپنے تاریخی بحران میں سب کچھ واپس چھین رہی ہے۔لیکن اسکے برعکس اگر ہم پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک کی بات کریں جہاں سرمایہ داری نے عام عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا، جہاں سرمایہ داری اپنے کلاسیکل شکل میں کسی انقلاب کے ذریعے نہیں اُبھر ی وہاں پر لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی ہے۔جہاں ایک طویل عرصہ سے محض محنت کشوں کی محنت کا استحصال ہی کیا گیا ہے اور بھوک، ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔

پاکستان جیسا ملک جس کی تشکیل ہی ایک خونی بٹوارے سے ہوئی ہو،وہاں لاکھوں غریب عوام اور محنت کشوں کے قتل عام سے اور نفرت کی بنیاد پر وجود میں آنے والا ایک ملک کس طور عام لوگوں کے لیے بھلا ہو سکتا تھااور اس سے اُمید بھی کسی چیز کی کی جا سکتی تھی۔حکمران طبقے کے مفادات اور برطانوی سامراج کی ہوس میں کئے گئے اس بٹوارے نے ریاست کے بطن میں ایک نفرت کا عنصر سمو دیا جہاں اظہاررائے اور حقوق مانگنے کے لیے کوئی بھی جگہ نہیں چھوڑی گئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ریاست میں یہ نفرت اور عدم برداشت کا عنصر مزید شدت پکڑتا گیا، وہیں پر ریاست اپنی طاقت کی دُھن میں آکر مختلف مہم جوئیاں کرنے لگی۔ سکوت ڈھاکہ سے لے کر بلوچستان میں ریاستی جبراور سندھ میں قومی محرومی۔ریاست کہیں پر بھی اپنا وجود ایک قوم کی بنیاد پر نہیں منوا سکی اور اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے حکمران طبقے کی تاریخی نااہلی تھی۔

آج ستر برس ہونے کو آگئے لیکن یہاں کے لوگوں کی، عام عوام کی، نوجوانوں کی زندگی اُسی اذیت کا شکار ہیں جو آج سے کئی برسوں پہلے تھی۔ 1968ء میں ایک انقلابی تحریک اٹھی تھی جس نے حکمرانوں کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ لیکن وہاں ایک درست مارکسی نظریات پر مبنی ایک سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی اُس تحریک کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکی۔1968ء میں سوویت یونین موجود تھا، چین بھی منصوبہ بند معیشت کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔لیکن نظریاتی زوال پذیری کی وجہ سے سوشلزم کے گیم پلئیرز ہی انقلابات کو زائل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔

آج ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے اور یہ نسل اس عہد میں سر اُٹھا رہی ہے جہاں عالمی سرمایہ داری کا بحران مزید سے مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور اس بحران کے گہرے اثرات نوجوانوں کی زندگیوں پر پڑ رہے ہیں۔ المیہ تویہ ہے کہ بڑے بوڑھے خود نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ آپ ایک خطرناک عہد کے اندر سر اُٹھا رہے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق آج کا عہد ایک بالکل مختلف ہے۔اس تاریخی پس منظر میں ہم پاکستان کے اندر قومی محرومی اور قومی استحصال کے خلاف اُبھرتی مزاحمت، جو دراصل اپنے آخری تجزیہ میں طبقاتی محرومی ہی ہے جس نے اپنا اظہار قومی محرومی کے اندر کیا، جہاں نام نہاد ’’آزادکشمیر‘‘ سے لیکر سندھ‘ پشتونخوااور بلوچستان تک میں مزاحمتی تحریکیں بھی چلی اور نوجوانوں نے عوام کے ساتھ بڑی قربانیاں بھی دیں اور آج تک دے بھی رہے ہیں۔

بلوچستان میں روز اول سے ہی مزاحمت کی پے در پے تحریکیں اُبھرتی آئی ہیں ۔ماضی کے اندر اُن تحریکوں میں ترقی پسندانہ اور بائیں بازو کا رجحان پایا جاتا تھا اور اُس پر بحث مباحثے بھی ہوا کرتے تھے لیکن جب سے سوویت یونین کا بت ٹوٹ کے پاش پاش ہوا اس کے ساتھ ہی اس بحث کو سمیٹ کر پسِ پشت ڈال دیاگیا۔حالیہ 2006ء کی تحریک میں جہاں پر نوجوانون کی ایک بہت بڑی اکثریت نے اُس تحریک کے اندر شمولیت کی، وہیں پر قیادت کی نظریاتی کمزوریوں اور غلط حکمت عملی نے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کو قربان کر دیا اور ریاست کو یہ جواز فراہم کیا کہ وہ اپنے مظالم میں شدت لے آئے اور اس کے اثرات پورے بلوچ سماج پر مرتب ہوئے جہاں خوف وہراس نے نوجوانوں کو سیاسی بیگانگی کا شکار بنا دیا۔ اور نوجوان آہستہ آہستہ سیاسی راستوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے۔ دوسری طرف اس سب سے جو ایک سیاسی خلا پیدا ہوا تو اس پُر کرنے کے لیے مداری قوم پرستوں کو راستہ دیا گیاکہ وہ اس خلاء کو پُر کرے۔قومی محرومی کی اس شدت کو، جس سے نجات کے لئے ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اُن کو چار پانچ سڑکوں اور چند ہزار نوکریوں سے ٹھنڈا نہیں کیا جا سکتا۔اس صورتحال کے اندر نوجوانوں کی یہ حساس پرت جہاں اس چیز کا ادراک رکھتی ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے گِدوں اور ٹھیکیداروں نے اُن کی محرومیوں کا سودا کیاہے تو دوسری طرف کے تحریک سے بھی ایک بد دلی کی سی کیفیت جنم لے رہی ہے۔

بلوچستان کے نوجوانوں کا مسئلہ دُنیا کے دوسرے نوجوانوں کی طرح فیسوں میں اضافے اور روزگار کامسئلہ ہے۔ نوجوان دیکھ رہے ہیں کہ کوئی تو ہو جو ان کے مسائل کی کم سے کم نشاندہی تو کرے حل تو ویسے بھی اس نظام کے پاس نہیں ہے۔مصنوعی مسائل کے گرد سیاست سے نوجوان بیزار ہوچکے ہیں اور اس سیاست پر کوئی کان ہی نہیں دھرتے، جو چیز ان کی ہے ہی نہیں تو اُس میں حصہ لے کر کرنا کیا ہے۔ یہ نوجوانوں کے اس سیاست کے لیے الفاظ ہیں۔جو قوم پرستی نوجوانوں کے ذہنوں پر مسلط کی جارہی ہے وہ اُنہیں یکسر مسترد کرتے آرہے ہیں اور ایک متبادل کی تلاش میں ہیں۔

ڈھائی سالہ قوم پرستوں کی مخلوط حکومت میں بلوچستان کے نوجوانوں اور عوام کے لیے کوئی بھی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہائی گئیں بلکہ چھینی گئی ہیں۔صحت کے جیسے بنیادی شعبے کی خستہ حالی کا اندازہ آئے روز پیرا میڈیکس ،ینگ ڈاکٹرز،نرسز اور فارماسسٹس کی ہڑتالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس شعبے کی وزارت کسی اور کے پاس نہیں بلکہ انہیں قوم پرستوں کے پاس ہے۔نئے اور جدید طرز پر صحت کے شعبے کو ہموار کرنا تو دور جو پہلے سے کچھ رہے سہے ڈھانچے اور انتظام کاری تھی وہ بھی کرپشن اور اقرباء پروری کے نذر ہو گئی ہے۔

دوسری طرف پشتون قوم پرست، جن کی سیاست کا محور ہی بلوچ پشتون دشمنی پر مبنی ہے، اور کچھ بلوچ سیاستدان اپنی دکانداری کو چمکانے کے لیے اسے وقتاًفوقتاً اس کو ہوا بھی دیتے رہتے ہیں۔ اس دور اقتدار کے اندر وہ دیکھ چکے ہیں کہ جن اداروں میں پشتون طلبہ بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں وہاں پر بھی فیسوں میں کمی نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی عام پشتون کو کوئی روزگار دیا گیا ہے۔ تعلیم کا شعبہ پشتون شاؤنسٹ قوم پرست جماعت کے پاس تھا۔اسکالرشپس کے نام پرنوجوانوں کو ایک بھیک اور خیرات دی جا رہی تھی‘اور اس کی بھی کوئی منصفانہ تقسیم نہیں ہوئی بلکہ حکمران طبقات کے کاسہ لیسوں اور دُم چھلوں کی آپسی بندر بانٹ کے بھینٹ چڑگئے۔اورآئے روز نوجوانوں پریونیورسٹیوں اور کالجز کی فیسوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان حالات کے اندر بلوچستان کے نوجوانوں کو قوم پرستی کے زہر سے اُن کے احساس کو مجروح کیا جاتا رہا ہے۔ آج وہ خول مکمل ٹوٹ کے بکھر چکا ہے۔اور ایک سیاسی خلاء نے جنم لیا ہے‘جس کو وقتی طور پر پُر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس طرح لینن نے وضاحت کی تھی’’کہ قومی سوال کا حل صرف سوشلزم کی فتح میں ہے‘‘۔ اُس فتح کی سمت بڑھنے کے لیے جو اس کُرہ ارض اور بنی نوع انسانی کی بقاء کی فتح ہے،ہمیں ماضی سے اسباق سیکھتے ہوئے حتمی فتح تک ایک غیر متزلزل لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے۔ آج کے عہد میں کوئی سوویت یونین موجود نہیں ہے جو انقلابات کے راستے میں روڑے اٹکائے۔اگر ایک دُشمن ہے تو وہ صرف سرمایہ داری ہے جس کا قلع قمع کر کے ہی اس منزل کو پایا جاسکتاہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.