|تحریر: پارس جان|
[ یہ اقتباس سہ ماہی میگزین لال سلام کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”سوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“ سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔]
سوشلزم ہے کیا؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ مخالفین اس کی طرح طرح کی توضیحات پیش کرتے ہیں۔ دراصل یہ ایک معاشی و سماجی نظام ہے جس میں ذرائع پیداوار سماج کی اجتماعی ملکیت بن جاتے ہیں جن کا نظم و نسق محنت کشوں کی جمہوری ریاست کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ سماج میں پیدا ہونے والی قدرِ زائد یعنی دولت مٹھی بھر اشرافیہ کی بجائے ریاستی خزانے میں جمع ہوتی ہے اور مزدور ریاست اسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے۔ قومی، صنفی، لسانی، مذہبی و فرقہ وارانہ امتیازات ماضی بعید کے قصے بن جاتے ہیں۔ امیر اور غریب کی تقسیم یعنی سماج کی طبقاتی بنتر معدوم ہو جاتی ہے اور انسان پر سے انسان کے ہر طرح کے جبر اور استحصال کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ ریاست کے پاس وسائل کی فراوانی کے باعث سماج میں سے ہر قسم کی عمومی قلت کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور تعلیم، علاج، رہائش اور ٹرانسپورٹ سمیت تمام بنیادی انسانی ضروریات ریاست مفت فراہم کرتی ہے۔ بیروزگاری کا تصور تک باقی نہیں بچتا اور ثقافتی میدان میں ترقی کی رفتار ماضی کی تمام حاصلات پر سبقت لے جاتی ہے۔ اس نظام پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک یوٹوپیا ہے یعنی ایک خیالی جنت، جہاں تمام مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ معترضین اگر انقلاب کی لازمیت کو مان بھی لیں تو وہ اس نظام کی مذکورہ بالا صفات اور امکانات کو آسانی سے قبول نہیں کر پاتے۔ ظاہر ہے نسل در نسل چند لوگوں کو امیر سے امیر تر اور باقی بھاری آبادی کو غریب تر ہوتا ہوا دیکھنے والوں کو امیر اور غریب کے فرق کے بغیر سماج تو ایک خواب ہی لگے گا۔ مظلوم اقوام کے جمہوری حقوق کی پامالی اور انسانیت سوز سلوک کے معمول میں قومی جبر کے واقعی خاتمے کا تصور کسی مذاق سے کم نہیں۔ جب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کے ریپ عام ہو جائیں تو آزاد عورت کا تصور ذہن کیسے قبول کرے۔ جب مذہبی اختلاف کے باعث مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونا تعجب کا باعث نہ رہے تو تمام تر تعصبات و توہمات سے پاک معاشرے کا تصور عجیب ہی لگتا ہے۔ جب سکول جانے کی عمر کے کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہوں تو مفت تعلیم کا حصول ناقابلِ یقین نہ لگے تو اور کیا لگے۔ جب آئے روز قابلِ علاج بیماریوں سے سینکڑوں بزرگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہوں تو مفت علاج کی بات ایک بھڑک ہی محسوس ہو گی۔ جب بیروزگاری سے تنگ نوجوان روز خود کشیاں کرتے ہوں تو سو فیصد روزگار دینے والے نظام کے تصور کو کیسے قبول کیا جائے۔
تو کیا واقعی سوشلزم یوٹوپیا ہے؟ یوٹوپیا کہتے کسے ہیں؟ ایک ایسا خیال جس کی کوئی مادی بنیاد ہی موجود نہ ہو یوٹوپیا کہلاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سوشلزم کے مذکورہ بالا دعووں کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کیا واقعی کوئی مادی امکان موجود ہے بھی یا نہیں۔ ذرائع پیداوار کی ریاستی تحویل جو سوشلزم کا نقطہ آغاز ہے، اس کے معروضی امکانات 2008ء کے مالیاتی بحران سے مسلسل جاری کساد بازاری نے کئی بار اجاگر کیے ہیں۔ سرمائے کے بے ہنگم ارتکاز نے مبالغہ آمیز اجارہ داریوں کو جنم دیا ہے۔ چند گنی چنی اجارہ داریاں عالمی منڈی اور پیداوار کو کنٹرول کرتی ہیں۔ صرف زراعت اور خوراک کے شعبے کی مثال لے لیجیے۔ ایگرو کیمیکلز کی عالمی منڈی کے 77.6 فیصد جبکہ بیج (seed) کی عالمی منڈی کے 58 فیصد کو صرف 6 کارپوریشنز کنٹرول کرتی ہیں۔ اسی طرح صرف 10 کارپوریشنز عالمی زرعی تجارت کے 40 فیصد کو چلاتی ہیں۔ یہی حالات تمام شعبوں میں نظر آئیں گے۔ بہت سی اجارہ داریوں کا حجم دنیا کے بے شمار ممالک کی مجموعی معیشتوں کے حجم سے بھی زیادہ ہے۔ ان اجارہ داریوں نے منڈیوں کی مقابلے بازی میں بے پناہ مصنوعی سرمائے کا سہارا لے کر عالمی معیشت کے اتنے بلبلے تشکیل دیے ہیں کہ ان بلبلوں کا پھٹنا ناگزیر ہے۔ جب یہ بلبلے پھٹتے ہیں تو ان اجارہ داریوں کی نجی ملکیت کا لغو پن آشکار ہو جاتا ہے اور ان کو انہدام سے بچانے کے لیے قومی ریاستیں اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان منہدم ہوتے ہوئے مالیاتی اداروں کو قومیا کر ان کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بحران کی ذمہ دار کمپنیاں جو اپنی منافع خوری کی ہوس کے بے قابو ہونے کے باعث دیوالیہ ہوتی ہیں، انہیں قومیا کر ساری قومی معیشت کو ہی داؤ پر لگایا جا سکتا ہے تو ساری اجارہ داریوں اور ذرائع پیداوار کو ہی قومیا کر عوامی فلاح و بہبود کے لیے قومی خزانے کے اصراف کو ممکن کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ نجی ملکیت کی آئینی، اخلاقی و سماجی حیثیت کو الٹنے کے علاوہ اس میں کوئی دوسری قباحت نہیں ہے۔ مادی اور معروضی طور پر یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔
جہاں تک عوامی فلاح و بہبود کے سوشلسٹ منصوبوں یعنی بھوک اور غربت سے نجات، قلت کے خاتمے، مفت تعلیم، علاج، رہائش، ٹرانسپورٹ، سو فیصد روزگار وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ آج کے عہد میں قطعی طور پر یوٹوپیا نہیں ہے۔ سرمایہ داری کا عالمی بحران آخری تجزیے میں قلت نہیں بلکہ زائد پیداوار کا بحران ہے۔ مقابلے بازی کے باعث جدید مشینری کے استعمال سے بیروزگاری وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ چند محنت کش اب اتنا پیدا کر دیتے ہیں جو گزشتہ دہائیوں میں لاکھوں محنت کش پیدا کرتے تھے۔ اس سے منڈی کی قوتِ خرید تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ اسے مصنوعی طور پر بحال کرنے کی کوشش میں لگائے جانے والے سرمائے کے انجیکشن نے قرضوں کے پہاڑ بنا دیے ہیں اور افراطِ زر کی حالیہ لہر کو جنم دیا ہے۔ اب اس کے انسداد کے لیے شرح سود کو بڑھا کر معیشت کو ایک نئے بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ حدود قیود میں اب اس بحران کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ جب تک قومی ریاست اور نجی ملکیت کے خونی پنجوں سے آزاد کراتے ہوئے اس زائد پیداوار کو بروئے کار لا کر مصنوعی قلت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا بحران کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود رہے گا۔ گویا سرمایہ دارانہ نظام اب اپنی ہی تخلیق کردہ پیداواری صلاحیت کو استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔ اگر اعداد و شمار کی زبان میں بات کی جائے تو اکانومی ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اپریل 2023ء میں کل پیداواری صلاحیت کا 79.7 فیصد ہی زیرِ استعمال تھا۔ برطانیہ میں 2020ء کے اختتام پر 73.9 فیصد، سپین میں اپریل 2023ء میں 76.3 فیصد، ارجنٹائن میں 67.5 فیصد، ناروے میں 79 فیصد، پولینڈ میں 78.7 فیصد، اٹلی میں 77.2 فیصد، فرانس میں 81.9 فیصد، جرمنی میں 84.2 فیصد، یونان میں 73.7 فیصد اور بلغاریہ میں 75.6 فیصد ہی پیداواری صلاحیت استعمال ہو پا رہی ہے۔ فائبر 2 فیشن نامی ایک ویب سائٹ کے مطابق انٹرنیشنل ٹیکسٹائل مینو فیکچررز فیڈریشن کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آغاز سے عالمی ٹیکسٹائل صنعت کی پیداواری صلاحیت کا صرف 74 فیصد ہی استعمال میں ہے۔
لندن کے ایک خیراتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر خوراک پیدا کرنے والے نظام کے تحت روزانہ زمین پر بسنے والے ہر شخص کے لیے 6000 کیلوریز پیدا ہوتی ہیں۔ یہ مقدار ہر بالغ شخص کی ضرورت سے 2.6 گنا زیادہ ہے جبکہ دوسری طرف دنیا بھر میں 2.3 ارب لوگ صحت افزا خوراک اور غذائی ضروریات سے محروم ہیں۔ یو این فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ 2005ء سے 2020ء تک عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ گنے، چاول، مکئی اور گندم کی پیداوار میں اس عرصے میں لگ بھگ 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ہر قسم کی سبزیوں کی پیداوار میں 65 فیصد، دودھ کی پیداوار میں 53 فیصد اور گوشت کی پیداوار میں کم از کم 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ اس کے متوازی عالمی سطح پر غذائی قلت کا شکار لوگوں کی تعداد 2019ء میں 150 ملین تھی جو اب بڑھ کر 2.3 ارب تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی خوراک کے شعبے میں پیداوار اور پیداواری صلاحیت کے بڑھنے سے غذائی قلت بھی کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ یہی صورتحال لگ بھگ ہر شعبے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر مسلسل بڑھتی ہوئی منافع خوری کی بات کی جائے توآئل اور گیس کے شعبے کی ایک بڑی ملٹی نیشنل EXXonMobil نے رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں 11 ارب ڈالر کا منافع کمایا، 2022ء میں اس کمپنی نے 55.7 ارب ڈالر کا منافع کمایا تھا۔ یہ عین اس وقت ممکن ہوا جب سارے یورپ میں کروڑوں لوگ کھانے یا ’گرمائش‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور تھے۔ 2008ء کے بحران سے لے کر اب تک مرکزی بینکوں نے اس طفیلی نظام کو بچانے کے لیے 10 ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم مقداری آسانی کے ذریعے یعنی نوٹ چھاپ کر سسٹم میں انجیکٹ کی، جس کی قیمت اب افراطِ زر کی شکل میں عام لوگوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔ اس نظام کی متروکیت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ عین اس وقت جب دنیا میں غربت اور افلاس تاریخی حدوں کو عبور کر رہے ہیں، دنیا بھر میں فوجی اخراجات بھی تاریخ کی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ صرف نیٹو ممالک نے اپنے دفاعی بجٹ میں 133 ارب ڈالر کے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت بحران کے باعث سرمایہ دار سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور کھربوں ڈالرز، پاؤنڈز اور یوروز ’مردہ زر(Dead Money) کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ صرف کینیڈا میں 2019ء میں 700 ارب ڈالر کی مردہ زر موجود تھی جس میں سالانہ 65 ارب ڈالر کا اضافہ ہو رہا تھا۔ اگر یہ تمام مذکورہ بالا دولت، منافعے اور پیداواری صلاحیت عوامی فلاح و بہبود کے لیے وقف ہو تو اسی دنیا پر حقیقی جنت کی تعمیر کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
انسانیت کے سامنے اس وقت یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ اس انتشار زدہ منڈی کی معیشت کو ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت میں بدل دیا جائے۔ مذکورہ بالا اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس کرۂ ارض پر بھوک، لاعلاجی اور افلاس سراسر غیر ضروری اور مصنوعی ہے۔ ان کی وجہ سے ہونے والی اموات کو قدرتی نہیں بلکہ اس نظامِ زر کا قتلِ عام قرار دینا چاہیے۔ زیادہ تر لوگوں کا سماج اور معیشت کی سوشلسٹ منصوبہ بندی اور اس کے ممکنہ نتائج کو یوٹوپیا قرار دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتا آیا ہے۔ اگر قرونِ وسطیٰ کے کسی عقلمند ترین انسان سے کوئی یہ کہتا کہ ایک وقت آئے گا جب ہم چند گھنٹوں میں بیٹھے بٹھائے اُڑ کر ہزاروں میل کا سفر طے کر لیا کریں گے تو یقینا وہ عقلمند شخص اس قسم کا دعویٰ کرنے والے فرد کو پاگل قرار دے دیتا۔ ایسے ہی سو سال قبل انسانوں کے ’سپئیر پارٹس‘یا ٹرانسپلانٹیشن کا تصور کسی یوٹوپیے سے کم نہیں تھا مگر آج یہ سب سماج میں نہ صرف ہو رہا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہو۔ مشہور جرمن فلسفی آرتھر شوپنہائر نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ ’ہر سچ کو تین مراحل سے ضرور گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے، دوسرے مرحلے میں اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں اسے ایسے تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے کبھی اس کا انکار کیا ہی نہ گیا ہو۔‘