خیبر پختونخواہ: طبقاتی نظام تعلیم پر یونیفارم کا پردہ ڈالنے کی کوشش

|تحریر: خالد قیام|

خیبر پختونخواہ کے گورنر نے 29 دسمبر 2020ء کو ہزارہ یونیورسٹی کے اکیڈمک کونسل کے ایک اجلاس میں طلباء و طالبات کیلئے مخصوص یونیفارم متعارف کرانے کااعلان کیا جس پر عمل درآمد کے بعد اس پالیسی کو صوبے کی باقی یونیورسٹیوں میں بھی لاگو کرانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق طالبات کیلئے یونیورسٹی میں کالا، نیلا یا سلیٹی رنگ کا عبایہ یا برقعہ پہننا لازمی ہونے کے ساتھ ساتھ تنگ لباس، یا کرتا پہننے اور میک اپ، زیورات اور بھاری ہینڈبیگ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ طلباء کیلئے پھٹی جینز، تنگ لباس، شارٹس، چپل پہننے اور لمبے بال رکھنے یا بالوں پر چوٹی بنانے یا داڑھی کے کوئی سٹائل بنانے پر پابندی ہوگی۔ وزیر اعلی کے مشیر نے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ اس پالیسی کا مقصد تعلیمی اداروں میں امیر و غریب کا فرق ختم کرنا اور جنسی ہراسانی کو روکنا ہے۔

دونوں جواز منافقت پر مبنی ہیں۔ اس سب کے پیچھے اصل محرکات دراصل غریب اور امیر میں فرق ختم کرنے کی بجائے سماج میں موجود طبقاتی تفریق پر منافقت کا پردہ ڈالنا ہے۔ مگر کیا کیجئے کہ حقیقت ہزار پردوں سے بھی نہیں چھپ سکتی۔ لڑکیوں کے میک اپ پر پابندی لگائی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ خواتین کو اس نظام نے کس طرح ایک انسان سے ”شے“ (Commodity) میں تبدیل کردیا ہے اور کیوں خواتین کو سماج میں قابل قبول بننے کیلئے ظاہری بناؤ سنگھار پر مجبور کیا گیا ہے؟ اس حوالے ہماری ویب سائٹ پر شائعٍٍ ہونے والا مضمون (سرمایہ داری نہ فیئر ہے نہ لولی بلکہ UGLY ہے) پڑھیے۔ مگر یہ حکمران امیر و غریب کے اس طبقاتی نظام کے حقیقی بدنما چہرے کو ظاہری میک اپ کے ذریعے چھپانا بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ہے اصل منافقت۔

اس وقت حکمران طبقہ اور ان کا یہ نظام مکمل طور پر ایک بحران میں داخل ہو چکا ہے جو بشمول تعلیم زندگی کے ہر شعبے کو شدید متاثر کر رہا ہے۔ اس بحران کی جڑیں آج پوری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی معاشی بحران میں پیوست ہیں۔ اس بحران کی پہلی اور آخری وجہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس نظام پر پلنے والے چند کھرب پتی اور ارب پتی ہیں۔ آج یہ نظام اور سرمایہ دار طبقہ اور ان کے ریاستی و سیاسی پالیسی ساز اور محافظ عوام کو اتنا لوٹ چکے ہیں کہ اب عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی، تعلیم، گھر اور علاج جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں اور خاص طور پر پبلک یونیورسٹیوں میں بھی اکثر نچلے درمیانے طبقے اور کچھ معاشی طور پر خوشحال گھرانوں کے ساتھ ساتھ غریب پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے خوش قسمت نوجوان داخل ہوتے ہیں۔ مگر اب موجودہ بحران نے ان کے گھریلو حالات کو کافی متاثر کیا ہے اور بہت سے نچلے درمیانے طبقے اور خاص طور پر محنت کش طبقے کے لوگ بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔

یہ طبقاتی تقسیم تعلیمی اداروں میں خاص کر شدت کے ساتھ اپنا اظہار کر رہی ہے۔ حکمران طبقہ اور تعلیمی اداروں کے اندر بیٹھے اعلیٰ افسران کو یہ چیز صاف نظر آرہی ہے اور وہ ان غریب طلباء و طالبات کے دل و دماغ میں طبقاتی محرومی سے اس نظام، حکمران طبقے اور تعلیمی اداروں میں ان کے دلالوں کے خلاف جنم لینے والے غصے کو محسوس کر رہے ہیں۔

ہر خاص و عام کو بخوبی علم ہے کہ تعلیمی ادارے اس وقت علم کی آماجگاہیں نہیں بلکہ پیسہ کمانے کی فیکٹریاں ہیں۔ ان کا مقصد بھی صرف حکمرانوں کے اس بدبودار نظام کو چلانے کیلئے سستے نوکر کو پیدا کرنا رہ گیا ہے۔ ایسے میں اس سرمایہ دارانہ نظام کے مالکوں (سرمایہ داروں) کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ اور اعلیٰ افسران کو مراعات اور چند ٹکڑے دیے جاتے ہیں جس کے بدلے میں وہ موجودہ طبقاتی نظام کو ابدی صداقت، چند سرمایہ داروں کی ذاتی ملکیت کو مقدس اور ان کی چاپلوسی اور غلامی کو فرضِ عین ثابت کرتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کا حکمران طبقہ محنت کشوں اور طلبہ کی ایک بڑی تحریک سے خوفزدہ ہے اور ہر وہ حربہ آزما رہا ہے جس سے محنت کشوں اور طلبہ میں خوف پیدا کیا جا سکے، انہیں تقسیم کیا جا سکے اور ان کی توجہ حقیقی جدوجہد سے ہٹائی جا سکے۔ اسی تسلسل میں ہی یونیفارم والی واردات بھی ڈالی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں قدامت پرستی اور رجعتی خیالات کو پروان چڑھانے کی بھونڈی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ چونکہ اس وقت حکمرانوں کی دولت میں ہونے والا بے تحاشہ اضافہ ساری عوام کی نظروں میں ہے اور وہ اپنی غربت اور محرومی اور ان حکمرانوں کی عیاشیوں کو دیکھ کر شدید غصے میں ہیں، جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے، جبکہ موجودہ وقت میں حکمران طبقے کی سماج میں موجود حمایت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ عموماََ حکمران طبقے کی حمایت مڈل کلاس میں کسی حد تک پائی جاتی ہے مگر فی الوقت مڈل کلاس ہی بڑی تیزی سے محنت کش طبقے میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں ان کی حمایت کی سماجی بنیادیں ہی تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں کے حکمران خوف میں ہیں اور انتہائی متذبذب اور بچگانہ پالیسیاں بنا کر یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ماضی جیسا دور واپس آجائیگا اور سماج میں ان کی حمایت ایسے مصنوعی طور پر رجعتی اقدامات اٹھانے سے واپس پیدا ہو جائے گی۔ اس مقصد کیلئے ہی انہوں نے لڑکیوں پر برقہ اور عبایا پہننا لازمی قرار دیا ہے۔ ورنہ یونیفارم کا مطلب لازمی طور پر عبایا نہیں ہو سکتا۔ یونیفارم صرف شلوار قمیض بھی ہو سکتی ہے جبکہ عبایہ یا برقعہ پہننے کا اختیار طالبات کو دیا جا سکتا تھا۔ مگر اس اقدام کو مسلط کرنے کیلئے یہاں کے حکمرانوں نے شعوری طور پر مذہبی اور قبائلی کارڈ کھیلا۔

اس پالیسی کو جواز فراہم کرنے کیلئے انہوں نے مذہب کا سہارا لے کر ایک طرح سے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب اس اقدام پر مختلف پہلووؤں سے لوگوں نے سخت تنقید کی ہے اور جھوٹ اور منافقت پر مبنی اس پالیسی کے پیچھے اصل قدامت پرست عزائم کی سخت مذمت کی ہے لیکن غریبوں کا احساس، ایمانداری اور ثقافتی روایات وغیرہ کے ماسک کے پیچھے ان کی منافقت کو مزید ننگا کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں سردست اعداد و شمار کے مطابق تین کروڑ کے قریب بچے ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہیں اور تعلیم پر ملکی بجٹ کا بمشکل 2 فیصد مختص کیا جاتا ہے۔ مگر یہ بات ضروری نہیں کہ اتنی رقم خرچ بھی ہوئی ہو۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017-18ء میں پنجاب میں تعلیمی بجٹ کے لیے مختص رقم کا 45 فیصد، سندھ میں 35 فیصد، خیبر پختونخواہ میں 43 فیصد اور بلوچستان میں 41 فیصد خرچ نہیں کیا گیا۔ خدا جانے اب یہ رقم اعلیٰ افسروں کی جیبوں میں گئی یا منسٹروں اور وزراء کے بینک اکاونٹس میں؟ مگر یہ تو طے ہے یہ رقم تعلیم پر بالکل نہیں لگی! یہ ان حکمرانوں کا تعلیم کی طرف اصل رویہ ہے۔ خیبر پختونخواہ میں 5 سے 16 سال تک کی عمر کے 24 لاکھ بچے تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔

غیر سرکاری ادارے ’ورلڈ ایجوکیشن نیوز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخواہ میں پرائمری سطح پر داخلے کی شرح 87 فیصد کے لگ بھگ ہے مگر یہ شرح سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کی سطح پر 49 فیصد تک گر جاتی ہے۔ یعنی سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی سکول چھوڑ دیتی ہے۔

نوجوانوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد، 8 سے 9 فیصد کے لگ بھگ، یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ پاتی ہے جن میں خواتین کی تعداد اور بھی کم ہے۔ اب اس محدود تعداد پر بھی موجودہ تعلیمی مہنگائی، فیسوں میں مسلسل اضافے اور تعلیم کی نجکاری کے تحت تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ کئی نوجوان تعلیم مکمل ہی نہیں کر پاتے اور پھر روزگار کی تلاش میں درر در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ان حالات میں نوجوانوں کے ذہن میں موجودہ پالیسیوں اور اس نظام کے خلاف شکوک و شبہات اور سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ طلبہ اور نوجوان اس تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال اور اپنی زندگی پر اس بحران کے بھیانک اثرات کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ایسے میں ان حقیقی مسائل کو کسی لبادے، عبائے اور برقعے پہنا کر نہ تو چھپایا جا سکتا ہے اور نہ ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکمران طبقے نے اس ملک کو لوٹ لوٹ کر غریب اور امیر کے درمیان اس فرق کو اتنا وسیع کردیا ہے کہ اب وہ خود اس سے خوف زدہ ہیں مگر اس تفریق کو کم کرنے کیلئے ان کے پاس سوائے منافقت کے پردے ڈالنے کے کوئی سنجیدہ راستہ نہیں۔ ایسے میں سوال یہ ابھرتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

اس طبقاتی فرق کو ختم کرنے کا ایک طریقہ اور راستہ ضرور موجود ہے۔ تعلیمی نظام میں یہ فرق ختم کرنے کے لیے تعلیم کو ہر سطح پر عوام کیلئے مفت کیا جائے۔ مگر یہ سوال پھر آخری تجزیے میں ایک سیاسی سوال ہے کہ عوام کو مفت اور یکساں تعلیم فراہم کرنے کیلئے شعبہ تعلیم مکمل طور پر ریاست کے کنٹرول میں ہو۔ یعنی سب کو مفت تعلیم فراہم کرنے کیلئے اور تعلیم میں طبقاتی فرق کو ختم کرنے کیلئے سب سے پہلے تمام نجی اور نیم پرائیویٹ اداروں کو مکمل سرکاری قبضے میں لے کر عوام کیلئے مفت کیا جائے اور تعلیم کے بیچنے اور خریدنے پر سخت پابندی عائد کرتے ہوئے تعلیم کے کاروبار کو ختم کیا جائے تاکہ استاد اور شاگر کے بیچ دکاندار اور گاہک کے تعلق کی جگہ حقیقت میں استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بحال ہو سکے۔ مگر یہ اقدام موجودہ نظام میں کس طرح ممکن ہے جس میں سیاست، صنعت، اور تمام سماجی وسائل و دولت پر قابض سرمایہ دار طبقہ تعلیم پر بھی قابض ہے اور تعلیم کے ذریعے بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے؟ بلاشبہ نوجوانوں اور طلبہ کی ایک منظم سیاسی جدوجہد کے بغیر حکمران طبقہ انسانی ہمدردی کی خاطر یہ اقدام اٹھانے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہو سکتا۔

طلبہ کی ایک ملک گیر جدوجہد اور ان کی ایک متحد طاقت کے ذریعے ہی تعلیمی نظام میں تمام طلبہ دشمن اور عوام دشمن پالیسیوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ طلبہ یونین کو بحال کرتے ہوئے تعلیم کو مکمل طور پر سرکاری تحویل میں لینے اور ہر سطح پر اس کی مفت فراہمی کی جدوجہد کے ذریعے حکمرانوں پر تعلیم دشمن پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے کیلئے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ طلبہ کی ایسی طاقت اور خاص طور پر طلبہ یونین کی طاقت کا اندازہ حکمران طبقے کو تھا اور ہے اسی لیے تو آج تک طلبہ یونین پر ہر حکومت نے پابندی قائم رکھی ہوئی ہے۔ مگر اب نا صرف حالات کا جبر اس ملک کے نوجوانوں اور طلبہ کو سخت مگر قیمتی اسباق سکھا رہا ہے بلکہ ان کے پاس جدوجہد کے سوا اور کوئی راستہ بھی نہیں بچا۔مگر یاد رہے، اس لڑائی کو سائنسی نظریات سے لیس کرنا ہوگا اور ملک گیر سطح پر منظم ہونا ہوگا۔ ہماری کامیابی اسی میں ہے۔

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں،اب زندانوں کی خیر نہیں!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.